تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-03-2015

جونیئر شاعر بنام سینئر شاعر

ایک صاحب کا جلا بھُنا ایس ایم ایس موصول ہوا ہے کہ میں نے اپنی کتاب آپ کو اس لیے بھیجی تھی کہ آپ اس کا مطالعہ کرتے اور مجھے میری خامیوں سے آگاہ کرتے اور مجھے سمجھاتے‘ لیکن آپ کو میرا انقلابی کلام نظر آیا نہ صوفیانہ کلام اور آپ نے محض میری تذلیل کر کے رکھ دی جس سے آپ کے رُتبے اور ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ وصی شاہ کی شاعری پر کیوں نہیں لکھتے کہ اس نے اس میں کنگن کا مضمون کیسے چرایا ہے۔ میں نے دیکھ لیا ہے کہ سینئر جونیئرز کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور یہ سارا آپ کی سمجھ کا فرق ہے‘ وغیرہ وغیرہ؛ تاہم مجھے نہیں یاد کہ میں نے کس شاعر کے بارے میں ایسا لکھا تھا۔ مجھے اس طرح کے پیغامات آتے رہتے ہیں حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ میں ناروا تعریف نہیں کر سکتا‘ اس لیے ایسے شعرائے کرام کو‘ جو تنقید پسند نہیں کرتے اور صرف اپنی تعریف کے متمنی ہوتے ہیں‘ اپنی کتاب مجھے ارسال ہی نہیں کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ مطالعہ بھی میں ہر کتاب کا نہیں کرتا ماسوائے اس کے کہ جو کتاب اپنا مطالعہ خود کرواتی ہے کیونکہ میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ دو نمبر اور روایتی شاعری پر مغز ماری کرتا رہوں۔ اور جہاں تک سمجھانے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ میں نے کوئی سکول نہیں کھول رکھا۔ دوسرے یہ 
کہ شاعری سمجھانے سے نہیں آتی کیونکہ یا تو آپ شاعر ہیں یا نہیں ہیں اور جو حضرات شاعر نہیں ہوں انہیں شاعر بنانا میرے اختیار سے باہر ہے۔ البتہ بعض اوقات میں غلطیوں کی نشاندہی کر دیتا ہوں‘ پھر بھی یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ 
اور جہاں تک وصی شاہ کی اس نظم کا تعلق ہے جس میں بنیادی خیال مجید امجد سے لیا گیا ہے تو یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ ایک جینوئن اور سینئر شاعر سے اس حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے اور لوگ کرتے بھی ہیں؛ تاہم اس میں بھی اتنا فرق ضرور موجود ہے کہ امجد صاحب کا مصرع تھا ع 
کاش میں تیرے بُنِ گوش کا بُندہ ہوتا 
جبکہ وصی شاہ کا مصرع اس طرح سے ہے ع 
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا 
چنانچہ ایسا کرتے وقت جونیئر شعراء کو چاہیے کہ محض نقل کرنے کی بجائے اس میں کچھ اپنا بھی شامل کریں‘ جیسا کہ وصی شاہ نے کیا ہے جبکہ بعض حضرات تو سینئر شعراء کی جُگالی ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مضامین سب کے سب اتنے پرانے ہو چکے ہیں اور اتنی بار دہرائے جا چکے ہیں کہ بظاہر ان کا مزید دہرایا جانا ممکن نظر نہیں آتا؛ تاہم پرانے مضمون کا زاویہ تھوڑا بہت بدل کر اُسے کسی قدر نیا کیا جا سکتا ہے۔ کسی جونیئر کی تذلیل کرنا ایک ایسا کام ہے جو مجھ سے سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی کے کلام کی تعریف نہ کرنا یا اُسے نظرانداز کر دینا شاعر کی تذلیل کیسے ہوگئی۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اپنے جونیئرز کو جتنا میں نے پروموٹ اور پروجیکٹ کیا ہے‘ اس کی کوئی دوسری مثال دی ہی نہیں جا سکتی۔ لیکن ایک ایسے شاعر کو پروموٹ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے جو کسی طرح سے بھی اس قابل نہ ہو کیونکہ گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا سکتا ہے نہ ایک ہی رسّے سے باندھا جا سکتا ہے۔ 
پھر‘ جو جینوئن شاعر ہوتا ہے اس میں تنقید سننے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے لیکن لاعلاج شعراء پر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے کے لیے عقل کا اندھا ہونا ضروری ہے۔ پھر‘ ناشاعر حضرات کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ برخود غلط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو ملک الشعراء سمجھ بیٹھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ بھرپور انداز میں ان کی تعریف بھی کی جائے تاکہ تعریف کرنے والا اپنا اعتبار ہی کھو بیٹھے۔ اس لیے ایسے حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنا کلامِ بلاغت نظام اپنے پاس ہی سنبھال کر رکھیں؛ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موصوف کو بالآخر میرے رُتبے اور ذہن کا اندازہ ہو ہی گیا حالانکہ وہ اگر میری تحریریں پڑھتے رہتے ہیں تو انہیں اس کا اندازہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ 
یہ بات بھی لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں کوئی نقاد نہیں ہوں‘ محض کالم نگار ہوں اور میرا کام نہیں ہے کہ جو کچھ مجھے موصول ہو‘ پہلے تو دِقتِ نظر سے اس کا مطالعہ کروں اور پھر اس کا تجزیہ کرنے بیٹھ جائوں۔ چنانچہ جو کتاب یا شاعری میرے ڈھب کی نہیں ہوتی‘ میں اس کے بارے اتنا ہی بتانا کافی سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب فلاں پبلشر نے چھاپی ہے۔ اس کی قیمت کتنی ہے اور یہ مجھے کیسی لگی... اس سے زیادہ کی مجھ سے توقع ہی نہیں رکھی جانی چاہیے اور دانشمند ایسا کرتے بھی نہیں۔ چنانچہ موصوف کے بقول یہ سارا میری سمجھ کا قصور ہے تو انہیں کوئی شکوہ شکایت بھی نہیں ہونا چاہیے۔ 
اس طویل وضاحت کی ضرورت نہیں تھی اور ظاہر ہے کہ اگر شاعری میرے حساب کتاب میں نہیں آتی تو میں ایک طرح سے شاعر کو خبردار بھی کر دیتا ہوں تاکہ اس میں اگر توفیق ہے تو وہ اپنی شاعری کا حلیہ درست کرنے کی کوئی کوشش کرے ورنہ مجھ پر راضی رہے حالانکہ راضی کوئی بھی نہیں رہتا اور جیسا وہ مجھے چاہتے ہیں‘ میں ایسا ہو نہیں سکتا‘ بس کام چل رہا ہے‘ میرا بھی‘ اور ان دوستوں کا بھی! 
آج کا مطلع 
جیسے کتاب میں سوکھے پھول کی ایک مہک رہ جاتی ہے 
ختم بھی ہو جائے جو محبت کوئی کسک رہ جاتی ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved