تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-03-2015

مشرف اور اعتزاز احسن

ملک کے مایہ ناز قانون دان اعتزاز احسن ایک نجی ٹی وی چینل کے میزبان (نعیم بخاری) کی جانب سے ایک انٹرویو کے دوران کئے گئے سوالات کے جواب میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے پیدا ہونے والے اپنے اختلافات کی وجوہ بیان کرتے ہوئے فرما رہے تھے: ''جب میرے سامنے سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے ارسلان افتخار کی کرپشن سے لدی ہوئی فائلیں رکھی گئیں تو میں نے ان الزامات کو تسلیم کرنا تو ایک طرف‘ سرے سے انہیں دیکھنے سے ہی انکار کر دیا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ خفیہ طاقتوں کی جانب سے افتخار چوہدری صاحب کی کردار کشی کیلئے کیا جا رہا ہے۔ یہ فائلیں عرصے تک میری میز پر پڑی رہیں۔ ایک دن میرے کچھ دوستوں نے مجھے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب ہمارے پاس بھی ارسلان افتخار کی کرپشن کے واضح اور نا قابل تردید ثبوت ہیں بلکہ ہم تو اب یہ بھی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس کرپشن میں وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں خاندان کے کچھ اور افراد بھی شامل ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں کی ان باتوں کو قطعاََ اہمیت نہیں دی‘ لیکن ان کے بار بار اصرار پر میں نے سوچا کہ ایک دفعہ ان فائلوں کو دیکھ لینے میں کیا حرج ہے‘‘۔ اعتزاز احسن نے مزید کہا: ''میں نے ایک وکیل کی حیثیت سے ان فائلوں کا باریک بینی سے مطالعہ شروع کر دیا۔ کچھ فائلیں میرے مذکورہ دوستوں نے بھی میرے حوالے کیں۔ مجھے انہیں دیکھنے‘ پڑھنے اور ان کی تحقیق و تفتیش میں ایک مہینہ لگ گیا۔ جوں جوں میں ان فائلوں کو دیکھتا رہا‘ میرے چودہ طبق روشن ہوتے گئے
اور پھر جب سب کچھ میرے سامنے آشکارا ہو گیا تو میں نے اپنا سر پکڑ لیا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے ضمیر کو ٹٹولا تو مجھے یہ تصور کرتے ہوئے شر م سی محسوس ہونے لگی کہ کہیںمیں بھی اس جرم میں باقاعدہ شریک تو نہیں۔ ارسلان افتخار کے بارے میں بولتی اور چیختی ہوئی ان فائلوں کی ایک ایک سطر کا عمیق نگاہوں سے کمپنی کیسوں کے ایک سینئر وکیل کی حیثیت سے جائزہ لینے کے بعد مجھے ذرا سابھی شک نہ رہا کہ ارسلان افتخار نے کرپشن کی انتہا کر دی تھی اور یہ کرپشن اس دیدہ دلیری سے کی جا رہی تھی‘ جیسے اس کے محرکین کو کسی قسم کا ڈر اور خوف نہ ہو۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں اپنے ہیرو اور دوست چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب سے بھی بات کر لی جائے تاکہ انہیں بتا دیا جائے کہ ان کی ناک کے عین نیچے بدعنوانی اور اختیارات کے نا جائز استعمال کی انتہا کی جا رہی ہے اور اگر یہ سب باتیں مکمل ثبوتوں کے ساتھ باہر آ گئیں تو ان کی عزت‘ شہرت اور وقار پر انمٹ دھبہ لگ جائے گا‘ جس کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور اس سے پیدا ہونے والی شرمندگی اکیلے ان کو ہی نہیں بلکہ ان ہزاروں وکلا کو بھی شرمسار کردے گی جنہوں نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر ان پر اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دیا تھا‘‘ ۔اعتزاز صاحب کا کہنا ہے کہ ''بڑی مشکل سے مجھے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے ملاقات کا وقت ملا اور جب میں نے یہ سب فائلیں مع
ثبوتوں کے ان کے سامنے رکھیں‘ تو بجائے اس پر کوئی بات کرنے کے وہ مجھے بری طرح گھورنا شروع ہو گئے اور ان کے چہرے پر اس قدر ناگواری کے رنگ آنے لگے کہ مجھے جلدہی وہاں سے اٹھ کر آنا پڑا لیکن میں نے یہ بات انہیں کہہ دی کہ آپ ارسلان افتخار سے متعلق عدالتوں میں پیش کئے جانے والے مقدمات سے خود کو الگ رکھیں تو یہ عدلیہ کے وقار کیلئے بہتر ہو گا لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی بلکہ بعد میں چوہدری افتخار صاحب نے چند مشترکہ دوستوں سے شکوہ شروع کر دیا کہ میرے بیٹے کو بدنام کئے جانے کی مہم میں اب اعتزاز احسن بھی شامل ہو گیا ہے‘ حالانکہ بخدا ایسا نہیں تھا بلکہ میں تو یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو سختی سے ان حرکتوں سے روک دیں جن سے ان کی بدنامی ہو رہی ہے اور انہیں برادرانہ مشورہ دیا کہ اپنے پیشے اور اختیارات سے متعلق کسی بھی معاملے میں اپنے بیٹے اور رجسٹرار ڈاکٹر فقیر محمد کو فائدہ حاصل کرنے سے منع کر دیں لیکن ایسا نہ ہونا تھا نہ ہو ا اور میری چیف جسٹس سے اس ملاقات کے بعد پہلے سے بھی زیادہ کرپشن شروع کر دی گئی‘‘۔ اعتزاز احسن نے سینیٹ اور ٹی وی پر جو کچھ کہا‘ کیا یہ وہی سوالات اور الزامات نہیں‘ جو سات مارچ 2007ء کو جنرل مشرف نے آرمی ہائوس میں افتخار چوہدری صاحب کے حوالے سے کئے اور لگائے‘ اور پھر ان سمیت دوسرے الزامات کی روشنی میں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیجا تھا۔ اس وقت پورے پاکستان میں ایم کیو ایم، ق لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو چھوڑ کر باقی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے علا وہ ملک بھر کی بار کونسلوں نے بھی عدلیہ کی بحالی کے نام پر وہ تحریک چلائی کہ خدا کی پناہ۔ پاکستان بھر کا میڈیا اور اینکر حضرات کے گروپ چوبیس چوبیس گھنٹے افتخار چوہدری کی نیک نامی اور جرأت و بہادری کی تعریفوں اور عدلیہ کی آزادی کا شور مچاتے ہوئے جنرل مشرف کے خلاف متحد ہو گئے اور خدا کی قدرت دیکھئے‘ اﷲ کا انصاف دیکھئے کہ وہی لوگ جو ایک سال تک جنرل مشرف کے افتخار چوہدری پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹ اور آمریت کا نام دیتے رہے‘ اب انہی لوگوں نے انہی الزمات کو سات سال بعد کوئی تین ہفتے ہوئے سینیٹ میں ایک ایک کر کے دہرانا شروع کر دیا ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کی جانب سے تو ان الزامات کی ایک لمبی فہرست با قاعدہ سوالات کی صورت میں سینیٹ کے ریکارڈ میں شامل کر دی گئی ہے اور اس سلسلے میں افتخار چوہدری کے خلاف سینیٹ میں قرار دار بھی پیش کی گئی لیکن پھر جناب نواز شریف اور شہباز شریف کی ذاتی درخواست پرآصف علی زرداری کو اپنے سینیٹ اراکین سمیت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو نا پڑا۔
جناب اعتزاز احسن اپنے ضمیر کی آواز کے مطا بق سینیٹ میں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ افتخار چوہدری اب میرا ہیرو نہیں رہا او ر بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ اپنی ریٹائر منٹ کے بعد ان کی جانب سے استعمال کی جانے والی نا جائز مراعات خلاف قانون ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ انہیں6000cc کی بلٹ پروف مرسیڈیز بینز گاڑی کس قانون کے تحت مہیا کی گئی ہے؟ کیا یہ سہولت پاکستان کے تمام سابق چیف جسٹس صاحبان کو میسر ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ مراعات صرف انہیں ہی کیوں اور کس نے فراہم کی ہوئی ہیں ؟
سینیٹ آف پاکستان میںپیپلز پارٹی کے سعید غنی کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات میں حکومت پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ا فتخار چوہدری کو جو چھ ہزار سی سی کی گاڑی فراہم کی گئی ہے ا س کیلئے غریب عوام کے ٹیکسوں سے ماہانہ4690 لیٹر پٹرول حکومت پاکستان کا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کیوں اور کس قانون کے تحت فراہم کر رہا ہے؟ اس گاڑی کے نام سے مرمت کیلئے اب تک3.3 ملین روپے کس نے کس مد سے جاری کئے ہیں؟ اگر لوگوں کو کچھ یاد رہ گیا ہے تو وہ چند سوالات بھی سامنے رکھ لیں جو جنرل مشرف کی جانب سے بھیجے جانے والے ریفرنس میں لکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔کیا نئے چیئر مین سینیٹ آئندہ اجلاس میں سعید غنی کے الزامات کی فہرست کے ساتھ جنرل مشرف کے افتخار چوہدری کو دیئے جانے والے ریفرنس کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنانا پسند فرمائیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved