پڑھو پنجاب‘ بڑھو پنجاب‘ 2018ء تک
ہر بچہ سکول جائے گا... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''2018ء تک پڑھو پنجاب‘ بڑھو پنجاب پروگرام کے تحت ہر بچہ سکول جائے گا‘‘ ماسوائے اُن کروڑوں بچوں کے جو گھر کا خرچہ چلانے اور اپنے ماں باپ کی مدد کے لیے ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں چھوٹے کا کردار ادا کرتے ہیں جس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ اس بہادر قوم کے جفاکش بچے اپنے والدین کے ساتھ شانہ بشانہ ملکی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں‘ علاوہ ازیں غربت چونکہ قدرتی معاملہ ہے جس میں ہم بندے بشر کیا دخل دے سکتے ہیں کیونکہ غریب ہم نے نہیں بنائے بلکہ یہ ان کی بہت بُری عادت ہے کہ امیروں کے امیر تر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اپنے آپ ہی غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں جس پر ہم بے حد فکر مند رہتے ہیں کیونکہ فکرمندی کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''2018ء تک صوبہ پنجاب کے ہر بچے و بچی کے سکول داخلے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے‘‘ جبکہ اسی طرح ہم نے لوڈشیڈنگ وغیرہ ختم کرنے کا بھی بار بار ہدف مقرر کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ خدا کو ایسا منظور ہی نہیں تھا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ہم درویش لوگ خدا کی رضا پر ہمیشہ راضی رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی مخالفین کے پاس دھاندلی
کا کوئی ثبوت نہیں... خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''سیاسی مخالفین کے پاس دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے‘‘ کیونکہ ہم اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ دھاندلی کا ثبوت بھی چھوڑتے جائیں‘ اگرچہ بعض بڑے سکینڈلز کا ثبوت مل بھی جاتا ہے لیکن ہماری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ہمارے عزیز عوام نے کبھی اس پر صدائے احتجاج بلند کی ہے کیونکہ وہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بڑے منصوبے ہوں گے تو اتنے ہی بڑے سکینڈل منظرعام پر آئیں گے کیونکہ چھوٹا سکینڈل تو ویسے بھی توہین کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جرح سے پہلے عدالت نے کہا تھا کہ اللہ کی قسم کھائیں‘‘ میں نے کہا کہ میں نے تو کبھی کسی اللہ کے بندے کی قسم بھی نہیں کھائی‘ اللہ کی قسم کیسے کھا سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان میں شادی کے بعد ٹھہرائو آ جانا چاہیے‘‘ کیونکہ بیوی کے خوف سے ہر چیز اپنی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے اور ہلنے کا نام تک نہیں لیتی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان اپنا چورن بیچتے رہتے ہیں‘‘ لیکن افسوس کہ ہمارا تو اب چورن بھی نہیں بکتا۔ آپ اگلے روز کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
یمن سے تمام پاکستانیوں کی واپسی تک
چین سے نہیں بیٹھیں گے... پرویز رشید
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''یمن سے تمام پاکستانیوں کی واپسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ اس لیے بے چین ہو کر بیٹھنے کی بجائے ہم کھڑے رہتے ہیں‘ چلتے پھرتے ہیں یا آرام سے لیٹے رہتے ہیں۔ ویسے بھی ہمیں چین سے نہ بیٹھنے کا کافی تجربہ حاصل ہے کیونکہ لاتعداد مسائل ایسے ہیں جن کے بارے ہم نے اعلان کر رکھا ہے کہ ان کے حل تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ اس لیے چین سے بیٹھنا خواب و خیال ہی ہو کر رہ گیا ہے‘ ویسے بے چینی سے بیٹھے ہوئے ہم کافی عجیب سے بھی لگتے ہیں یعنی بقول شاعر ؎
کبابِ سیخ ہوں اور کروٹیں ہر سو بدلتا ہوں
جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو یہ پہلو بدلتا ہوں
انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم خود انخلاء آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں‘‘ چنانچہ ظاہر ہے کہ وہ بھی چین سے بیٹھنے سے سراسر محروم ہیں حتیٰ کہ کھانا بھی بے چینی ہی کی حالت میں کھاتے ہیں‘ اس لیے کوئی اندازہ نہیں رہتا کہ کتنا کھایا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جماعتی‘ غیر جماعتی
لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس سلسلے میں جاری کیے گئے آرڈیننس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ حکومتی پارٹی اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ضمن میں آرڈیننس جاری کروا کر آرام سے بیٹھ گئی تھی اور آصف علی زرداری نے بھی ایک بیان میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے خلاف عدالت میں جائیں لیکن اس سے پہلے ہی عدالت نے ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ صوبائی حکومتیں جن میں پنجاب سرفہرست ہے‘ بلدیاتی انتخابات کے ویسے بھی حق میں نہیں ہیں اور حیلوں بہانوں سے عدالتِ عظمیٰ کے کئی احکامات کے باوجود انہیں ٹالتی چلی آ رہی تھیں‘ لیکن جب کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کا اعلان ہو ہی گیا تو حکومت نے غیر جماعتی کا یہ شوشہ کھڑا کردیا جس کا مقصد محض یہ تھا کہ منتخب ممبران کو حکومتی کشش کے ذریعے اپنے ساتھ ملا لے گی اور یوں اپنی اکثریت بنا لے گی جبکہ حکومت اس کی ایکسپرٹ بھی ہے اور چھانگامانگا آپریشن میں اس کا خاطر خواہ ثبوت بھی فراہم کر چکی ہے۔ اس عدالتی طمانچے میں حکومت کے لیے عبرت حاصل کرنے کا پورا پورا سامان موجود ہے۔
آج کا مقطع
اُس نے اُڑا بھی دیئے غم کے غبارے‘ ظفرؔ
میں یہ سمجھتا رہا اُس کی امانت میں ہیں