سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو یار لوگوں نے آج تک اس بات پر معاف نہیں کیا کہ جب امریکی وزیر خارجہ جنرل (ر) کولن پاول نے انہیں 9/11کے بعد افغان جنگ کا حصہ بننے کی دھمکی نما دعوت دی تو انہوں نے فی الفور ہاں کر دی۔ اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیا‘ نہ معطل پارلیمنٹ کو بحال کر کے مشورہ کیا اور نہ قوم سے پوچھا۔ جمہوریت ہوتی تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
گزشتہ روزسعودی خبر رساں ایجنسیSPAنے ایسی ہی خبر منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بارے میں جاری کی اور بتایا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے سعودی فرماں روا کو پاک فوج کے جملہ وسائل اور صلاحیتیں دوست ملک کے لیے وقف کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ لوگ اب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ شہزادہ مقرن‘سعود الفیصل اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو یقین دہانی کرانے سے قبل وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ سے مشاورت کی؟ پارلیمنٹ سے پوچھا ؟نشری تقریر کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لیا؟
بالفرض اگر وزیر اعظم وفاقی کابینہ کا اجلاس بلا لیں تو کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جی حضوری وزراء کرام اپنے باس کی رائے کے برعکس کوئی فیصلہ کریں گے؟ ہرگز نہیں ۔ ہاں البتہ رسم پوری ہو جائے گی۔ جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں نے حکومت کا چلنا دشوار کر دیا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اور یہ ہماری قومی تاریخ کا سب سے طویل اجلاس تھا۔ اس فیصلے سے یہ بہرحال ثابت ہو گیا کہ پاکستان میں حکمران کوئی فوجی ہو یا بچّہ جمہورا‘ فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی خاص اور جوہری فرق ڈھونڈنا محال ہے ؎
طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں ''پرویزی‘‘
شلجموں سے مٹی جھاڑنے اور آصف علی زرداری‘ الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کو اس فیصلے میں شریک کرنے کے لیے سنا ہے‘ اب ایک اے پی سی بلائی جائیگی جو رسم دنیا‘موقع اور دستور کے مطابق اس فیصلے پر صادکرے گی۔ زرداری صاحب نے گزشتہ روز اپنا موقف بدلا ہے اور یمنی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی کارروائی کو نہ صرف حق بجانب قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس کارروائی میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران کون سی تبدیلی واقع ہوئی جس نے زرداری صاحب کو یہ موقف اپنانے پر آمادہ کیا امریکی سفیر کا فون‘ کسی سعودی پیامبر کا رابطہ‘ اپنے بڑے بھائی میاںنواز شریف سے اظہار یکجہتی یا پھر حسب سابق سیاستدانوں کو قومی اتفاق رائے تک پہنچانے میں مددگار قوتوں کا اشارہ؟
یمن میں قبائل اور شمال جنوب کے مابین کشمکش کو شیعہ سنی جنگ قرار دینے والوں کے اپنے مقاصد ہیں۔ یہی طاقتیں عراق میں شیعہ اور شام میں سنی عسکریت پسندوں کی سرپرست اورہمنوا ہیں۔مالی ‘ سیاسی اور اسلحی کمک فراہم کرنے والوں میں عرب‘ غیر عرب‘ مسلم ‘ غیر مسلم سب شامل ہیں۔ اس لڑائی جھگڑے کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہے یا امریکہ کی اسلحہ ساز لابی کو جبکہ نقصان سراسر عرب و غیر عرب مسلمان ملکوں کا جو ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر کمزور ہو رہے ہیں اور 1990ء کے عشرے میں امریکی نیو کانز (Neocons)نے شرق اوسط کی نئی حد بندی کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ آہستہ آہستہ تکمیل پذیر ہے۔ عراق‘ سعودی عرب‘ مصر اور دیگر ممالک کی نسلی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم نواورگریٹر اسرائیل کی تشکیل۔
یمن افغانستان کی طرح بلند پہاڑوں‘ غاروں اور پیچیدہ وادیوں کی سرزمین ہے۔گوریلا جنگ کے لیے سازگار اور باہم متحارب قبائل الاحمر‘ صعنان‘ حاشد‘ حوثی‘ شبوۃ‘ بنی ملال‘ مآرب‘ عوالق کی طویل عرصہ تک عسکری محاذ آرائی کے لیے موزوں۔ حوثی اور الاحمر قبائل اقتدار کا مزہ چکھ چکے اور اپنے سرپرستوں سعودی عرب ‘ مصر‘ ایران اور عراق کی طرف سے فراہم کردہ عسکری و مالی وسائل سے لیس ہیں لہٰذا محض سعودی فضائیہ کی بمباری سے یمن کی ہادی حکومت بحال ہو سکتی ہے نہ حوثیوں کو جنگ بندی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔1962ء میں مصر کے جمال عبدالناصر نے مرضی کی حکومت قائم کرنے کے لیے یہی راستہ اختیار کیا مگر بالآخر مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آئی۔ امریکہ کو یہی تجربہ افغانستان اور ویت نام میں ہوا۔ واحد سپر پاور نے ناکامی کا منہ دیکھا مگر اردگرد کے ممالک دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گئے۔
سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی پشت پناہی سے متشکل ہونے والی حوثی بغاوت فرو کرنے کے لیے زمینی آپریشن زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہو سکتا ہے کیونکہ یمن کے پہاڑی سلسلے باغیوں کے لیے مددگار ثابت ہوں گے جبکہ القاعدہ اور داعش کے لیے بھی یہ جنگ نعمت غیر مترقبہ ہو گی۔ اب امریکی ڈرون حملے جاری رکھنا مشکل ہیں اور عرب اتحادیوں کو داعش و القاعدہ کے بجائے حوثی قبائل کا خاتمہ مطلوب ہے جو ایک بار پھر عدن کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔
صدر منصور ہادی کی ''جائز ‘‘اور'' قانونی‘‘ حکومت کی بحالی کے لیے عرب اتحاد کا موقف بھی اس صدی کا عجوبہ ہے۔ سعودی حکمرانوں کو ہاتھوں سے لگائی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔ جب مصر کی منتخب ‘ جائز اور قانونی (محمدمرسی) حکومت کے خلاف امریکی اشارے پر جنرل السیسی نے بغاوت کی تو سعودی حکومت نے باغی کا ساتھ دیا اور آٹھ ارب ڈالر کی خطیر رقم اس کے استحکام کے لیے دان کی۔ ماضی میں وہ صدر مُرسی کو تین ارب ڈالر امداد کا وعدہ کر کے لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ جب غزہ کی ناکہ بندی ہوئی تو کسی عرب ریاست کی غیرت جاگی نہ جائز منتخب اور قانونی اسماعیل حانیہ حکومت کو اسرائیلی محاصرے سے نکالنے‘ فلسطینی عوام کو اشیاء خورو نوش اور ادویات فراہم کرنے کی تدبیر سوجھی اور نہ کسی نے نیو کلیئر اسلامی ریاست پاکستان سے امداد طلب کی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر منصور ہادی صنعا میں اپنے استعفے کا اعلان کر چکے ہیں اور حوثی قبائل کے ساتھ مل کر اتفاق رائے کی قومی حکومت بنانے پررضا مند ہو گئے‘ مگر سابق صدر علی عبداللہ صالح نے شرارت کی‘ حوثیوں اور ہادی منصور کو الگ الگ اکسایا اور اتفاق رائے کو لڑائی جھگڑے میں تبدیل کر دیا۔ اب علی عبداللہ کا بیٹا احمد صالح سعودی حکمرانوں سے معافی کا طلب گار ہے اور حوثیوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ‘ مگر سعودی حکومت خاموش ہے۔
عرب اتحاد نے چالیس ہزار افراد پر مشتمل مشترکہ فوج بنانے کا اعلان اس وقت کیا ہے جب فلسطین ‘ عراق‘ شام‘ بحرین‘ یمن اورلبیا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ انتشار ‘ افراتفری ‘ خانہ جنگی اور بغاوتوں نے ان مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ معیشت تباہ‘ عسکری و انتظامی ڈھانچہ تتر بتراور مختلف قبائل‘ مسالک اور نسلی و لسانی گروہ باہم برسر پیکار۔ فارسی میں کہتے ہیں‘ جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکّا اپنے گال پر مارنا چاہیے۔ عرب لیگ سے مگر کون کہے۔ نسلی و لسانی تعصبات‘ نفرتوں اور عداوتوں نے تیل‘ گیس‘ سونے ‘ چاندی کی دولت سے مالا مال عربوں کو اسرائیل کے سامنے نکّو بنا کررکھ دیا ہے۔ اب وہ عالم عرب کو منتشر و کمزور کرنے کے اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں اور اس قابل نہیں کہ ایک باغی قبیلہ کو مذاکرات کی میز پر بلا کر یمن کی تباہی کو روک سکیں۔
پاکستان کو سعودی عرب کی دوستی عزیز اور احسانات یاد ہیں مگر ہمیں اپنا مفاد بھی دیکھنا ہے۔ حرمین شریفین کا دفاع نیو کلیئر پاکستان کی Undeclardپالیسی ہے تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ آیا حوثی قبائل سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو کوئی خطرہ درپیش ہے یا فی الحال وہ یمن تک محدود ہیں جبکہ اس مرحلہ پر اسرائیل بھی کوئی حماقت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ‘ ایران مفاہمت کے پس منظر میں عرب ممالک کے حکمران حاسدانہ جذبات کا شکار ہیں مگر یہ شاید پورا سچ نہ ہو‘ البتہ پاکستان کو اس موقع پر کسی تنازع اور جنگ کا حصہ بننے کے بجائے ثالثی کا کردار ہی اپنانا ہے تاکہ یمن میں بغاوت ختم ہو ‘ ایران اورعربوں کے مابین پراکسی وار حقیقی جنگ کا روپ اختیار نہ کرے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف پاک فوج پر دوہری ذمہ داری کا بوجھ نہ پڑے۔ حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں تدّبر اوردور اندیشی کا ثبوت دے‘ سفارت کاری کے جوہر دکھائے۔ تاکہ عراق‘ شام‘ یمن اور بحرین میں جاری جنگ پاکستان کا رخ نہ کر سکے۔ یہ تباہ کن جنگ ہے جو پہلے سے جاری جنگ کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر سکتی ہے ۔ہم حوصلہ کر کے اپنے دوستوں سے بصد ادب کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے دفاع کے لیے جان حاضرمگر یمن کی خانہ جنگی میں شرکت سے معذور ؎
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر
تیرا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر
مرا درد اور بڑھا نہ دے
مرا عزم اتنا بلند ہے کہ
پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گل سے ہے
یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے