تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     30-03-2015

اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ!

ملک کی چھ دینی جماعتوں نے سعودی عرب کے دفاع کے حوالے سے ایک فورم قائم کیا ہے جس کا نام '' تحریک دفاع حرمین شریفین‘‘ رکھا گیا ہے۔ ''وفاق المدارس‘‘ سے وابستہ علماء نے ایک مشترکہ بیان الگ جاری کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وفاق المدارس سے وابستہ لاکھوں علماء اور طلبہ حرمین کے دفاع کا فریضہ سرانجام دینے والوں کی پشت پر ہیں۔
یہ تو ایک مسلک کا قصہ ہے۔ دوسرے دو مسالک کی تنظیموں کے عہدیداروں نے واضح کیا ہے کہ اگر پاک فوج کے دستے بھیجنے کا فیصلہ کیاگیا تو اس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ عوامی سطح پر احتجاج کیا جائے گا اور '' پاکستانی فوج کو کرائے کی فوج نہیں بننے دیاجائے گا‘‘۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اس صورت حال کی جو ایک اور جنگ میں کودنے سے ملک کے اندر پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ اس فلم کا محض ٹریلر ہے جس کی تفصیل کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا ذمہ دار ایران ہے یا سعودی عرب ہے یا داعش ہے یا القاعدہ ہے تو وہ اپنے علم کا قبلہ درست کرے اور سطحیت سے اوپر اٹھ کر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ‘ ذہن کے دریچوں کو کھلا رکھ کر‘ کرے۔ کئی سو سال پہلے کی تاریخ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف گزشتہ ایک صدی کی تاریخ کا مطالعہ کرلے۔ اسے معلوم ہوجائے گا کہ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے، اچانک نہیں ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے جو اسرائیل کے بانیوں نے اور بانیوں کے بعد معماروں نے کی ہوئی ہے اور جس میں کرۂ ارض کی سب سے بڑی عسکری اور سیاسی طاقت اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سب سے پہلے عراق کا خاتمہ تھا‘ اس لیے کہ عراق عرب ریاستوں میں سب سے زیادہ مضبوط ، منظم اور عسکری حوالے سے قابل رشک تھا۔ عراق کی شکست و ریخت کے بعد ایک بند تھا جو کھل گیا۔ منصوبے کا لب لباب یہ ہے کہ شرق اوسط کی تمام عرب ریاستوں کو مسالک اور فرقوں کی بنیاد پر پارہ پارہ کیاجائے۔ عراق کو تین حصوں میں بانٹ دیاجائے‘ شیعہ عراق، سنی عراق اور کرد عراق۔ عملی طور پر یہ تقسیم ہوچکی ہے۔ اس کے بعد شام کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔ ساحلی پٹی کے ساتھ ''علوی‘‘ ریاست قائم کی جائے ۔ حلب کے علاقے میں سنی حکومت بنے۔ دمشق کے علاقے میں ایک اور سنی ریاست قائم ہو جو شمال میں واقع علوی ریاست سے لڑتی جھگڑتی رہے۔دروزیوں کی ایک علیحدہ ریاست کی گنجائش بھی نکالی جائے۔
یہ اس منصوبے کی ایک جھلک ہے جو اسرائیلی انٹیلی جنس اور اسرائیلی افواج نے بنایا ہوا ہے۔ اس منصوبے کی تفصیل ہم کسی آئندہ کالم میں بیان کریں گے۔
شرق اوسط کی اس شکست و ریخت میں اگر کوئی ایک مسلمان ملک ، ایک فرقے کی مدد کررہا ہے اور کوئی دوسری مسلمان قوت کسی دوسرے فرقے کی حمایت کررہی ہے تو وہ نادانستہ اس منصوبے کی تکمیل میں معاونت کررہی ہے۔
یہ جو بظاہر ایک کنفیوژن نظر آرہا ہے کہ امریکہ کہیں ایران کا ساتھ دے رہا ہے اور کہیں مخالفت کررہا ہے تو یہ کنفیوژن اصل میں منصوبے کی تکمیل کا حصہ ہے۔ عراق میں داعش کے مقابلے میں امریکہ ایران کے ساتھ کھڑا ہے اور یوں شام کے آمر حکمران بشارالاسد کا بالواسطہ بازو بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف یمن میں سعودی عرب کا حمایتی بنا ہوا ہے۔ تیسری طرف اسرائیل کی پانچوں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہے کہ داعش نے بیک وقت شام اور ایران کے ساتھ ٹکر لی ہوئی ہے اور عراق کی شیعہ حکومت کو بھی ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔ یوں جو کام اسرائیل نے کرنا تھا وہ داعش کررہی ہے!
ایک اور تنازع جو مبصرین حضرات نے چھیڑا ہوا ہے یہ ہے کہ کیا یمن میں حوثی قبیلہ کا عروج اور سعودی حملہ فرقہ واریت کا شاخسانہ ہے یا محض اقتدار کا کھیل ہے۔ یہ موقف کہ یہ فرقہ واریت نہیں ہے، محض طاقت کے حصول کی کشمکش ہے‘ مضبوط نظر آتا ہے۔ اس کے حق میں واضح دلائل بھی ہیں‘ مگر ایران جس طرح حوثی قبیلہ کی مدد کررہا ہے اس سے یہ کشمکش اگر طاقت کے حصول کے لیے بھی تھی تو فرقہ وارانہ شکل اختیار کرچکی ہے۔جس طرح لبنان کی حزب اللہ عملی طور پر ایران کی ذیلی تنظیم بن چکی ہے، حوثی کمیونٹی بھی اسی راہ پر چل رہی ہے۔ ایران کے پاس اس الزام کا کوئی جواب نہیں کہ ایرانی ہتھیار یمن میں استعمال ہورہے ہیں، اس ضمن میں سمگلروں کا نام بھی لیا جارہا ہے جو کشتیوں کے ذریعے حوثیوں کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔
اس حقیقت سے خود ایران بھی انکار نہیں کرتا کہ وہ اپنے مغرب میں واقع مسلمان عرب ممالک میں اپنی ہم مسلک اقلیتوں کو ایک موثر اور کہیں کہیں جارحانہ پریشر گروپوں کی صورت میں ابھار رہا ہے۔ لبنان میں ایرانی اثرو رسوخ تو اب اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ حزب اللہ رواں تاریخ کے ایک اہم باب کی صورت میں اپنا نقش بٹھا چکا ہے۔ یہی صورت حال عراق میں ہے جہاں ایران کی مداخلت کھلم کھلا ہورہی ہے۔ بحرین میں شیعہ اکثریت ہے اور حکومت سنی ہے۔ رہا یمن تو حوثی قبیلہ کل آبادی کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں۔ اسی طرح ایک اور انتہائی اہم اور مرکزی حیثیت رکھنے والے ملک میں بھی ایران اپنی ہم مسلک اقلیت کو پریشر گروپ بناکر طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایران کا رویہ مختلف ہوتا اور مسلک کے اردگرد نہ گھومتا تو آج سعودی عرب کی صف میں متحدہ عرب امارات اور ترکی نہ کھڑے ہوتے۔
سعودی عرب اور ایران دونوں پر لازم ہے کہ شرق اوسط پر نظر ڈالنے کے لیے اپنی اپنی عینک تبدیل کریں اور حالات کو اپنی اپنی ریاست کے نقطۂ نظر سے نہیں، اسرائیل کے نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ آج اگر کہیں امریکہ ایران کا ساتھ دے رہا ہے اور کہیں سعودی عرب کا تو کیا یہ اس حقیقت کا بیّن ثبوت نہیں کہ وہ کسی کا دوست نہیں اور اس کی دور رس نگاہ صرف اور صرف اپنا نشانہ دیکھ رہی ہے۔ ایسا نشانہ جسے دوسروں کی آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں اس لیے کے ان آنکھوں پر وقتی مصلحتوں کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔
اگر ترکی اور پاکستان جیسی غیر عرب طاقتیں بھی اس جنگ میں کود پڑی ہیں تو امریکہ اور اسرائیل کے لیے تو وہی بات ہوگی کہ آگ لینے کو جائیں ، پیمبری مل جائے ! ان کا ایجنڈا اپنی تکمیل کو تیزی سے پہنچے گا۔ ترکی اور پاکستان دونوں براہ راست نہیں تو بالواسطہ ہی سہی، ایران کے مقابل صف آرا پائے جائیں گے۔ شرق اوسط کا نقشہ تبدیل کرنے والے ایک تیر سے دو شکار کررہے ہوں گے!
اگر اب بھی اسرائیل کے ہر گھر میں گھی کے چراغ نہ جلیں تو کب جلیں گے؟ شام سے لے کر عراق تک اور صنعا سے لے کر عدن تک ہر جگہ مسلمان ، مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ مرنے والے بھی کلمہ پڑھ کر مر رہے ہیں اور مارنے والے بھی اللہ اکبر کانعرہ لگاکر مار رہے ہیں۔ جو اپنے آپ کو سنی سمجھ کر شیعہ کو قتل کررہا ہے، وہ بھی امریکہ اور اسرائیل کو خوش کررہا ہے اور جو اپنے آپ کو شیعہ کہہ کر سنی کو نیست و نابود کررہا ہے وہ بھی سنی کا نہیں کسی اور کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچا رہا ہے ؎
اے خاصہ خاصانِ رسلؐ! وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved