تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-04-2015

وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کو کس دن کا انتظار ہے؟

وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کو کس دن کا انتظار ہے کہ سندھ حکومت سے اپیکس کمیٹی کے فیصلے نظرانداز کرنے پر بازپرس کریں۔ شہر کو امن چاہیے۔ رائے عامہ تائید پر آمادہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ خلقِ خدا لو کی دعا مانگنے لگے۔ ایسا نہ ہو کہ آندھی آئے۔ خلا بہرحال باقی نہیں رہا کرتا۔
شہباز شریف آبدیدہ بہت ہونے لگے ہیں۔ رضا ربانی تو رہتے ہی اسی عالم میں ہیں۔ رو پڑے اور کہا: افسوس‘ میں اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دے رہا ہوں۔ لگتا ہے کہ کراچی کے فیصلہ سازوں کا بھی یہی عالم ہے۔ دکھ زیادہ‘ قوت عمل اور منصوبہ بندی سست گام۔
تحریک پاکستان کے رہنما ایم ایچ اصفہانی نے‘ جن کے خاندان کو بعدازاں حسین حقانی سمیت کئی صدمات سہنا پڑے‘ 1946ء میں قائد اعظم سے مولانا عبدالحمید بھاشانی کی ایک ملاقات کا احوال لکھا ہے۔ سلہٹ کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے وہ اشک بار ہو گئے۔ اصفہانی ان کے خلوص سے متاثر ہوئے۔ مردم شناس‘ محکم اور مضبوط‘ دائم اپنے مقصد پر نگاہ رکھنے والے قائد اعظم غیر ضروری تفصیلات میں کبھی نہ پڑے تھے۔ کہا: مسلم برصغیر کو رونے والوں کی نہیں‘ کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔
بنیادی فیصلے اب ملک کو درکار ہیں۔ بحران نے زخم لگائے ہیں مگر مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ ضرب عضب نے دہشت گردی کے عفریت کو مجروح کیا ہے مگر وہ زندہ ہے۔ کراچی میں لیاری گینگ کے بعد ٹارگٹ کلرز کے خلاف پے در پے کارروائیوں نے امید کی جوت جگا دی ہے۔ رات گئے تک جگمگانے والی مجلسی زندگی بحال ہونے لگی ہے۔ ریستوران اور ساحل آباد ہیں۔ خرابی پیدا کرنے والی سیاسی پارٹیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کی اکثریت شہر سے
بھاگ نکلی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے قصبات میں اب ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے‘ لیکن جوش و خروش کے بغیر۔ ملک گیر منصوبہ بندی کے بغیر۔ گورنر عشرت العباد بہت طویل ہنی مون منا چکے۔ انہیں اب رخصت ہونا چاہیے۔ رینجرز اور کراچی کور کی قیادت پُرعزم ہاتھوں میں ہے۔ بعض بنیادی فیصلوں سے مگر انحراف ہے۔ مثال کے طور پر سندھ حکومت نے پہلے تبادلوں پر پابندی عائد کی اور رات اچانک بہت سے افسروں کو چلتا کیا۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم اس پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں اور نہ عسکری قیادت۔ کیا وہ گومگو کے عالم میں ہیں؟
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے
عشرت العباد پر الزام ہے اور یہ الزام درست دکھائی دیتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کے لیے وہ رعایت طلب کرتے رہے۔ ان کا دفتر ریاست کے خلاف استعمال ہوتا رہا۔ اب کسے ان کی ضرورت ہے؟ سندھ حکومت کو؟ جس کا مؤقف یہ ہے کہ کراچی آپریشن ایم کیو ایم کی حمایت سے شروع کیا گیا تھا اور یہ کہ وہ مجرموں کے خلاف ہے‘ کسی پارٹی کے نہیں۔ عسکری قیادت کو؟ مگر کس لیے؟
گورنر کے لیے اب تک جو نام سامنے آئے ہیں‘ ان پہ تعجب کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ممتاز بھٹو۔ بیک وقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ان کی سب سے بڑی آرزو سندھ کے صوبائی صدر مقام کو ٹھٹھہ منتقل کرنا ہے۔ 1996ء میں بے نظیر حکومت برطرف ہوئی تو اساطیری آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل سے انہوں نے کہا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اس نیک کام میں ان کی مدد کی جائے۔ انکار ہوا تو ڈاکٹر شعیب سڈل کو نظر بند کر دیا گیا۔ الٹا انہی پر مقدمہ بنا‘ جو بغیر وکیل کے انہوں نے لڑا اور شان و شوکت سے جیت لیا۔ ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بھٹو اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے۔ عدالت تک بات پہنچی لیکن پھر حکومت میں ان کے ہمدرد بروئے کار آئے اور مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ ہی قانون شکن جاگیردار اور دہشت گردوں کو پناہ دینے والی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ممتاز بھٹو ان کے خلاف قانونی اقدامات میں کس طرح مددگار ہو سکتے ہیں؟ بہتر تاثر قائم کیے بغیر سندھ حکومت کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ یہ جلیل القدر منصب ممتاز بھٹو کو سونپنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں سے غیر ضروری تصادم کا دروازہ کھول دیا جائے۔ یوں بھی وہ شرکتِ اقتدار گوارا نہیں کرتے۔ ان کی آرزو یہ ہو گی کہ فوراً ہی گورنر راج نافذ کر دیا جائے اور وہ اپنے مخالفین پہ عرصۂ حیات تنگ کر دیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ہی نہیں‘ تحریک انصاف‘ پیر پگاڑا اور جماعت اسلامی کے علاوہ نون لیگ کے کارکنوں کو بھی وہ قبول نہ ہوں گے۔
ایک اور صاحب ہیں‘ جنرل وسیم غازی۔ ان کے دور میں فوج کے نام پر دھبہ لگا۔ عالم ان کا یہ تھا کہ اپنے ماتحتوں تک سے حسد کرتے اور گاہے بہترین لوگوں سے۔ سندھ نے اپنے شہریوں میں جمیل یوسف ایسے اجلے فرزند کم ہی دیکھے ہوں گے۔ ان کا اعتبار اور اہلیت غیر معمولی ہیں۔ شہری پولیس رابطہ کمیٹی کے سربراہ تھے تو ڈیڑھ سو دہشت گردوں کو انہوں نے گرفتار کرایا۔ کبھی یہ الزام نہ لگا کہ کوئی بے گناہ ان کی وجہ سے پکڑا گیا۔ ایک روز جناب کور کمانڈر نے انہیں طلب کیا اور کہا کہ اپنا دفتر خالی کر کے وہ گھر چلے جائیں۔ اپنا کمپیوٹر وہ آئی جی کے حوالے کر دیں۔ جمیل یوسف نے کہا: لکھ کر دیجیے۔ فرمایا: میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ دبنگ آدمی نے‘ جس کے دامن پہ کوئی داغ نہ تھا‘ یہ کہا: لکھ کر بھی دیں تو میں آپ کی بات مانوں گا نہیں۔ دفتر کا ساز و سامان مرکزی حکومت کی ملک ہے‘ اسی کو لوٹایا جا سکتا ہے۔ رہا منصب تو مجھے اس کی خواہش کبھی نہ تھی۔ بہرحال ان سے نجات حاصل کی گئی اور احمد چنائے نام کے وہ صاحب مقرر کر دیئے گئے‘ جن کی نااہلی ضرب المثل ہے۔ افواہوں کے سوا موصوف کوئی اثاثہ نہیں رکھتے۔ وزیر اعظم اور عسکری قیادت کیوں انہیں برداشت کر رہے ہیں؟ نتائج کا انحصار مردانِ کار پہ ہوتا ہے۔ احمد چنائے بہرحال ان میں شامل نہیں۔ جنرل وسیم غازی سے ایسی بہت سی داستانیں منسوب ہیں‘ جنہیں دہرانے پر طبیعت آمادہ نہیں۔
نائن زیرو سے مجرموں کی گرفتاری کے بعد‘ اطلاعات یہ تھیں کہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ صولت مرزا کے بیان کی تو کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں۔ دو تین ایسے ہیں کہ پکڑے جائیں تو سب کچھ اُگل دیں گے۔ وعدہ معاف گواہ بننے پر بھی وہ آمادہ ہوں گے۔ روپے پیسے کی خاطر جو لوگ آلۂ کار بننے پر آمادہ ہوں‘ مزاحمت کی تاب ان میں نہیں ہوا کرتی۔ بتدریج اب یہ تاثر بھی پھیل رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی زیادہ ہے۔ سہراب گوٹھ بھی تو آخر ایک ''نو گو ایریا‘‘ ہے۔ بہت سے مکانات سرکاری زمین پر بنائے گئے‘ ناجائز اسلحے اور منشیات کا گڑھ‘ طالبان کی جائے پناہ۔ ان مکانوں کو زمین بوس ہونا چاہیے‘ ان مجرموں کو گرفتار۔ قاتلوں اور غنڈوں کی کوئی نسل‘ رنگ اور مذہب نہیں ہوتا۔ قانون اور امن کا دشمن تو بس قانون کا دشمن ہے۔ معاشرے کی آزادی اور صلاحیت کے بروئے کار آنے کا انحصار مجرموں کی آزادیٔ عمل محدود کر دینے پہ ہوا کرتا ہے۔ قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کا وقت بھی آ پہنچا۔ سندھ کی تقریباً ہر حکومت سرکاری جائیدادیں اس طرح لٹاتی رہی‘ جیسے آوارہ اولاد خاندان کا اندوختہ برباد کرے۔ کورنگی کے سیلابی راستوں پہ مٹی کے ٹرک انڈیلے جا رہے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ بازیاب کر کے تاکہ اربوں روپے کمائے جائیں۔ پچاس ہزار صنعتی یونٹ پہلے ہی بند ہیں۔ کورنگی کے کارخانوں کو کیا ڈبو کر تباہ کرنے کا ارادہ ہے۔
وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کو کس دن کا انتظار ہے کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے نظرانداز کرنے پر سندھ حکومت سے بازپرس کریں۔ شہر کو امن چاہیے۔ رائے عامہ تائید پر آمادہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ خلقِ خدا لو کی دعا مانگنے لگے۔ ایسا نہ ہو کہ آندھی آئے۔ خلا بہرحال باقی نہیں رہا کرتا۔
پسِ تحریر: اندازہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم این اے 246 کے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کردے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved