پندرہ برس پہلے جب نئی ہزاری (millennium)کا آغاز ہو رہا تھا یعنی سن عیسوی کے دو ہزار برس پورے ہو رہے تھے اور تیسرے ہزار کا آغاز ہو رہا تھا تو بہت سی ایسی باتیں سننے میں آ رہی تھیں کہ دنیا تباہ ہو جائے گی‘ یا یہ کہ تہذیبیں مٹ جائیں گی اور نئی تہذیبیں وجود میں آئیں گی وغیرہ وغیرہ‘ مگر کوئی بھی ان پیش گوئیوں کو سنجیدہ باور نہیں کرتا تھا ۔ تاہم جو کچھ ان ابتدائی پندرہ برس میں اس دنیا نے دیکھا ہے اگر تبدیلیاں اسی رفتار سے آتی رہیں تو پھر یہ قیامت خیز پیش گوئیاں تو بہت پیچھے رہ جائیں گی اور محض مزید چند عشروں بعد ہی کرہ ارض کی شکل پہچاننا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان میں ہم ان تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں لیکن جتنے صدمات عراق اور افغانستان نے اٹھائے ہیں اور اٹھا رہے ہیں اور اب ان میں شام اور یمن بھی براہ راست شامل ہو چکے ہیں‘ ان سب کی نسبت ہمارے مسائل تو بہت کم ہیں‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پر دشمنوں کی ''نظر کرم‘‘ نہیں ہے۔ ہم پر بھی وہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا میں ایک ایسی عالمی حکومت کا خواب ترقی یافتہ ملک دیکھ رہے ہیں جس میں عالمی بینکاری کے نظام کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک کو اپنے کنٹرول میں رکھا جائے گا۔دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک ایسی باتوں کو سازشی نظریات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ معیشتوں کے ساتھ تجارت کے نتیجے ہی میں دنیا چین‘ بھارت ‘ جنوبی کوریا‘ انڈونیشیا ‘ ملائشیا اور جاپان کو تیزی سے خوشحال ہوتا دیکھ رہی ہے۔
کونسی بات درست ہے اور کتنی درست ہے یہ تو وقت بتائے گا مگر مسلم دنیا کے حوالے سے جو کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں آج کل ہمارے دشمنوں کی پہلی ترجیح یہ معلوم ہوتی ہے کہ مسلم دنیا کے اندر فرقہ واریت کی ایسی آگ بھڑکا دی جائے جو کم از کم مزید ایک ہزار سال تک بجھ نہ سکے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ۔ وجہ ایک ایسا واقعہ بنا‘ جس کے بارے میں امریکہ کے اندر بھی آج تک شکوک و شبہات ہیں کہ 11ستمبر 2001ء کو نیو یارک اور واشنگٹن میں دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار کون لوگ تھے۔ امریکی حکومت نے کبھی اس واقعے کی کوئی تسلی بخش تفتیش نہ کروائی اور نہ ہی ہونے دی۔ اگر انٹر نیٹ کے ذریعے 11ستمبر کے حملوں سے متعلق مواد کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرت ہو گی کہ کس طرح امریکی حکومت‘ ان حملوں کو القاعدہ کی کارروائی باور کر سکتی ہے۔ نائن الیون پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر سرکاری نقطۂ نظر میں سرِمُو آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔11ستمبر2001ء کو یہ حملے ہوئے اور چند گھنٹوں بعد ہی القاعدہ کو مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔ آج تک وہی القاعدہ ہی ذمہ دار ہے۔ امریکی عوام کو بتایا گیا کہ القاعدہ کے خلاف جنگ کرنے جا رہے ہیں مگر اندر ہی اندر عراق پر حملے کی تیاری ہو رہی تھی۔ افغانستان پر جلدی جلدی حملہ کیا گیا۔ چونکہ امریکہ کو اصل میں عراق پر حملہ کرنا تھا تو احتیاطاً اتحادی ممالک کی افواج کو International Security Assistance Forceیعنی(ISAF)کے نام پر ساتھ رکھ لیا گیا۔
پھر شور اٹھا کہ عراق کے پاس بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور صدام حسین کو القاعدہ والوں کا ساتھی بھی بتایا گیا۔ دونوں باتوں پر کسی نے یقین نہ کیا مگر حملہ کر دیا گیا۔ پتہ نہیں اصل منصوبہ کیا تھا مگر عراق میں صورتحال ایسی الجھی کہ پھر اصلی منصوبے تک کا پتہ نہ چل سکا ۔ ادھر افغانستان میں ایساف کے بارے میں خود امریکی جنرل کہتے تھے کہ اس کا مطلب بنتا ہے (I Suck At Fighting) یعنی یہ تنظیم جنگ کرنے کی انتہائی کم اہلیت رکھتی ہے۔ ایساف کی موجودگی ہی میں افغان طالبان منظم ہوئے اور پھر انہوں نے افغانستان کو امریکی اور اتحادی افواج کے لیے ناسور بنا دیا۔
اس صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جنگ تو دہشت گردی کے خلاف شروع ہوئی تھی لیکن یہ کب اور کیسے مسلمان دنیا کے اندر فرقہ واریت کی جنگ میں تبدیل ہو گئی یا کر دی گئی۔
انقلاب کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ پھیلتا ہے۔ وسعت پذیر رہتا ہے اور برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس سے شروع کریں تو دیکھیں کہ یہ انقلاب کس قدر پھیلا ہے۔ اس کا اثر مغربی ممالک میں خاص طور پر آج بھی انتہائی واضح ہے۔ پھر ہم نے سوویت یونین کو بالشویک انقلاب کے بعد معرض وجود میں آتے دیکھا۔ یہ کمیونسٹ انقلاب بھی پھیلا اور اس تیزی سے پھیلا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے وجود ہی کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
پھر ایران میں آیت اللہ خمینی کا انقلاب ہم نے دیکھا۔یہ انقلاب 1979ء میں آیا مگر یہ پھیل نہیں سکا تھا۔ چند برسوں سے صورتحال البتہ مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ذرا غور کریں کہ یہ کسی پالیسی کا نتیجہ تھا یا کوئی تاریخی مجبوری تھی کہ امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ کے ذریعے سب سے زیادہ فائدہ ایران کو پہنچایا‘ حالانکہ کہنے کو ایران امریکہ کا دشمن ملک تھا۔افغانستان میں طالبان کی حکومت‘ ایرا ن کی مخالف حکومت تھی۔ دہشت گردی کی جنگ نے وہ حکومت ختم کر کے ایران کی حمایت یافتہ شمالی اتحاد کی افغانستان میں حکومت قائم کر دی۔ اس کے بعد عراق پر دہشت گردی کی جنگ کے دوران امریکی حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں صدام حسین کی بعث پارٹی‘ جو کہ سنیوں کی جماعت تھی‘ شکست کھا گئی اور شیعہ اکثریت کا اقتدار پر قبضہ ہو گیا۔ یہ بھی ایک طرح سے ایران کے حق میں گیا۔ اس وقت عراق کی حکومت‘ ایران کی انتہائی دوست حکومت ہے۔11ستمبر کے حملوں سے پہلے ایران ایک ستم رسیدہ ملک تھا جس پر پابندیاں ہی پابندیاں لگی ہوئی تھیں ۔ ایک طرف دشمن طالبان بیٹھے تھے اور دوسری طرف صدام حسین بیٹھا تھا جس نے ایران عراق جنگ نہ صرف خود شروع کی تھی بلکہ اس جنگ میں ایران کو سخت جانی ‘ مالی نقصان بھی پہنچایا تھا۔
دہشت گردی کی جنگ کے دوران ایران کو خود بخود دونوں دشمنوں سے نجات مل گئی اور اس کے ہاتھ کھل گئے‘ یا کھول دیے گئے۔
بعدازاں آپ دیکھیں کہ شام میں جو بحران آیا ہے اور جاری ہے وہاں صدر بشار الاسد کو ایران کی پر زور حمایت حاصل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مشرق وسطیٰ میں جہاں کہیں شیعہ آبادی ہے وہ اب بجا طور پر ایران کی طرف دیکھنے لگی ہے۔ یہ کہیں ایرانی انقلاب کا پھیلائو تو نہیں جو دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تازہ صورتحال یمن کی ہے جہاں شمالی حصے سے آ کر زیدی شیعہ باغیوں نے پچھلے برس دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اب ان کے زیر اثر علاقوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں صدر ہادی ان باغیوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ مگر اب عرب ملکوں کا ایک اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں ان کی مدد کو آ رہا ہے۔ مصر بھی اس اتحاد کی فوجی سطح پر مدد کرے گا۔ پاکستان سے بھی درخواست کی گئی ہے۔ یہ سب سنی ملک ہیں ۔یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد میرا سوال پھر وہی ہے کہ یہ جو بظاہر ہمیں سنی اور شیعہ فورسز جگہ جگہ باہم صف آرا دکھائی دے رہی ہیں کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں کسی تاریخی عمل کے ذریعے ایسا ہوا ہے یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اصلی مقصد ہی یہ تھا کہ مسلم دنیا میں شیعہ سنی کی تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فساد پیدا کیا جائے۔
میرے اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بہت سے ملک فرقہ واریت کی اس جنگ کا چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے حصہ بن چکے ہیں۔ کیا پاکستان اس صورتحال میں اپنے آپ کو اس جنگ سے دور رکھ سکے گا؟ یہ ایک اور سوال ہے جس کا جواب جلد ہی مل جائے گا۔