کیا ہم ایک اور پرائی جنگ کا حصہ بننے لگے ہیں؟ کیا ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے ہمیں اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یمن میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں؟
گزشتہ چند برسوں سے کرۂ ارض پر مطلق العنان حکومتوں کا سب سے بڑا گڑھ... عرب دنیا‘ عوامی یورش کے دبائو میں ہے اور یہاں سے وسیع تر مسلم دنیا کے بہت سے ممالک کی جانب خطرے کی لہریں جا رہی ہیں۔ تیونس سے مصر‘ لیبیا اور اردن سے یمن تک عوام‘ جابر حکومتوں کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ جنوری 2011ء میں تیونس کے آمر زین العابدین بن علی کی برطرفی سے آغاز ہوا اور پھر پوری عرب دنیا اپنے آمر حکمرانوں کو چیلنج کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اُس وقت سے، عرب دنیا میں مغرب (مصر کی مغربی سمت میں شمالی افریقہ یا شمال مغربی افریقہ جس میں مراکش‘ الجیریا اور تیونس نمایاں ہیں) سے جزیرہ نمائے عرب تک بیشتر مطلق العنان حکمرانوں کے سروں پر زبردست خطرہ منڈلا رہا ہے۔
2011ء میں مصر کے لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حسنی مبارک کو نکال باہر کیا۔ انہوں نے جون 2012ء میں انتخابات کے ذریعے محمد مرسی کو اپنا صدر منتخب کیا، لیکن ''خفیہ ہاتھ‘‘ بروئے کار آیا اور جلد ہی مصر میں جمہوری عمل کا رُخ پلٹا دیا۔ مصری تاریخ میں پہلی بار جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے برطرف کر دیا گیا۔ جلد ہی، مصر کو خوفناک خانہ جنگی سے بچانے کے متبادل کے طور پر نام نہاد ''نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ایک نئے فوجی حکمران کو ''منتخب‘‘ کر لیا گیا۔ دوسرے بیشتر عرب ممالک کی صورت حال بھی اس سے کم مخدوش نہیں‘ جن کے ضعیف العمر آمر حکمران اور مطلق العنان بادشاہ، شیخ اور امیر اب خوفزدہ اور واقعتاً لرزہ بر اندام ہیں۔
عرب شاہراہ (Arab Street) میں شورش، واشنگٹن میں شدید تشویش کا باعث بنتی ہے کیونکہ اس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب دنیا میں امریکہ کے قائم کردہ نظام کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ ''حکومتی تبدیلی‘‘ (regime change) کی بنیاد پر ایک نئی سکیورٹی ڈاکٹرائن پر عمل پیرا ہے؛ چنانچہ جب اور جہاں وہ اسے اپنے مفاد کے لیے ضروری سمجھتا ہے، اسے بروئے کار لے آتا ہے۔ عراق اور افغانستان پر حملوں کے لیے ایسی ڈاکٹرائن پر بے دھڑک عمل کیا گیا اور مصر و لیبیا میں بھی زبردستی اسی کو کامیابی سے لاگو کیا گیا۔ شام میں بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جو منظم (Engineered) عسکری بغاوت شروع کی گئی‘ اُس کا رخ بدل گیا کیونکہ جنگجو شام اور عراق کے کئی علاقوں میں اپنی متنازع دولت اسلامیہ قائم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
اس پر امریکہ نے اس دعوے کے ساتھ نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف ایک نئی جنگ چھیڑ دی کہ اس سے ''عراق و شام کے عوام اور وسیع تر شرق اوسط بشمول امریکی شہریوں اور تنصیبات کو خطرہ ہے‘‘۔ عراق کی جنگ کی طرح، نئی جنگی حکمت عملی میں اقوام متحدہ اور اس کے چارٹر کو نظر انداز کرتے ہوئے، آمادہ شراکت داروں پر مبنی اتحاد (Coalition of the willing partners) تشکیل دیا گیا‘ جس میں فوجی اعتبار سے امریکہ کی شمولیت بظاہر محدود ہے۔ امریکہ‘ دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے والوں کو ''ٹریننگ‘ انٹیلی جنس اور جنگی ساز و سامان‘‘ فراہم کر کے ''سمارٹ پاور‘‘ کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ ایک دیکھا بھالا منظرنامہ ہے کہ بڑے جیوپولیٹیکل مقاصد کے لیے ایک عفریت کھڑا کیا جائے اور پھر اسی کے نام پر جنگ شروع کر دی جائے۔
طالبان کی تخلیق اور اب دولت اسلامیہ کے سکرپٹ کی حقیقت ایک ہی ہے... کہ مسلمانوں کو پراکسی وارز کے لیے استعمال کیا جائے‘ لیکن یہ جنگ صرف ایک اعتبار سے مختلف ہے کہ خطے میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑایا جائے۔ اب یہی ہو رہا ہے۔ جنگ کے شعلے شام اور عراق سے نکل کر جزیرہ نمائے عرب تک پھیل گئے ہیں؛ چنانچہ یمن میں اقتدار کی شدید ترین رسہ کشی نے ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نئی ''برادر کش‘‘ جنگ کے مصارف تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستیں برداشت کر رہی ہیں‘ جو مغرب کے ٹروجنی گھوڑوں (Trojan Horses) کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس جنگ کا اختتام جو بھی ہو‘ اس جنگی حکمت عملی کے ہمارے اپنے ملک سمیت علاقے اور عالمی امن پر دور رس اثرات ناگزیر ہیں۔
یمن تزویراتی اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ آبنائے باب المندب پر واقع ہے، جو بحر احمر کو خلیج عدن سے ملاتی ہے اور دنیا بھر کو برآمد ہونے والا تیل اسی (آبنائے) سے گزرتا ہے۔ 2012ء میں یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کی برطرفی کے بعد ان کے نائب صدر عبدالربہ منصور ہادی نے حکومت اور اپوزیشن گروپوں کے مابین مذاکرات کے ذریعے طے پانے والے معاہدے کے تحت اقتدار سنبھالا اور ملک کو سیاسی اعتبار سے متحد کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے القاعدہ اور شیعہ حوثی جنگجوئوں کے اس خطرے کو جزیرہ نمائے عرب سے دور رکھنے کی جدوجہد کی‘ جنہوں نے شمال میں کئی برسوں سے عسکری سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں۔
حوثی جنگجو 2014ء میں دارالحکومت صنعا میں داخل ہو گئے اور انہوں نے منصور ہادی کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے سیاسی دھڑوں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ حکومت (unity government) تشکیل دیں۔ جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ (Al-Qaida in the Arabian Peninsula-AQAP) بھی اس تغیر پذیر صورت حال میں کود پڑی اور صدر منصور ہادی اور حوثیوں کی مخالفت کرنے لگی۔ مغرب کے خفیہ ادارے، AQAP کو اپنی تکنیکی مہارت اور عالمی رسائی کے باعث القاعدہ کی خطرناک ترین شاخ گردانتے ہیں۔ امریکہ‘ صدر منصور ہادی کے تعاون سے یمن میں AQAP کے خلاف ڈرون حملوں سمیت فوجی کارروائیاں کرتا رہا لیکن حوثیوں کی پیش قدمی سے ان میں کمی واقع ہو گئی ہے۔
یہ منظرنامہ 2014ء کے آخر میں دولت اسلامیہ کی یمنی شاخ کے ابھرنے سے مزید پیچیدہ ہو گئی‘ یہ گروپ AQAP کا زور توڑنا چاہتا ہے۔ حوثیوں اور منتخب حکومت کے تصادم کو بھی شیعہ ایران اور سنی سعودی عرب کے مابین علاقائی بالادستی کی جنگ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اور یمن کی طویل سرحد مشترک ہے۔ خلیج کی عرب ریاستوں نے ایران پر حوثیوں کو مالی اور فوجی حمایت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایرانی اس کی تردید کرتے ہیں اور بظاہر منصور ہادی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
مارچ کے آخری ایام میں جب باغی افواج عدن میں صدر ہادی کے محفوظ ٹھکانے تک پہنچ گئیں تو سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے اُن کی درخواست پر حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اتحاد خلیج کی پانچ ریاستوں کے علاوہ اردن‘ مصر‘ مراکش‘ سوڈان پر مشتمل ہے اور غیر ملکی میڈیا کے مطابق حیرت انگیز طور پر پاکستان کا بھی اس میں شامل ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ملک میں کوئی نہیں جانتا کہ ہم نے اس اتحاد کا حصہ بننے کا فیصلہ کب اور کیسے کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھے۔
جزیرہ نمائے عرب میں بگڑتی ہوئی صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم انتہائی ہوش مندی اور احتیاط سے کام لیں۔ پوری دنیا ان حالات کی پیچیدگیوں سے آگاہ ہے۔ یمن‘ جنگ لڑنے کے اعتبار سے ہر کسی کے لیے ایک مشکل ملک ہے کیونکہ جنگ کی حدود غیر واضح ہیں اور فریقین کے لیے اس سے نکلنے کا راستہ بھی صاف نہیں ہے‘ یہاں تک کہ امریکہ کو یمن میں انسداد دہشت گردی کے لیے اپنا فوجی اڈہ بیس برس بعد بند کرنا پڑا۔ کسی بھی بیرونی طاقت کو اس ملک میں فوجی مداخلت کرنے سے پہلے بڑی احتیاط سے سوچنا ہو گا۔ ہم کسی دوسرے کی پراکسی وار کا حصہ بننے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے ہمیں اس تصادم میں کسی کا ساتھ دینے سے لازمی طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔
ہماری مسلح افواج پہلے ہی ہماری بقا کی فیصلہ کن جنگ لڑنے میں مصروف ہیں‘ اس سے توجہ ہٹانے سے آپریشن ضرب عضب پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ یمن کے تصادم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ہم مزید شورشوں میں نہیں کُود سکتے۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ حکومت عربوں کے باہمی تصادم میں کوئی فوجی کردار قبول کرنے سے پہلے ذاتی مفادات سے بالا ہو کر پوری صورت حال کا نہایت احتیاط اور ہوشیاری سے جائزہ لے۔ مسلمانوں یا عربوں کی باہمی لڑائی میں اگر ہمارا کوئی کردار ہو سکتا ہے تو وہ کسی کا فریق بننے کا نہیں بلکہ امن قائم کرنے والے ملک کا ہونا چاہیے۔ ہمیں ایرانی تشویش کے بارے میں بھی لازمی طور پر حساس رہنا چاہیے۔
آج پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج اپنے جغرافیائی محل وقوع کو بوجھ کے بجائے اثاثے میں تبدیل کرنا ہے۔ اس نازک موقع پر ہماری اولین ترجیح یہ نہیں کہ دوسروں کے مفاد کے لیے کیا کرنا ضروری ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ خود اپنے قومی مفاد کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)