28 مارچ 2015ء کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں ''اَخلاقی اَقدار کا فقدان اور کرپشن۔۔تدارک اور علاج‘‘ کے عنوان پر صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے پاکستان کے سرکردہ اٹھائیس علماء کے ساتھ ایک نشست منعقد کی۔ اپنی تمہیدی گفتگو میں انہوں نے پاکستان کو درپیش مسائل کا ایک تجزیہ اپنے انداز میں پیش کیا، جس میں کرپشن کے ناسور کوقومی معاشی خود کفالت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیااور بتایا کہ حکومت کو اپنی تمام تر مساعی اور اخلاص کے باوجود اِس مقصد کو حاصل کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے اور سرِ دست ہمارے پاس سابق قومی قرضوں سے عہدہ برا ہونے کی تدبیر مزید قرضے لینا ہی رہ گئی ہے۔ ان کے بقول ایک تخمینے کے مطابق سالانہ ایک ہزار ارب کی کرپشن ہورہی ہے، جو ہماری معاشی خودکفالت کے لیے ایک ناسور ہے۔ انہوں نے اپنے بیرونی دوروں کے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہر ملک اپنے تعلیمی نصاب میں اپنی قوم کے بچوں کو اپنی قومی اور ملّی تاریخ سے آگہی دیتا ہے، جس سے اُن کے اندر حبُّ الوطنی ، قومی وقار اور اعتماد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، جبکہ ہمارے بچوں کو تعلیمی نصاب کے ذریعے اپنی تاریخ سے کوئی آگہی عطا نہیں کی جاتی۔ یہ تاریخ کا شعور ہی ہے جو نئی نسل کو اپنے ماضی سے جوڑے رکھتا ہے اور ایک پہچان عطا کرتا ہے اور اُسی کے نتیجے میں آئندہ کے قومی اور ملّی نصب العین کا تعین کیا جاتاہے ۔
صدرِ پاکستان کے ساتھ نشست کا موضوع کرپشن کا ناسور اور اَخلاقی اَقدار کا فقدان تھا ۔ ہمارے ہاں مسائل اور ملّی امراض کا ادراک تو ہر ایک کو ہے، صرف اندازِ بیان اپنا اپنا ہوتاہے، لیکن اس کا قابلِ قبول اور قابلِ عمل حل کسی کو سجھائی نہیں دیتا اور زیادہ بہتر تعبیر یہ ہے کہ ہمارا''نظمِ اجتماعی‘‘ اصلاحِ احوال کے لیے پہلا قدم اٹھانے یا پستی سے بلندی کی طرف یو ٹرن لینے کے لیے بھی آمادہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا یہ ساری کانفرنسیں ، سیمینار یا مجالسِ فکر محض ذہنی مشق (Intellectual Excercise)بن کر رہ جاتی ہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ جنہیں ملّی درد ہے اور قومی مسائل ومصائب کا ادراک ہے، ان کے پاس کوئی تبدیلی لانے کا اختیار نہیں ہے اور جن کے پاس اختیار ہے، انہیں ان جھمیلوں میں پڑنے کی فرصت ہی نہیں ہے، پس ہمارا قومی تناظر اس شعر کی حقیقی تصویر وتعبیر ہے کہ ؎
درد مَنّت کشِ دوا نہ ہوا
یہ بھی اچھا ہوا، بُرا نہ ہوا
مسیحیت کا تصور تو یہ ہے کہ انسان موروثی طور پریعنی حضرت آدم وحوّا علیہما السلام سے پاپ (Sin)لے کر پیدا ہوتاہے اور جب چرچ میں اُس کا بپتسما(Baptise)کیا جاتاہے، تو وہ مسیحی بن جاتاہے اور پاک ہوجاتاہے ۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کر سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے، عربی میں بپتسما کو ' 'اصطباغ‘‘کہتے ہیں ۔انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق یہ مسیحیت کی ایک مقدّس رسم ہے، جس میں مقدّس باپ ، مقدّس بیٹا اور روح القدس کے نام پر بچے کو پانی میں ڈبویا جاتاہے یا اس کے سر پر پانی ڈالا جاتاہے۔ ہندومذہب میں ''آواگون‘‘ یا ''انتقالِ ارواح‘‘ کا تصور ہے کہ انسان کا موجودہ ''جنم‘‘ اُس کے پچھلے ''جنم‘‘ کے کرتوتوں کی صورتِ جزا ہے یا سزا ہے، اسے ''تناسخِ ارواح‘‘یا (Transmigrationism)کہتے ہیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر کوئی پاپ یا گناہ لے کر پیدا نہیں ہوا۔ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتاہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''سو آپ تمام باطل نظریات سے لاتعلق ہوکراپنے آپ کو دینِ حق پر قائم رکھیں، (اے لوگو!)اﷲکی فطرتِ (سلیم) وہی ہے، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ، اللہ کی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، یہی صحیح دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،(الروم:30)‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''ہر بچہ دینِ فطرت(ملّتِ اسلام) پر پیدا ہوتاہے، پھر اس کے ماں باپ اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں ، جیسے جانور کا بچہ بالعموم صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، کیا تم اُس میں کوئی کن کٹا (یا مقطوع الاعضاء)پاتے ہو، پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم چاہوسورۂ روم، آیت :30 پڑھو،(مسلم:3658)‘‘۔ اس حدیث کا مدّعا یہ ہے کہ تخلیق کے حوالے سے عام قانونِ قدرت یہی ہے ، اللہ تعالیٰ کی حکمت سے بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں ۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ماں باپ اگر فطرتِ سلیم کے حامل ہیں تو بچے کی تربیت بھی اُسی نہج پر کرتے ہیں اور اگر اُن میں کوئی بگاڑ پیدا ہوچکا ہے تو پھر بچے کے اَخلاق واَطوار میں بگاڑ پیدا ہونا بعید اَزامکان نہیں ہے، کیونکہ والدین ہی بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہیں۔ ہم اَبَوَین (Parents) کو بطورِ استعارہ وسیع تر معنی میں بھی لے سکتے ہیں، یعنی ماحول خیر سے معمور ہو یا شر سے آلودہ بہر صورت بچے کی نشوونما ، ذہنی ساخت وپرداخت اور مزاج پر اثر انداز ہوتاہے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں جس طرح آج طبیعی اور حسی اعتبار سے ماحول کی آلودگی (Environmental Pollution )کارونا رویا جاتا ہے ، اگر ہم غور سے جائزہ لیں تو اَخلاقی اور دینی ماحول (Moral & Ethical Environment)کی آلودگی اور خبیث اثرات اس سے بھی زائد ہیں، جس سے نشوونما پاتے ہوئے ناپختہ ذہن کے بچے کو بچانا کارِ دشوار ہے۔ اِس اَخلاقی ماحول میں گھر کا ماحول ، گرد وپیش کا ماحول ، اسکول اور درسگاہ کا ماحول سب شامل ہیں اور پھر موبائل کے اندر مستور آفتیں ، انٹرنیٹ ، ٹیلی ویژن ، اخبارات اور چاروں طرف پھیلے ہوئے نیم عریاں اشتہارات کی آلودگی ، اسے دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ بنادیتی ہیں ۔ انڈین ٹیلی ویژن چینلز کی غیر قانونی نمائش ،جوکیبل کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکی ہے، کی پیدا کردہ اَخلاقی تباہی اس سے سوا ہے ۔ اب ہمارے ہاں ریاست ، حکومت اور معاشرے کی طرف سے اِن اثراتِ بد سے نئی نسل کے بچاؤ کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ کہا جاتاتھا مدرسہ اورمحراب ومنبر کی گرفت بڑی مضبوط ہے اور اس کا دائرۂ اثر سب سے زیادہ ہے، مگر اب جدید میڈیا کے پھیلاؤ اور دائرۂ اثر کے مقابلے میں یہ سمندر کے مقابلے میں قطرہ اور آفتاب کے مقابلے میں ذرہ معلوم ہوتے ہیں ۔
منظم ، مہذب اور متمدِن معاشروں میں ریاست وحکومت ضابطہ بندی یعنی Regulatorکا رول ادا کرتی ہے، مگر ہمارے ہاں آزاد الیکٹرانک میڈیا کی گرفت اتنی مضبوط اور پھیلاؤاس قدر ہمہ گیر ہوچکا ہے کہ حکومتیں کمزور اور بے بس نظر آتی ہیں، میڈیا کی یلغار کے آگے تھر تھر کانپتی نظر آتی ہیں، سو اِن سے کسی اصلاحِ احوال کی توقع رکھنا پنجابی زبان کے الفاظ میں ''سنڈے کو چَونے‘‘یعنی ''بھینسے سے دودھ نکالنے‘‘ کے مترادف ہے، یعنی عملاً ناممکن ہوتاجارہا ہے۔
ایسے پسِ منظر اور تناظر میں ہمارے معاشرے میں غیرسرکاری سطح پر تعمیرِ اخلاق کی فضا پیدا کرنے اور تخریبِ اخلاق کے کانٹوں کو چننے کے لیے ایک اجتماعی تجدیدی تحریک کی ضرورت ہے۔ اہلِ علم ، اہل کردار اور اہلِ دانش کی دینی وملّی ذمے داری ہے کہ وہ اس میں اپنا حصہ ڈالیں اور اہلِ ثروت کی ذمّے داری ہے کہ وہ اتنے مالی وسائل فراہم کریں کہ اَخلاق باختگی کے ماحول سے بچا کر بچوں کو مثبت اور تعمیری مسابقت اور علمی وتفریحی سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے، اُنہیں اُن کے ضمیر اور ذہنی ساخت میں اللہ تعالیٰ نے فطرتِ سلیم کا جو خمیر رکھا ہے اور جو جوہرِ مستور (Talent)ودیعت فرمایا ہے، اُسے ابھارنے اور نکھارنے کے مواقع پیدا کیے جائیں، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے، تحریر وتقریر اور کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جائیں اور بڑے بڑے انعامات رکھے جائیں، میڈیا ، کرکٹر ز ، رقاصوں اور مغنّیات (Singers)کے مقابلے میں انہیں دینی ، ملّی اور قومی ہیروز کے طور پر پیش کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ہم خیرِ غالب نہیں تو خیرِ کثیر کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''قیامت کے دن تم میں سے اُس شخص کا مقام مجھ سے سب سے زیاد ہ قریب ہوگااور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا، جس کے اَخلاق سب سے اچھے ہوں اور قیامت کے دن اُس شخص کا مقام مجھ سے سب سے زیادہ دور ہوگا اور وہ مجھے سب سے زیادہ ناپسند ہوگا، جو متکبر ہے، بلا ضرورت باتونی ہے اور منہ پھاڑ کر اور بانچھیں کِھلا کر طویل گفتگو کرتا ہے ، (صحیح مسلم:2018)‘‘۔ یعنی اس کا اندازِ کلام متکبرانہ اورفواحش ومنکرات پر مشتمل ہوتاہے اور اُس میں تکلُّف اور ریاکا غلبہ ہوتاہے۔