نو ماہ قبل عام انتخابات میں اپوزیشن بالخصوص کانگریس پارٹی کی ہزیمت اور صوبائی انتخابات میں پے در پے شکست سے دوچار ہونے کے بعد لگتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے پارلیمنٹ میں متنازع 'حصول اراضی ترمیمی بل‘ پاس کروانے کی ضد نے اسے ایک نئی توانائی اور حوصلہ بخشا ہے۔ کانگریس صدر سونیاگاندھی کا ایک بڑا کارنامہ حزب اختلاف کی جماعتوںکو اراضی بل پرایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔کانگریس اراضی بل کے ذریعے مودی حکومت کو پہلی مرتبہ سخت دبائو میں لانے میں کامیاب ہوئی اوراب اس کی کوشش ہے کہ اس بل کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں میں جو اتحاد ہوا ہے اسے برقرار رکھا جائے تاکہ حکومت پر دبائو جاری رہے۔ حزب اختلاف کی تقریباً 14سیاسی جماعتوںکے100سے زائد ارکان نے سونیاگاندھی کی سربراہی میں (جس میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی شامل تھے) ''نریندر مودی کسان ورودھی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے راشٹرپتی بھون( قصر صدارت)کی طرف مارچ کیا۔گزشتہ سال مئی میں برسر اقتدار آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مودی حکومت کواپنے سب سے بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ محض اپنے حامی صنعتی گھرانوںکی خاطر متنازع بل لاکر، انہوں نے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد پیدا کیا بلکہ اپنے 'کارپوریٹ حامی‘ ہونے کا تاثر بھی مزیدگہرا کر دیا۔
سونیاگاندھی نے کہا، ہم نے صدرجمہوریہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں تاکہ کاشتکاروںکے مفادات کی حفاظت ہو۔ اپنے'محسنوں‘کا 'احسان‘ چکانے کے لیے مودی نے حصول اراضی قانون میں ترمیم کا بل پیش کرتے وقت شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ یہ ایک سیاسی طوفان کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ وہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروںکے مفادات کے حامل اس ( ترمیمی) بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں اپنی زبردست اکثریت کے بل بوتے پر پاس کرا نے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں لیکن اس سے ان کی حکومت کے خلاف بڑا محاذکھلنے کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے۔ خود حکومت کی بعض حلیف جماعتیں اس پر نالاں نظر آتی ہیں، یہاں تک کہ اس کی سب سے بڑی حامی جماعت شیو سینانے تو بطوراحتجاج بل پر ووٹنگ میں حصہ تک نہیں لیا۔ سماجی کارکن انا ہزارے بھی میدان میںکود پڑے ہیں۔کانگریس اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے اس کے خلاف دارالحکومت دہلی اور دیگر مقامات پراحتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
اس بل کو بجا طور پرکسان دشمن اورعوام مخالف قراردیا جا رہا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ اس میں سے'رضامندی‘ اوراراضی حاصل کرنے کی صورت میں ہونے والے نقصان کے جائزے کی شقیں حذف کردی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کی پیش رو یو پی اے کے پاس کردہ بل میں صنعتکاروں اور نجی کمپنیوں کے لیے لازم تھاکہ وہ زمین مالکان کی مرضی کے بغیر ان کی اراضی حاصل نہیںکرسکتے۔
مودی حکومت نے گزشتہ سال اس شق کو حذف کرنے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جسے قانون کا حصہ بنانے کی غرض سے یہ ترمیمی بل لایاگیا ہے۔ یہ ترمیمی بل برطانوی دورکی یاد دلاتا ہے۔اس کی شقیں ذو معنی الفاظ پر مشتمل ہیں اور ترقیاتی منصوبوںکی آڑ میں من مانے طریقے سے کسانوںکی اراضی ہتھیائی جاسکتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بل کارپوریٹ انڈیا نے مرتب کیا ہے۔ اس کا مقصد صرف کارپوریٹ اداروں، بین الاقوامی کمپنیوں اور سرمایہ داروںکے مفادات کا تحفظ ہے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو پہلے آرڈیننس جاری کرنے اوراب یہ ترمیمی بل لانے کی چنداں ضرورت نہ ہوتی۔ یہ وہی بی جے پی ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے آرڈیننس راج کے خلاف خوب شور مچایا کرتی تھی، اب اس نے مرکزی اقتدار میں آنے کے بعد حکمرانی کو آرڈیننس راج میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایوان زیریں میں زبر دست بحث کے بعد صوتی ووٹ سے پاس کیے گئے اس بل میں حکومت نے نو تبدیلیاںکیں اوردوشقوںکا اضافہ کیاگیا۔حزب اختلاف نے52 ترمیمات پیش کی تھیں جن میں سے کسی ایک کو بھی لائق اعتنا نہ سمجھاگیا۔ حکومت کی ایک ترمیم یہ ہے کہ وہ شاہراہوں اور ریلوے لائن کے دونوں جانب ایک کلومیٹرکے دائرے میں اراضی ایکوائرکر سکتی ہے۔ دوسری ترمیم کی رو سے حصول اراضی سے متاثرہ خاندان کے ایک فردکو سرکاری ملازمت دینا لازمی ہوگا۔ مرکزی وزیر برائے دیہی ترقیات بریندر سنگھ نے کہاکہ ایسی زرعی اراضی حاصل نہیں کی جاسکے گی جس میں ایک سے زیادہ فصلیں اگائی جاتی ہیںمگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اراضی کے حصول کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی سماجی اثرات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہوگی۔ ان ترامیم کے باوجود حزب اختلاف اور حکومت کی بعض حلیف جماعتوںکا الزام ہے کہ یہ بل بنیادی طور پرکسانوںکے مفادات سے ٹکراتا ہے ۔
حکومت کی ترامیم میں اراضی مالکان کی 'بنیادی سماجی سہولیات کے منصوبوں‘کے لیے 80 فیصد مرضی کی شرط کو حذف کرنے کی شق بھی شامل ہے۔ بل کے معترضین کو اندیشہ ہے کہ نجی افراد اس شق کوکالج اور ہسپتال قائم کرنے کے لیے استعمال کریں گے جو دراصل کاروباری ادار ے ہوںگے۔ بل سے یہ شق بھی ہٹا دی گئی کہ تحویل میں لی گئی اراضی پرکوئی ترقیاتی منصوبہ پانچ سال کے اندر مکمل کیا جانا لازمی ہے۔ اس بارے میں وزیر موصوف نے یہ عذر پیش کیا کہ کئی بار مقدمات کی وجہ سے منصوبہ شروع کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے، لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ سماجی ترقی کے نام پر حاصل کیا گیا قطعہ اراضی کسی اورکام کے لیے استعمال نہیں کیاجائے گا۔
حکومت نے جو ترامیم پیش کیںان کا بظاہر مقصد یہ تاثر زائل کرنا ہے کہ یہ بل کسان مخالف ہے؛ تاہم وہ اپنی اس تازہ سعی میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ لوک سبھا میں بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے حکومت کویہ بل منظورکروانے میںکوئی مشکل پیش نہیں آئی۔اس بل کو (The Right to Fair Compensation and Transparency in Land Acquisition, Rehabilitation and Resettlement (Amendment) Bill 2015) کا نام دیاگیا ہے۔
ان ترامیم سے حکومت کی حلیف جماعتیں جیسے اکالی دل، لوک جن شکتی پارٹی اور شیو سینا بھی مطمئن نہیں ہیں۔اکالی دل نے ایوان میں حکومت کا ساتھ دیا مگر شیو سینا اپنے موقف پر قائم رہی۔ خیال رہے کہ تحویل اراضی کا جو قانون یو پی اے حکومت نے 2013ء میں پاس کیا تھا اسے قانونی شکل دینے سے قبل تمام فریقوں سے مشورہ کیا گیا تھا۔ اس میں صنعتی پٹہ، سرکار و نجی اشتراک کا منصوبہ ، دیہی علاقے میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا منصوبہ اور سستے مکانات کی تعمیر وغیرہ کی شرائط شامل تھیں اورکاشتکاروں سے اراضی اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی تھی جب مالکان کی 80 فیصد تعداد اس پر رضامندی ظاہرکردے۔اس کے برعکس مودی حکومت نے اس اہم اور بنیادی شق کو ختم کردیا جوکسانوںکے مفادات کے تحفظ کی ضامن تھی۔
کانگریس نے الزام عائدکیاکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت نے بعض صنعتی گھرانوںکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس قانون کی اصل روح کو مجروح کر دیا ہے جس سے کاشتکار طبقے کو شدید نقصان پہنچے گا ۔کارپوریٹ اداروںکے بارے میں یہ قوی تاثر ہے کہ موجودہ حکومت کو بر سر اقتدارلانے میں ان کا
زبر دست رول تھا اور اب حکومت اسی احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپنی راست گوئی کے لئے مشہورکانگریس لیڈر منی شنکرایئر نے کہا ہے کہ ہمارے اقدامات کے باعث بڑے بڑے صنعتی گھرانے کانگریس اور اس کی حکومت کے مخالف ہوگئے تھے۔ حکومت کے اس قدم نے حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی تمام جماعتوںکو متحد کردیا ہے، یہاں تک کہ بایاں محاذ اور ترنمول کانگریس بھی اس معاملے پر یکجا نظر آ رہے ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی حکومت ملک کی 65 فیصد آبادی، جس کا انحصار زراعت پر ہے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے بڑے بڑ ے صنعتی اداروںکے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔حزب مخالف کی اس زبردست سیاسی یلغار سے گھبرا کر مرکزی وزیر نتین گڈکری نے مختلف سیاسی جماعتوںکے قائدین اور سماجی کارکن انا ہزارے کو مکتوب روانہ کیے جس میں انہوں نے بل میں کی گئی ترامیم کا پر زور دفاع کیا۔یہ بل 5 اپریل سے پہلے راجیہ سبھا(ایوان بالا) سے پاس کرانا ضروری ہے کیونکہ گزشتہ سال اکتوبر میں جاری کیے گئے آر ڈیننس کی میعاد اس دن ختم ہورہی ہے۔ حزب اختلاف کی صفوں میں اتحاد دیکھتے ہوئے یہاں اس کے پاس ہونے کے امکانات بہت کم ہیں اور اس ایوان میں اس کی اکثریت بھی ہے۔ اس صورت میں مودی حکومت کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر یہ بل پاس کرائے۔ یہ معاملہ اب ایک بڑا سیاسی موضوع بن گیا ہے اور حزب اختلاف کو مودی پر یہ حملہ کرنے کا سنہری موقع مل گیا ہے کہ ان کی حکومت واقعتاً دولت مندوں اور سرمایہ داروںکے مفا دات کی نگہبان ہے،اسے غریبوں اورکسانوں کی کوئی فکر نہیں۔
بلا شبہ یہ بل مودی کے لیے بڑی سیاسی مشکل کا سبب بن گیا ہے کیونکہ اس سال کے آخر میں انہیں صوبہ بہار میں ریاستی انتخابات کا سامنا ہے۔ اگر دہلی کی طرح ان انتخابات میں بھی انہیں شکست ہوتی ہے تو پارٹی میں ہی ان کے یا ان کے حواریوں کے خلاف بغاوت کے سر بلند ہوسکتے ہیں۔