کراچی چیمبر آف کامرس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریر ہو یا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات میں معاشی ترقی کا ذکر‘ ان کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ بھارت میں نیو لبرل ازم کے علمبردار نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت ہو یا پاکستان میں دائیں بازو کی نیم مذہبی مسلم لیگ ن کا اقتدار، یہ ''جمہوری‘‘ حکمران صرف سرمایہ داروں اور سامراجی قوتوں کے نمائندے ہیں‘ جو اپنے طبقے کی لوٹ مار کو یقینی بنا رہے ہیں اور عوام کو کھلی معاشی جارحیت میں کچلتے جا رہے ہیں۔
میڈیا کے مباحث اور ریاستی نمائندوں کے بیانات میں جس معیشت کا ذکر ہوتا ہے اس کا عام انسانوں سے صرف استحصال اور بربادی کا تعلق ہے۔ نواز لیگ کی حکومت نے آتے ہی شرح سود مسلسل کم کرنے کا جو عمل شروع کیا تھا‘ وہ عوام پر حکمران طبقے کے خونی وار کے مترادف ہے۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ بینکوں سے انتہائی سستے قرضے حاصل کر رہا ہے۔ کم شرح سود پر حاصل کی گئی یہ رقم پیداواری صنعت میں انویسٹ کرنے کی بجائے سٹاک ایکسچینج یا ریئل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں کی سٹہ بازی میں لگا کر دولت کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ نتیجتاً ایک تو نیا روزگار پیدا نہیں ہو رہا اور دوسری طرف سفید پوش طبقے کی عمر بھر کی کمائی لٹ رہی ہے۔ شرح سود میں تقریباً 40 فیصد گراوٹ ان بزرگوں کے لئے المناک صدمہ ہے جو اپنی پنشن یا دوسری جمع پونجی بینک میں رکھ کر تھوڑی بہت ماہانہ آمدن سے ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ علاج یا رہائش تو دور کی بات، یہ بے چارے اب روٹی سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ نچلے درمیانے طبقے کا بڑا حصہ معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔
غریبوں کی کمائی لوٹنے والے جمہوریت کے یہ ٹھیکیدار، خلق خدا پر جو ظلم ڈھا رہے ہیں‘ اس سے ان کی ''خدا خوفی‘‘ کا پول بھی کھل رہا ہے۔ ایک اور حوالے سے ملکی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو روپے کی قیمت کو مصنوعی طور پر بلند رکھنے سے ملکی برآمدات میں کمی آرہی ہے۔ تجارت اور برآمدات کو بڑھانے کے دعوے کرنے والے اپنے ہی نظام کی معیشت کا بیڑا غرق کر رہے ہیں‘ لیکن ان کی یہ لاپروائی اور بے حسی اتنی بے سبب بھی نہیں۔ اس حکومت کے سرمایہ دار آقا اتنے محب وطن ہیں اور ان کو اپنے نظام پر اتنا اعتماد ہے کہ دھڑادھڑ دولت لوٹ کر ڈالر، پائونڈ یا یورو کی شکل میں بیرونی بینکوں میں منتقل کر رہے ہیں اور بوقت ضرورت بھاگنے کے لئے اپنا بوریا بستر ہر وقت تیار رکھے ہوئے ہیں۔ روپے کی قیمت کو صرف اس لئے بلند کیا گیا ہے کہ غیر ملکی کرنسی میں زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیا جا سکے۔ اس واردات میں مستقبل کے لئے بھی ایک آپشن موجود ہے۔ اگر انہیں اپنے اقتدار کو طوالت دینے کا موقع ملا تو روپے کی قدر گرا کر سستی خریدی ہوئی غیر ملکی کرنسی کو مہنگا فروخت کر کے اور مال بنائیں گے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ پاکستان جیسے غریب اور بدحال سماج پر براجمان سرمایہ دار اور سیاستدان دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے خود تسلیم کیا ہے (اور بعد میں مکر گئے) کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہیں۔ یہ کون سے ''پاکستانی‘‘ ہیں، ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے۔ اس سے قبل میڈیا پر پاکستان سے لوٹے گئے 500 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں ہونے کی خبر بھی گردش کرتی رہی۔ یہ صرف سوئس بینکوں کے اعداد و شمار ہیں‘ جو حکمران طبقے کی لوٹ مار کی صرف ایک جھلک ہے۔
27 مارچ کو وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ سرکولر ڈیٹ (گردشی قرضہ) پھر سے 258 ارب روپے ہو چکا ہے جبکہ بجلی پیدا اور سپلائی کرنے والے ''اداروں‘‘ کے ذمے 552 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ بات گول مول کرنے کی تمام تر کوشش کے باوجود موصوف اس حقیقت کو نہیں چھپا سکے کہ یہ رقم ان کے طبقے کے افراد کی طرف ہی واجب الادا ہے‘ جو حکومت وصول کر سکتی ہے‘ نہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ ڈاکو ناصرف پورے پروٹوکول میں دندناتے پھرتے ہیں بلکہ بڑے نیک بھی بنے پھرتے ہیں‘ لیکن یہی تو اس حکومت کی اصلیت ہے جس کا کام اب مافیا سرمایہ داروں کا تحفظ کرنا ہے، پکڑنا یا سزا دینا نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں نیب نے صرف پانچ ارب روپے کی وصولی کرائی‘ جبکہ اس سے دس گنا سے بھی زیادہ واجب الادا رقوم کے کیس اس کے پاس پڑے ہیں۔
بجلی کے شعبے میں سرمایہ داروں کی خورد برد کا سارا بوجھ صارفین پر ڈالنے میں حکومتی ادارے خاصے تیز اور ماہر ہو چکے ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ کے الیکٹرک دھڑلے سے حکومت کی سستی بجلی مہنگے داموں صارفین کو بیچ رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار کی بات کی جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ عوام کے پیسوں سے لگنے والے پروجیکٹوں میں نجی شعبے کا کیا کام ہے؟ غریب عوام کے ساتھ اس سے بڑا کوئی کھلواڑ ہو سکتا ہے؟ بجلی کس قیمت پر بنائی اور کس قیمت پر بیچی جا رہی ہے؟ پلانٹ چلے نہ چلے حکومت 60 فیصد گنجائش کے مساوی ادائیگی ان آئی پی پیز کو کرنے کی پابند ہے۔ نجی سرمایہ کاری کے ہر ایک ڈالر کے بدلے 83 ڈالر عوام نے بھرے ہیں، اربوں ڈالر سالانہ کا منافع یہ سرمایہ دار ہر سال کما رہے ہیں اور حکومت کی گارنٹی پر آئی پی پیز کو جاری ہونے والے قرضوں کا سود آج تک عوام بھر رہے ہیں۔ ان کمپنیوں کی من مانی شرائط پر 1990ء کی دہائی میں ہونے والے معاہدوں کے سامنے ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کا ظلم و استحصال بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ اس پر کوئی بات کرتا ہے نہ کرے گا۔ عوام کو دینے کے لئے بس آئین‘ جمہوریت اور قومی سلامتی کے درس ہیں۔
اب آئی ایم ایف سے تین سال کے ''پیکج‘‘ کے تحت 6 ارب 60 کروڑ ڈالر کا مزید قرضہ لیا جا رہا ہے۔ یہ ''پیکج‘‘ دراصل عوام کو حاصل رہی سہی سہولیات، روزگار اور سبسڈی ختم کرنے کے منصوبے کا نام ہے۔ آئی ایم ایف کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر نعمت شفیق کے مطابق ''اصلاحات کے پیکج‘‘ سے مالیاتی خسارہ کم ہو گا اور ''سٹرکچرل تبدیلیاں‘‘ کی جائیں گی جس سے سرمایہ کاری اور شرح نمو میں اضافہ ہو گا۔ گھما پھرا کر ''سافٹ‘‘ زبان میں کی جانے والی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کی ملازمتیں، پنشن، میڈیکل سہولیات وغیرہ جو بچی ہیں وہ بھی ختم کی جائیں گی، ہر شعبے میں دیہاڑی اور ٹھیکیداری نظام رائج کیا جائے گا۔ نئے بالواسطہ ٹیکس لگائے جائیں گے اور عوام میں خون کی باقی ماندہ بوندیں بھی نچوڑ لی جائیں گی۔ اس پیکج کا اجرا ان اقدامات سے مشروط تھا‘ جو اسحاق ڈار نے چند روز قبل کیے‘ یعنی سرمایہ داروںکے لئے شرح سود میں کمی اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے لئے ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی وغیرہ میں مزید چھوٹ۔ آئی ایم ایف کے جنم اور وجود کا مقصد ہی تیسری دنیا کے محنت کش عوام کو نوالہ تر بنا کر سامراجی اجارہ داریوں اور بینکوں کے سامنے پلیٹ میں پیش کرنا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے حکمران اس ڈاکہ زنی میں کمیشن ایجنٹ ہیں۔
یہاں کا حکمران طبقہ اور اس کی سیاست اس سوچ کی حامل ہے کہ محنت کش طبقہ مکمل طور پر شکست خوردہ ہو کر سیاسی طور پر مر چکا ہے۔ سابق بائیں بازو کے کچھ دانشوروں کے نزدیک تو مزدور طبقہ ختم ہی ہو چکا اور اب سارے ''مڈل کلاس‘‘ بن گئے ہیں۔ اسی نفسیات کے تحت یہ حکمران محنت کشوں پر معاشی جارحیت کے وار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مایوسی یا جمود کے عہد میں حکمران طبقات بھول جاتے ہیں کہ بغاوت اور انقلابات بھی تاریخ کے بنیادی اجزا ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جنہیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے وہ پلٹ کر وار کریں گے اور معاشی جارحیت کے اس سیاسی، معاشی اور ریاستی ڈھانچے کو ہی پاش پاش کر ڈالیں گے۔ ان حکمرانوں نے اپنے جبر و استحصال سے ان محنت کشوں کو صدیوں مجروح اور گھائل کیا ہے لیکن محنت کش طبقہ جب اٹھے گا تو اس بغاوت کی ایک ضرب بھی یہ حکمران اور ان کا نظام نہ سہہ پائے گا۔