پچھلے ماہ کشور ناہید نے مجھے ڈانٹا تھا کہ میرے ذکر کے بغیر تمہارا کالم مکمل نہیں ہوتا ؟ آج اس نے خود اپنا کالم میرے ذکر سے شروع کیا ہے جس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ؎
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
لکھتی ہیں کہ پاکستان میں شاعری کی کتابیں اتنی تعداد میں شائع ہوتی ہیں کہ یہ ظفر اقبال کا ہی حوصلہ ہے کہ نہ صرف ان سب کو پڑھ لیتا ہے بلکہ ان پر حتی المقدور حاشیہ آرائی بھی کر لیتا ہے۔ پچھلے دنوں ہندوستان سے دو شاعر آئے تھے‘ ہمارے بہت سوں سے اچھے مگر ظفر نے ان کو چھیڑا بھی اور چھوڑا بھی نہیں ۔ ناراض اس لیے ہیں کہ مہمانوں کی تو قدر کرنی چاہیے جبکہ لاہور میں جب خوشبیر سنگھ نے اشعار سنائے تو لاہوریوں نے کھڑے ہو کر نہ صرف اس کو داد دی بلکہ مزید شعر سنانے کی فرمائش کی...
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بھی یہ لکھا تھا کہ موصوف مشاعروں کے کامیاب شاعروں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ بھارت سے آنے والی شاعرات شعر سناتے وقت باقاعدہ گائیکی کا جادو بھی جگاتی ہیں۔ مشاعروں کے حوالے سے میں پہلے کہیں لکھ چکا ہوں کہ ان کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اس شعر بیزار معاشرے میں شاعری کا رونق میلہ لگائے رکھتے اور عامتہ الناس میں شعر کے ذوق کو مرنے نہیں دیتے‘ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مشاعرے کا کامیاب شاعر لازمی طور پر ایک جینوئن شاعر بھی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جینوئن شعراء بھی مشاعروں میں ایسی ہی شاعری پیش کرتے ہیں جو مشاعرے کے سامعین کے مزاج کے مطابق اور چالو قسم کی شاعری ہوتی ہے۔
پھر‘ مشاعروں کے ساتھ کچھ ایسی دلچسپ روایات بھی وابستہ ہو چکی ہیں جن کا اپنا ایک لطف ہے اور جو ایک مزیدار لطیفے کے طور پربھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ایک مشاعرے کے اختتام پر جب استاد احسان دانش نے اپنا جوتا ڈھونڈنے میں کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تو گلزار وفا چوہدری بولے ''استاد آپ جوتا ڈھونڈ رہے ہیں یا پسند کر رہے ہیں؟‘‘
ایک بار ایک مشاعرے سے پہلے گپ بازی ہو رہی تھی کہ خالد احمد بولے: ''میں تو ہر سال دس دن کے لیے بابا بلھے شاہ کے مزار پر جایا کرتا ہوں‘ وہاں صفائی کرتا ہوں اور عبادت‘‘ اس پر گلزار وفا چوہدری بولے۔
''تو وہ دس دن بابا جی کہاں جا کر رہتے ہیں؟‘‘
اسی طرح ایک بار مشاعرے ہی کے سلسلے میں ہم لوگ اسلام آباد جانے کے لیے ایک فوکر جہاز پر سوار تھے جو کافی دیر سے ٹیکسی ہی کر رہا تھاتو کسی نے پوچھا: ''ہم اسلام آباد کس وقت پہنچیں گے؟‘‘ تو گلزار وفا نے جوا دیا‘ ''اگر وزیر آباد والا پھاٹک کھلا ہوا تو کوئی دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے‘‘
آج ہی ایک دیرینہ نیازمند ساجد گل کا فون آیا کہ امریکہ سے ذوالقرنین آئے ہوئے ہیں ‘ میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارے دوست ذوالقرنین کسی زمانے میں فلم سٹار ریما کے عاشق زار ہوا کرتے تھے ۔ یہ کوئی 30سال پہلے کی بات ہے اور وہ اتنے ہی عرصے سے ریما سے عشق فرما رہے تھے۔ اب چونکہ ریما نے ان کے اور دیگر بہت سے مداحوں کے جذبات کا خون کرتے ہوئے شادی کر لی اور بچے بھی پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ موصوف کے عشق کا اب کیا عالم ہے۔ بہرحال ‘ ان سے بات ہوئی تو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اگلے دن سرور سکھیراکے ساتھ تھے جہاں آپ کو بھی یاد کیا جاتا رہا۔ اور یہ کہ وہ کچھ دنوں تک ان کے ساتھ ملنے کے لیے آئیں گے۔
سرورسکھیرا کا سنا تو جیسے سوکھے دھانوں پانی پڑ گیا۔ میں کئی دن سے موصوف کے ساتھ رابطے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میرے پاس جو ان کا پرانا نمبر تھا‘ شاید بند یا تبدیل ہو چکا تھا۔ چنانچہ ذوالقرنین سے ان کا نمبر لیا اور اس طرح ان سے بات ہو گئی۔ واضح رہے کہ جو ہمارے ''ان سنگ ہیروز‘‘ (Unsung Heroes)ہیں ‘ سرورسکھیرا اس فہرست میں پہلے نمبروں پر آتے ہیں۔''دھنک‘‘ ایک ایسا رسالہ تھا اور اس کی اس قدر دھوم مچی ہوئی تھی کہ باید شاید ۔ اس جیسا رسالہ نہ پہلے کبھی منظر عام پر آیا تھا اور نہ بعد میں آنے کا کوئی امکان ہے۔یہ پرچہ اعلیٰ سیاسی شخصیتوں میں بطور خاص پڑھا جاتا تھا اور اس کا انتظار رہتا تھا۔ اس کا دلچسپ ترین حصہ ایڈیٹر کی ''اِن اینڈ Out‘‘ کے نام سے وہ ادارتی تحریر ہوا کرتی تھی جس میں اندر کی کہانیاں حکام کی دلچسپ مخبریاں اور یہ کہ کون کیا کر رہا ہے وغیرہ ہوا کرتا تھا‘ جو زیادہ تر مبینہ طور پر بیگم نصرت بھٹو مہیا کیا کرتی تھیں۔ بھٹو صاحب کے سٹینڈنگ آرڈرز تھے کہ ہر ماہ دھنک کا تازہ پرچہ میری ٹیبل پر ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس وقت بھٹو صاحب کے بارے میں میری جلی کٹی شاعری وہاں مستقل چھپا کرتی تھی۔ مثلاً وہ غزل جس کا مطلع ہے‘ روٹی کپڑا بھی دے ،مکان بھی دے اور مجھے جان کی امان بھی دے۔مجھے کالم گاری کی طرف سرورسکھیرا ہی نے لگایا تھا۔ پرچہ ماہنامہ تھا‘ اس لیے ہر ماہ ایک کالم کا معاوضہ مبلغ75روپے بذریعہ منی آرڈر مجھے پہنچ جایا کرتے تھے۔ کہتے کہ یہ آپ کا سٹیشنری کا خرچہ ہے۔ ایسا شوخ اور اعلیٰ معیار کا پرچہ پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ مثلاً اس میں ایک بار کسی مقبول فلم اداکارہ کے ساتھ اپنی تصویر چھاپی اور نیچے کیپشن لگایا:
فرق صاف ظاہر ہے!
وہ بھٹو صاحب کی پھانسی کا زمانہ تھا جب انہوں نے اپنے رسالے میں یہ اشتہار چھاپا کہ ''دھنک‘‘ کا اگلا شمارہ ''جالندھر نمبر ‘‘ ہو گا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیاء الحق بھی جالندھر کے تھے اور انہیں سزائے موت دینے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس شیخ انوار الحق بھی جالندھر ہی کے تھے اور اس وقت کے ایم ڈی پی ٹی وی ضیا جالندھری بھی۔ ایک بار لکھا کہ ظفر اقبال کی اپنی بیگم سے لڑائی ہوئی تو وہ پلنگ کے نیچے جا گھسے ۔ بیگم نے کہا‘ اب باہر آئو‘ پلنگ کے نیچے کیوں جا بیٹھے ہو تو ظفر اقبال بولے ‘ ''یہ میرا اپنا گھر ہے ‘ جہاں مرضی آئے گی بیٹھوں گا‘‘۔
ان دنوں محمود احمد مودی‘ ضیاء ساجد اور حسن نثار ''دھنک‘‘ ہی میں لکھا کرتے تھے بلکہ اول الذکر دونوں تو شاید اس کی مجلس ادارت میں بھی شامل تھے۔ بعد میں یہ پرچہ کچھ عرصے کے لیے ہمارے دوست مسعود اشعر نے بھی نکالے رکھا لیکن ‘ وہ بات پیدا نہ ہو سکی۔دھنک سے الگ ہوکر حسن نثار نے اسی طرز کا ایک ماہنامہ غالباً ''تصویر‘‘ کے نام سے شروع کیا تھا ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
چنانچہ یہ پرچہ زیادہ دیر نہیں چلا۔
آج کا مطلع
دیکھتے دیکھتے ویراں ہوئے منظر کتنے
اُڑ گئے بامِ تمنا سے کبوتر کتنے