یمن کی موجودہ جنگ آج کی نہیں‘ بہت پرانی ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی یمن میں مصر اور سعودی عرب ‘ ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار رہ چکے ہیں۔اب یمن میں دونوں اتحادی ہیں۔عرب لیگ ‘ ایک کانچ کا نازک سا ادارہ ہے‘جو فیصلے تو کر لیتا ہے لیکن عملدرآمد کے لئے اس کے پاس کوئی ڈھانچہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داخلی جھگڑوں میں‘ اس کے فیصلے مشاورت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔عرب لیگ کی تاریخ میں‘ یہ پہلا موقع ہے کہ چند عرب ملکوں نے‘ دوسرے عرب ملکوں کے خلاف‘ فوجی کارروائی کا منصوبہ بنایا ہے۔چونکہ اس مرتبہ عرب لیگ کا ایک حصہ اپنی برادری کے واحد‘ امیر ترین ملک کی جانب سے شروع کی گئی جنگ میں‘ متحدہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ جنگ طول پکڑے گی اور عرب لیگ کی تنظیم کے کچھ اراکین‘ سعودی عرب کے خزانوں سے استفادہ کریں گے۔دوسرے الفاظ میں مشرقِ وسطیٰ کے سارے سنی‘ تین شیعہ ملکوں یعنی عراق‘ شام اور یمن میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ہمارے بعض دانشوروں کو اعتراض ہے کہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں ،حالانکہ یمن پر‘ سعودی عرب نے جو فوجی کارروائی شروع کی ہے اور جس میں ہم سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں‘ درحقیقت یہ شیعہ سنی جنگ ہی ہے۔حوثی باغیوں کا یمن کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ ہو چکا ہے اورحساس نوعیت کے سارے شہروں پر ان کا کنٹرول ہے۔سعودی عرب اور یمن کے باہمی تعلقات کی نوعیت قابل غور ہے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ صدر ناصر کے مصر اور سعودی حکومت میں‘ یمن کی سرزمین پر ایک طویل جنگ ہو چکی ہے اور اس جنگ میں امریکہ سنی یمنیوں کا حامی اور سرپرست تھا جبکہ ناصر کا مصرشیعوں کا‘جو کہ اس دور کے سوشلزم سے متاثر تھے۔ اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے‘ یمنی بڑی تعداد میں سعودی فوج کا حصہ بنے۔ آج بھی سعودی فوج میں‘ ایک بڑا حصہ یمنی شہریوں پر مشتمل ہے۔ڈیڑھ لاکھ کی سعودی فوج میں ایک چوتھائی کے قریب یمن کے سنی ہیں۔سعودیوں کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ جب بھی اس فرقہ وارانہ جنگ میں‘ قومی جنگ کا عنصر شامل ہو گا‘ سعودی فوج میں شامل یمنی‘ بغاوت بھی کر سکتے ہیں۔یہی باعث ہے کہ سعودی عرب ‘ زمینی جنگ شروع ہونے کی صورت میں‘ اپنی فوج پر بھروسہ نہیں کر سکے گا ۔ صورت حال بہت عجیب و غریب ہے۔ عرب لیگ کے سنی مسلمان اراکین‘ شیعہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے جمع ہوئے ہیں لیکن جس سعودی عرب کے وہ اتحادی بنے ہیں‘ وہ خود اپنی فوج کے ساتھ زمینی جنگ میں حصہ لینے کے معاملے میں‘ محتاط رہنے پر مجبور ہے۔
مشکل یہ ہے کہ سعودی عرب کواپنے ہم مسلک سنی باغیوں سے بھی خطرات درپیش ہیں۔ داعش‘ جو اس وقت شام اور عراق میں شیعوں کے خلاف برسرپیکار ہے‘ سنی ہونے کے باوجود‘ سعودی عرب کے خلاف کارروائیوں کے عزائم بھی رکھتی ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو وہ شیعوں کے ساتھ جنگ میں‘ انتہا پسندانہ سنی نظریات رکھنے والوں کو منظم کر رہی ہے اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس کا خلیفہ ابوبکرالبغدادی‘ حرمین شریفین پر قبضے کا ارادہ رکھتا ہے۔جن حوثیوں پر سعودی عرب نے حملہ کیا ہے‘ تادم تحریر وہ‘ حرمین شریفین پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے‘ صرف اپنے ملک میںاقتدار پر قبضے کے خواہش مند ہیں۔یہاں ایک اور وضاحت کرنا ضروری ہے کہ حوثی‘ عقیدے کے اعتبار سے مکمل شیعہ نہیں۔ وہ ایک علیحدہ طرز فکر رکھتے ہیں لیکن سیاسی ضروریات کے تحت‘ ایران ان کی درپردہ مدد کر رہا ہے۔وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا لیکن حوثیوں کو مالی وسائل اور کسی حد تک اسلحہ‘ ایرانیوں کی طرف سے بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔یمن میںاب تک جس حکومت کو قانونی کہا جا تا تھا‘ اس کے سربراہ عبدالرب منصور ہادی تھے‘ جو اب فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔یمن کی جنگ ایک اعتبار سے قبائلی جنگ بھی ہے۔ بہت سے قبائل ایسے ہیں‘ جن کی ایک برانچ سعودی عرب کے اندر بھی ہے۔ابھی تک بیشتر قبائل صدر ہادی کے ساتھ تھے لیکن جیسے جیسے حوثیوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے‘یمنی قبائل بھی ‘ان کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں اور جوں جوں وہ مضبوط ہوں گے بلکہ بڑی حد تک ہو بھی چکے ہیں‘ اس جنگ کا طول پکڑنا لازم ہے۔سعودی عرب‘اپنی سرحدوں کے ساتھ‘ ایک ایسے دشمن کو آزاد ملک بنانے کا موقع نہیں دے گا‘ جو اس کے لئے کسی بھی وقت خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ایک اور بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ یمن میں‘ سعودی عرب جو بمباری کر رہا ہے‘ اس کا نشانہ عام یمنی بھی بن رہے ہیں اور ان میں سعودی فوج میں شامل یمنیوں کے اہل خاندان بھی۔یہ صورت حال خونی رشتوں کے حوالے سے متاثرین کو اضطراب میں مبتلا کر سکتی ہے‘ جس کا واضح مطلب سعودی فوج میں شامل یمنی نسل کے لوگ ہیں۔ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی تباہی اور ہلاکتوں پر کب تک صبر کریں گے؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اپنے اتحادیوں سے جو فوجی مدد طلب کر رہا ہے‘ وہ صرف یمن میں باغیوں کو کچلنے کے لئے ہی نہیں بلکہ اندرون ملک پیدا ہونے والی بے چینی کو روکنے کے لئے بھی ہے۔
یمن پر فوری بمباری کی ضرورت کس لئے محسوس کی گئی؟حالات حاضرہ سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ عراق کی موجودہ شیعہ حکومت‘ یمن کے حوثیوں کو اسلحہ بلکہ تربیت یافتہ افرادی قوت بھی مہیا کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ہوائی جہازوں کے ذریعے‘ یمن پہنچایا جا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی فضائی حملے کا پہلا نشانہ‘ یمن کے ایئرپورٹ بن رہے ہیں‘ تاکہ حوثیوں کو براہ راست امداد پہنچنے کا راستہ بند کیا جائے۔ایک دلچسپ اطلاع یہ ہے کہ شیعہ رضاکاروں میں بہت سے افغان شیعہ بھی شامل ہیں‘جنہوں نے داعش کے خلاف لڑائی میں عراقی رضا کاروں کے ساتھ مل کر‘ کارروائیوں میں حصہ لیا اورا ب وہ یمن میں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ہمارے سرکاری ترجمان ایک بات تکرار کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب کی سرزمین پر جارحیت کی گئی تو اس کی حفاظت کے لئے‘ ہمیں بھی کردار ادا کرنا ہو گا۔عام پاکستانی یہ سمجھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی سرحدوں کی خلاف ورزی کا‘ مستقبل قریب میں کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حوثی ‘ جو یمن کے بڑے حصے پر اپنا کنٹرول قائم کر چکے ہیں‘انہیں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں مختلف قبائلیوں کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے سعودی بمباری سے پھیلنے والی تباہی میں اضافہ ہو گا‘اسی قدر یمنی عوام میں ردعمل بھی پیدا ہوگا۔حوثیوں نے پسپا ہونے والی یمنی فوجوں کے اسلحے کے بڑے بڑے ذخائر پر قبضہ کیا ہے‘ان میں سکڈ بلاسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔ اگر حوثیوں نے بمباری کا نشانہ بننے والے‘ مختلف قبائل کے اشتعال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘سعودی سرحدوں کی خلاف ورزی شروع کر دی اور جیسا کہ اندیشہ ہے‘ انہوں نے سکڈ میزائل بھی استعمال کر لئے تو جنگ ایک نیا رخ اختیار کر لے گی۔جنگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے‘دونوں ملکوں کی حقیقی صورت حال یہ ہے کہ دو طرفہ جنگ میں‘دونوں ملکوں کے داخلی حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔یمن تو پہلے ہی لاقانونیت کی لپیٹ میں ہے لیکن سعودی معاشرہ بھی اتنا مستحکم نہیں۔اس کے اندر بھی تضادات پائے جاتے ہیں اور ایسے عناصر کی بھی کمی نہیں‘ جو موجودہ نظام میں تبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں۔یہ دوہرا خطرہ‘سعودی عرب کی حکومت کے لئے پریشان کن ہے۔
امریکہ خطے میں مستقبل کی سیاست کا جو نقشہ تیار کر رہا ہے‘اسے حقیقت میں بدلنے کے لئے‘وہ سعودی عرب کوجنگ میں‘ عملی حصہ لینے والی افرادی قوت فراہم نہیں کر سکتا۔سوئٹزرلینڈ میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر جاری مذاکرات‘ امریکہ کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ خطے میں کوئی ایسا اقدام کر بیٹھے‘ جس کے نتیجے میں کامیابی کے نزدیک پہنچے ہوئے مذاکرات متاثر ہوں۔ افغانستان کے تجربے کے بعد‘ مغرب کی دوسری کوئی فوجی طاقت بھی سعودی عرب کواپنے فوجی دستے مہیا نہیں کر ے گی۔ اس پورے منظر نامے کا جائزہ لینے کے بعد‘ یہ بات ابھر کے سامنے آتی ہے کہ خطے کا کوئی ملک ‘سعودی عرب کو فوجی دستے مہیا نہیں کر پائے گا اور خطے کے اندر ایسا کوئی ملک موجود نہیں‘ جس کی فوج‘ اس کے اپنے دفاع کے لئے بھی کافی ہو۔یہی وجہ ہے کہ تمام امید بھری نظریں ‘پاکستانی فوج پر لگی ہیں۔ہمارے سامنے امریکہ کا تجربہ موجود ہے‘ جو ایک مخالف آبادی میں اپنی فوجیں اتارکے ہزیمت سے دوچار ہوا۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ عربوں کی اس باہمی جنگ میں‘عرب لیگ کیا مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے؟ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خود سعودی عرب‘ کسی برادر عرب ملک کی فوجوں کو‘ اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دے گا۔عرب برادری میں سب سے بڑی فوج رکھنے والا مصر‘خطے میں اپنے عزائم رکھتا ہے اور اسے مالی وسائل کی ازحد ضرورت ہے۔صدر ناصر نے سیاسی اعتبار سے عرب دنیا پر غلبہ پانے کی کوشش کی تھی‘ جس میں وہ مغربی بلاک کی مزاحمت کے باعث کامیاب نہ ہو سکے لیکن اگر سعودی عرب نے رضا مندی سے اس کے فوجی‘ اپنے ملک میں بلا لئے تو ضروری نہیں کہ مصر صرف سعودی عرب کی جنگ لڑے۔وہ اپنی فوجیں‘ اپنے لئے بھی استعمال کر سکتا ہے‘ اس کا اندازہ خود سعودی حکومت کو بھی ہے۔