تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-03-2015

ایک تشنہ سوال

کسی نئے ملک‘ کسی نئی جگہ جاکر میری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں کے لوگوں سے گفتگو ہو‘ ان سے نئی باتوں کا پتا چلے‘ وہاں کے حالات سے آگاہی ہو‘ معلومات میں اضافہ ہو اور نیا دن علم کے حصول سے محرومی کے ملال میں نہ گزر جائے مگر صرف کوشش سے کیا ہوتا ہے؟
اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ بیرون پاکستان مقیم پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ یہ شخص پاکستان سے آیا ہے‘ اس لیے اس کے پاس یقینا ایسی باتوں کا ذخیرہ ہوگا جن سے وہ لاعلم ہیں‘ لہٰذا وہ الٹا پوچھنا شروع کردیتے ہیں۔ اگر اس گمان سے بچ جائیں تو دوسری مہربانی یہ ہوتی ہے کہ یہ شخص اخبار میں لکھتا ہے اسے یقینا کچھ ایسی باتوں کا پتا ہوگا جو ہم سے پوشیدہ ہیں۔ تب سوال عموماً اس قسم کا ہوتا ہے کہ '' آپ کو اندر کی باتوں کا پتا ہوگا آپ ذرا بتائیں کہ...‘‘۔ آپ اس کے جواب میں خواہ حقیقت ہی بتادیں کہ کچھ پتا نہیں ‘ اکثر لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔ کئی شکی حضرات تو دبے لفظوں میں سنا دیتے ہیں کہ آپ اخبار نویس حضرات لوگوں کو سچ بتانا ہی نہیں چاہتے۔ ذرا مہذب انداز میں یہ شکوہ کرتے ہیں کہ راز داری صحافت کا لازمہ ہے مگر ہمیں کچھ اشارتاً ہی بتادیں کہ کیا ہونے جارہا ہے؟
میں بزم سخن ہانگ کانگ کے متحرک نائب صدر محمد لیاقت کے پاس دفتر میں بیٹھا ہوا تھا‘ جب طاہر اقبال چودھری آیا اور کہنے لگا کہ کہیں باہر چلتے ہیں۔ زیادہ دیر ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا میرے لیے کافی مشکل کام ہے اور میں خود کو اب اس مشکل میں محسوس کرنے ہی لگا تھا کہ یہ آفر آگئی۔ میں فوراً اٹھ بیٹھا اور طاہر کے ساتھ باہر چل پڑا۔ مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ اس نے چلنے کا کہا اور میں چل پڑا۔ لیاقت کا دفتر ہانگ کانگ کے مشہور کاروباری علاقے '' چم شاچوئی‘‘ (Tsim Sha Tsui) میں ہے۔ یہ علاقہ خالص کاروباری اور کمرشل ہے۔ ہانگ کانگ کا مہنگا ترین بزنس سنٹر ہے۔ صرف ایک کلومیٹر کے علاقے میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں اور اس سلسلے میں ہونے والے معاشی لین دین کا اندازہ صرف ایک چیز سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں رولیکس گھڑیوں کی کم از کم چھ دکانیں تو میں نے خود دیکھیں۔ یہ گھڑیاں اپنی گراں قیمت کے باعث امراء کی گھڑیاں سمجھی جاتی ہیں۔ بقول ایک دوست کے ایک ایک دکان میں کئی کئی ارب روپے کی گھڑیاں پڑی تھیں۔ ایک گھڑی کی قیمت لاکھوں سے شروع ہوکر کروڑوں روپے تک جاتی ہے۔ اتنی دکانوں کی موجودگی یہ ثابت کرتی تھی کہ یہاں خریداری اور خریدار کا کیا معیار ہے۔ یہ صرف ایک سڑک کی بات ہے۔ اردگرد نکلنے والی درجنوں سڑکوں کا حال بھی یقینا ایسا ہی ہوگا۔ صرف رولیکس پر ہی کیا موقوف اسی سڑک پر دوسری قیمتی گھڑیوں کی ایک سے زائد دکانیں موجود تھیں۔ پیٹک فلپ، کارٹیئر اور اومیگا وغیرہ کی دکانیں بھی موجود تھیں اور ان میں گاہک بھی نظر آرہے تھے۔ دنیا کے مہنگے ترین فیشن برانڈز اور دیگر اشیا کی دکانوں کی بھرمار تھی اور دکاندار فارغ بھی نظر نہیں آرہے تھے ۔ ہانگ کانگ خود شاید اب کچھ نہیں بناتا۔ چین اور دنیا بھر کا مال یہاں موجود ہے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے دولت مند گاہک بھی۔ نتیجہ خوشحالی ہے۔ تاہم لا اینڈ آرڈر اور سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ آدھی رات کو بھی آپ اپنی جھولی میں نوٹوں کو سجائے بازار سے گزریں تو لٹنے کا گمان تک نہیں۔ چوری چکاری کی ایک آدھ واردات دنیا میں کہیں بھی ممکن ہے اور کوئی غیر معمولی بات بھی نہیں مگر لوٹنے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں کہ قانون موجود ہے اور اس پر عملدرآمد کرنے والی حکومت بھی پورے ارادے سے موجود ہے۔ ہمارے ہاں قانون تو ہے مگر اس پر عملدرآمد کروانے کے لیے جو ارادہ اور نیت درکار ہے وہی موجود نہیں۔
میں طاہر اقبال کے ساتھ مارکیٹ کے اوپر پہلی منزل پر قائم لیاقت کے دفتر سے نکل کر بازار میں آگیا۔ تھوڑی دور سڑک کے کنارے چھ سات نوجوان موجود تھے۔ یہ سب پاکستانی تھے۔ طاہر کے ساتھ مجھے دیکھ کر سب کے چہرے کھل گئے۔ ایک نوجوان کہنے لگا ہمیں امید نہیں تھی کہ آپ آجائیں گے‘ ہم نے تو بس جوا کھیلا تھا اور طاہر کے ساتھ آگئے تھے۔ ہم سب باتیں کرتے رہے اور سڑک پر چلتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد ہم وکٹوریہ ہاربر کی '' ایونیو آف سٹارز‘‘ پر آگئے ۔ پہلا موڑ مڑتے ہی سمندر کے عین سامنے ہمارے بائیں طرف ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل آگیا۔ طاہر اور تمام دیگر نوجوان اندر چلے گئے۔ ایک طرف ڈیرہ جمایا اور گپ شپ شروع ہوگئی۔
میں خوش تھا کہ نوجوانوں سے ان کے خیالات ، حالات و واقعات اور تازہ صورتحال سے آگاہی ہوگی‘ مگر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے۔ میرے سوالات ایک طرف رہ گئے‘ اس طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہوگئی۔ کراچی کے حالات، ایم کیوایم کا حال اور الطاف حسین کا مستقبل۔ گورنر سندھ کے معاملات، پاکستان کی معیشت ، بجلی کی صورتحال اور حکومت کی کارکردگی۔ سوالات کی لمبی فہرست تھی۔ میں نے جواب دینے کے بجائے سب کو مشترکہ طور پر اس بحث میں شامل کرلیا اور یوں یہ محفل سوال و جواب کی نشست کے بجائے باہمی گفتگو کی صورت اختیار کرگئی۔ آہستہ آہستہ سب کھلنے لگے اور اپنے اپنے خیال کے مطابق خود ہی اپنے سوالات کے جواب دینے لگے۔
ایک نوجوان کہنے لگا کہ نائن زیرو پر رینجرز کے آپریشن اور اس کے نتیجے میں اسلحے اور جرائم پیشہ افراد کی موجودگی نے جتنی جلدی ایم کیوایم کے غبارے سے ہوا اور میڈیا کے دل سے ان کا خوف نکالا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں نے تبصرہ کرنے یا رائے دینے کے بجائے صرف سننا شروع کردیا۔ ایک اور نوجوان کہنے لگا کہ ایم کیوایم ذوالفقار مرزا کے گزشتہ خودکش حملے کے بعد دوسری دفعہ دفاعی پوزیشن میں آئی ہے۔ صورتحال ان کے لیے اتنی خراب ہے کہ وہ معمول کی طرح اسمبلی میں بھی اس پر ویسا شورو غوغا نہیں کررہے جس طرح ہمیشہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایسا ایک طویل عرصے کے بعد ہوا ہے کہ ایم کیوایم کے یوم تاسیس پر میڈیا نے الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطاب کو براہ راست نہیں دکھایا‘ حتیٰ کہ اسے کوئی خاص کوریج بھی نہیں دی۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ اس خطاب کے دوران اشتہار چلانے کی اجازت نہیں تھی اور اس بار یہ ہوا کہ سرے سے خطاب ہی غائب کردیاگیا۔ پھر پوچھنے لگے کہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا یا درمیان میں مک مکا ہوجائے گا۔ زرداری صاحب مصالحتی پالیسی کے تحت اس ملک میں ہر قسم کے احتساب‘ خواہ وہ مالی بدعنوانی سے متعلق ہو یا انتظامی حالات سے متعلق‘ کا بیڑہ غرق کرنے کے ماہر ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنا مستقبل محفوظ رکھنا ہے‘ اس کوشش میں بے شک ملک کا مستقبل ہی کیوں نہ دائو پر لگ جائے۔
ایک صاحب مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ مولانا فضل الرحمن ہانگ کانگ میں کیا کرنے آئے تھے؟ میں نے کہا یہ سوال تو میں اہل ہانگ کانگ سے پوچھنے کے لیے گزشتہ دو دن سے بے چین تھا‘ آپ الٹا مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ ایک اور صاحب کہنے لگے‘ دراصل آپ ہم سے زیادہ باعلم ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو یہ غلط معلومات کس نے فراہم کی ہیں؟ وہ ہنس کر کہنے لگا کہ مولانا فضل الرحمن کے ہانگ کانگ میں میزبان مفتی ارشد صاحب ہیں اور وہ آپ کے دوست ہیں۔ میں نے کہا‘ یہ بھی قطعاً غلط اطلاع ہے۔ مولانا ارشد ملتان کے قریبی شہر شجا عباد کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھ سرائیکی بولتے ہیں۔ عام لوگوں سے اردو میں بات چیت کرتے ہیں۔ جمعہ کا خطبہ عربی میں دیتے ہیں اور وعظ انگریزی میں کرتے ہیں۔ نوجوان ہیں اور پڑھے لکھے مولوی صاحب ہیں‘ مگر میرے دوست ہرگز نہیں۔ میرے دوست کے دوست ہیں اور اس حوالے سے واقفیت ہے‘ بس یہی ساری حقیقت ہے۔ دوستی وغیرہ بالکل مختلف چیز ہے‘ ہاں البتہ وہ مولانا فضل الرحمن کے دوست ضرور ہیں۔
میں نے مولانا فضل الرحمن کو چند منٹ دیکھا تھا۔ وہ سامنے سمندر کے کنارے رکھے ہوئے بینچ پر رونق میلے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایونیو آف سٹارز پر وہ بھی ستارے کی طرح چمک رہے تھے اور ان کے اردگرد بھی کئی روشن ستارے محو خرام تھے۔ ہم نے اپنی واک جاری رکھی جبکہ مولانا وہیں مسکرا مسکرا کر اپنے مداحوں سے گلے ملتے رہے۔ مولانا ارشد کو بھی شاید پتا نہ ہو کہ ان کے دوست ہانگ کانگ کیوں آئے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اپنے پتے اتنی آسانی سے شو کر دیں تو انہیں مولانا فضل الرحمن کون کہے گا؟ ان کے پاس وزارتیں ہیں‘ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی ہے اور اب سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمین شپ بھی ہے اور حال یہ ہے کہ وہ حکومت کو گزشتہ ترمیم سے لے کر کراچی آپریشن تک اور فوجی عدالتوں سے آپریشن تک کسی چیز میں سپورٹ بھی نہیں کررہے اور مزے بھی کررہے ہیں۔ یہ کام صرف وہی کرسکتے ہیں۔ رہ گئی بات ان کے ہانگ کانگ آنے کی تو اگر آپ کو پتا چل جائے تو مجھے اطلاع کردیجیے گا‘ میں آپ کا مشکور ہوں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved