پاکستان سے باہر پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں مقیم ہے۔ اس ملک میں رہنے والے پچیس لاکھ سے زائد پاکستانی ہر سال پانچ ارب ڈالر کے قریب زرِمبادلہ کی صورت میں پاکستان بھجواتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کو بیرونِ ملک پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر کا ایک تہائی حصہ ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، بحرین اور قطر میں مجموعی طور پر پندرہ لاکھ پاکستانی اپنے روزگار پر لگے ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم بھی شامل کی جائیں تو صرف جزیرہ نمائے عرب سے پاکستان کو ملنے والا زرمبادلہ سات ارب ڈالر بنتا ہے۔ گویا پاکستان کو ہر سال آنے والی ترسیلات زر کا نصف صرف اس خطے سے آتا ہے۔ واضح رہے کہ زرمبادلہ بھیجنے میں برطانیہ اور امریکہ میں کام کرنے والے پاکستانیوں کا نمبر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد آتا ہے۔ صرف عرب سے آنے والی رقوم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جتنی رقم ہمیں ہر سال یہاں سے آتی ہے اتنی کے لیے ہم کئی ماہ تک کشکول لے کر آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے رہے تھے‘ تو کہیں جا کر اس نے کئی شرطیں منوا کر قسطوں میں عنایت کی تھی۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی طرف سے آنے والی یہ رقم اگر بند ہو جائے تو خدانخواستہ پاکستانی روپے کا جو حشر ہو گا‘ اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان ملکوں کے ساتھ پاکستان کے معاشی تعلقات صرف یہیں تک محدود نہیں کہ ہمارے کارکن وہاں کام کرتے ہیں اور پیسہ بھیجتے ہیں بلکہ اس سے کچھ آگے بڑھ کر
ہیں۔ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو پوری دنیا نے ہم پر معاشی پابندیاں لگا دیں‘ لیکن سعودی عرب نے تیل کی خریداری میں رعایتیں دے کر ہمیں ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ 2005ء کے زلزلے میں، 2010ء کے سیلاب میں اور پھر 2013ء کے معاشی بحران میں جب پاکستانی روپیہ مسلسل نیچے جا رہا تھا‘ تو یہ سعودی عرب ہی تھا‘ جو ہماری امداد کے لیے آیا۔ اتنے گہرے اور وسیع معاشی مفادات کے باوجود اگر ہم یمن کے بحران میں عرب ملکوں کا ساتھ دینے سے گریز کریں گے‘ تو پھر ہماری بے وقوفی دنیا کے لیے ضرب المثل ہو گی۔
معاشی کے علاوہ اس مسئلے کا ایک انسانی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ خدانخواستہ یمن میں بھڑکائی گئی آگ میں سعودی عرب اور ارد گرد کے بعض دوسرے ملک جھلسنے لگے تو چالیس لاکھ پاکستانیوں کو اس خطے میں سے نکالنے کا کام کون کرے گا؟ ابھی صرف تین ہزار پاکستانیوں کو یمن سے نکالنے کا مسئلہ درپیش ہے اور ہماری پوری ریاستی مشینری ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنا رہی ہے۔ اس سے پہلے عراق کویت جنگ سے متاثر ہونے والے پاکستانیوں کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ جب سوال لاکھوں پاکستانیوں کا ہو گا تو کیا کسی حکومت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اس معاملے سے نمٹ سکے؟ یہ درست ہے کہ ان ملکوں میں
مقیم پاکستانیوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری وہاں کی حکومتوں نے نبھانی ہے لیکن کسی بحران کی صورت میں پاکستان کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ہونا ہو گا اور اس سرگرمی میں ہمیں کیا کچھ کرنا پڑے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے شہریوں کی حفاظت اور عرب سے وابستہ ہمارے معاشی مفادات دو اتنے اہم عوامل ہیں جن کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان مفادات کے ہوتے ہوئے سعودی عرب کی سلامتی کی ضمانت اتنی ہی اہم ہے جتنی خود ہماری اپنی سلامتی۔
اس مسئلے کا تیسرا پہلو ہماری داخلی پالیسی سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سعودی عرب محض ایک مسلمان ملک ہی نہیں بلکہ اس کی سرزمین حرمین شریفین کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں مقدس بھی سمجھی جاتی ہے۔ حرمین کی حفاظت کے لیے تو دنیا بھر کے مسلمان اپنی جان لڑا دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن اس فرض کی ادائیگی وقت پڑنے پر پاکستان کو ہی کرنا پڑتی ہے اور ماضی میں یہ فرض ادا کرنے سے پاکستانیوں نے کبھی انکار بھی نہیں کیا۔ یہ دلیل کہ پاکستان کو صرف مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں حرکت میں آنا چاہیے‘ بنیادی طور پر لاعلمی پر مبنی ہے۔ حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ دونوں مقدس شہر محفوظ رہیں بلکہ ان کو جانے والے راستے بھی مسافروں کے لیے پُرامن ہوں۔ سعودی عرب کی سرحدوں سے معمولی سی چھیڑ چھاڑ بھی ان شہروں تک مسلمانوں کی رسائی مشکل بنا سکتی ہے‘ اس لیے ان دونوں شہروں کی حفاظت کے معنی سعودی عرب کی جغرافیائی اور سیاسی وحدت کی ضمانت میں پوشیدہ ہیں۔ پاکستان نے جب یہ ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے تو پھر یہ اس کی ادائیگی کا وقت ہے نہ کہ غور و خوض کے نام پر اس کو ٹالنے کا۔
اس معاملے کا چوتھا پہلو ہمارے حریفِ ازلی بھارت سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے عرب ملکوں سے مضبوط رشتوں کی وجہ سے بھارت کو کبھی مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کا موقع نہیں ملا۔ اس مشکل وقت میں بھارت یقینا اپنی خدمات پیش کر کے اس خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔ اگر ایک بار ایسا ہو گیا تو پاکستان کے لیے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا اور اس صورت میں عرب میں تیل کے وسائل کا رخ بھی بھارت کی طرف ہو جائے گا کیونکہ عرب ممالک پھر اسی طاقت کی حمایت کریں گے‘ جو ان کے تحفظ کی ضامن ہو سکتی ہے۔ ایک بار بھارتی فوجی قوت کو عرب وسائل کی مہمیز لگ گئی تو پھر یہ جنوبی ایشیا میں بھی ناقابل شکست طاقت بن کر ابھرے گی۔ اگر پاکستان نے فوری طور پر اس معاملے میں مثبت ردعمل کا اظہار نہ کیا تو بحران گہرا ہونے کی صورت میں امریکہ سعودی عرب کے سامنے بھارت کو ایک متبادل قوت کے طور پر پیش کرے گا اور بھارت اپنے مسلمان شہریوں پر ایک دو ڈویژن کمزور سی فوج کھڑی کرکے حرمین کی حفاظت کے لیے اس معاملے میں بھی کود پڑے گا۔ یہ معاملہ سامنے کے حقائق سے ابھی کچھ دور نظر آتا ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب افغانستان میں امریکہ کو پاکستان کی مدد پڑی تھی تو بھارت نے بھی اس معاملے میں کودنے کی پوری کوشش کی تھی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد یہ اصول رہا ہے کہ طاقت کے زور پر مسلمان ملکوں کی سرحدیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔ اس اصول کی روشنی میں ہمیں جہاں مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی سرحدوں کے احترام میں اپنا کردار ادا کرنا ہے‘ وہاں یمن کے مسئلے میں کردار ادا کرنے والے ممالک کو سمجھانے کی کوشش بھی ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنا ایسی چال ہے جو الٹائی بھی جا سکتی ہے۔ ان ممالک کی طرح ہمیں اپنے ملک کے تمام طبقات کو یہ سمجھانا ہے کہ پاکستانی ریاست کی پالیسیاں فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ مفادات اور اسلامی نظریات کے تابع رہیں گی اور اگر کوئی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاست کا بازو مروڑنے کی کوشش کرے گا تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو ضربِ عضب میں طالبان کے ساتھ ہو رہا ہے۔