مستقبل سے پریشان سہمی اور گھبرائی ہوئی قوموں کو دولت کی فراوانی یاعددی طاقت نہیں بلکہ بلند حوصلے اور مصلحتوں سے بے نیاز ایسی قیادت ہمت اور استقلال کا پیکر بنا تی ہے جو حضرت علامہ اقبال ؒ کے اس شعر '' نگاہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز۔۔۔ یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے‘‘ کا ہو بہو مجموعہ ہو۔ سات سال کی مصلحتی بندش کے بعد دنیا نے دیکھا کہ ہر وقت خوف کے سمندر میں غوطے کھانے والی پاکستانی قوم نے اس سال 23 مارچ کو اپنایوم جمہوریہ بھرپور طریقے سے منایا۔ فوج اور عوام نے ہم آواز ہو کر اپنی بیرونی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا ایک بار پھر عہد کیا اور جب نیت نیک ہو ''قیادت‘‘ بے خوف اور ایماندار ہو تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ خدائے برحق اور نیتوں کے حال جاننے والااس کا بھر پور صلہ نہ دے۔ ایک طرف پاکستانی قوم اپنی نظروں کے سامنے وطن کے سر فروشوں کی روح پرور للکار سنتے ہوئے اپنے دلوں کو گرما رہی تھی تو دوسری جانب اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، خیبر ایجنسی سے منسلک پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر واقع ان کی آخری پناہ گاہ وادی تیراہ پر اسلام اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ اس کامیابی میں انسانیت کی تذلیل کرنے والے دہشت گردوں کا وسیع پیمانے پر صفایا کیا گیا جس میں پاک وطن کے سات محافظ اپنی جانوں کی قربانی دے کر گلستان وطن کی اپنے خون سے آبیاری کر تے ہوئے رتبہ شہا دت کے بلند مقام پر جا فائز ہوئے ۔یہ وہ فتح تھی جس کا عرصہ سے انتظار تھا اور جو صرف انہیں ہی ملا کرتی ہے جن کے سامنے اﷲ کی رضا کی خاطر ہر وقت شہا دت کی آرزو سمندر کی لہروں کی طرح موجزن ہو۔یہی وہ وادی تیراہ تھی جسے 1980ء میں روسی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے افغان مجاہدین نے اپنی گزرگاہ بنایا ہوا تھا اور یہیں سے نائن الیون کے بعد سے ہر قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود خیبر ایجنسی میں واقع لنڈی کوتل کے رستے سے دونوں ملکوں کی سرحدوںکے آر پار لایا جا رہا تھا اور جب وادی سوات کے امن کو پارہ پارہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا تھا تو سوات سے بھاگ کر مولوی فضل اﷲ اور اس کے انسانیت اور اسلام دشمن دہشت گرد یہیں پر پناہ لے رہے تھے اور یہیں سے سوات کیلئے ان کی رسد گاہ کا کام کرزئی اور بھارتی گٹھ جوڑ کی مدد سے بے خوفی سے کیا جاتا تھا۔
جنرل مشرف نے2005ء میں پاکستان کی عسکری قوتوں کی قربانیوں سے وادی تیراہ کا پاکستان اور اسلام سے وفاداری نبھانے والے ا نصار الاسلام کے ذریعے کنٹرول حاصل کیا تھا اور تحریک طالبان کے پاکستان دشمن دہشت گردوں نے یہاں کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے انصار الاسلام پر یکے بعد دیگرے کئی حملے کئے لیکن ہر بار انہیں نا کامی حاصل ہوتی رہی جب ان کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں تو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہوئے منگل باغ کے ذریعے لشکر اسلام اور تحریک طالبان کا آپس میں الائنس بنوا دیا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ تحریک طالبان نے کبھی کسی سے الائنس نہیں کیا تھا بلکہ وہ شروع سے ہی اکیلے کام کرنے کی عادی تھی۔ علاقے میں موجود ان دو متحارب قوتوں کا اتحاد کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن چونکہ منگل باغ اور محسود کی دہشت گرد تنظیموں کی ہر قسم کی حربی، غذائی اور جسمانی ضروریات بھارت اور کرزئی کے ہی دو مختلف ادارے علیحدہ علیحدہ کام کرتے ہوئے مہیا کر رہے تھے اس لئے انہیں اس میں جلد ہی کامیابی مل گئی۔ دوسرا بھارت کی ایجنسیوں کے سامنے کسی بھی وقت پاکستانی فوج کے بھرپور حملوں سے تحریک طالبان اور منگل باغ کی جنوبی اور شمالی وزیرستان سے بھاگنے کی ممکنہ صورت حال بھی تھی۔ اس لئے بھارت اور حامد کرزئی نے آنے والے وقت میںوادی تیراہ کو اپنے ایجنٹوں کا محفوظ ٹھکانہ بنانے کیلئے خیبر ایجنسی اور باڑہ میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار دونوں دہشت گرد گروپوں کو یکجا کر دیا اور اس کیلئے سوات میں تحریک طالبان کے کمانڈر ابن امین کی خدمات
حاصل کی گئیں جس کا منگل باغ سے قریبی رابطہ رہتا تھا کیونکہ بھارت منگل باغ کی تمام ضروریات ابن امین کے ذریعے ہی پوری کر اتا تھا اور یہ سب کام اس وقت کئے گئے جب پاکستان کے اندر عدلیہ کی آزادی کے نام سے افتخار چوہدری کی جنرل مشرف کے خلاف تحریک نے ملکی نظم و نسق تقریباً مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ جب کبھی بھی بھید کھلیں گے تو پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے والے یہ منصوبے بھی بے نقاب ہوکر بتائیں گے کہ پس پردہ کون سے عنا صر تھے جنہوں نے وادی تیراہ کا کنٹرول بھی دشمنان پاکستان کے حوالے کرایا۔ 2010ء میں بم بنانے کے ماہر اسی سفاک قاتل ابن امین کو ایک میزائل حملے میں جہنم واصل کر دیا گیا۔
23 مارچ کو جب سمندروں کی موجوں کے ساتھ رواں دواںپاک بحریہ ،ارض پاک کی مٹی کے ایک ایک ذرے کی پاسبان بری فوج اور ملک کی فضائوں کی نگہبان پاک فضائیہ پریڈ گرائونڈ میں پاکستان کے ہر مرد و زن کے حوصلوں کو نئی شان اور نئی اڑان دیتے ہوئے ''اﷲ ہو‘‘ کی روح پرورگونج کے ساتھ دنیا بھر کو اپنی بھر پور اور بے خوف و خطر موجو دگی کا پیغام دے رہی تھیں تو دوسری طرف افغان صوبے ننگر ہار کے دو اہم اضلاع در بابا اور نازیان سے ملحقہ وہ وادی تیراہ‘ جو دشمنان پاکستان کا مورچہ تھی‘ دشمن کے ہاتھوں سے چھینی جا رہی تھی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا! یہاں ہر طرف لشکر اسلام اور تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی حکومت تھی۔ یہی وہ راستہ تھا جہاں دہشت گردوں کی حکومت تھی اور یہیں سے ان کے اور ان کے آقائوں کے پاکستان اور افغانستان میں بلا روک ٹوک آنے جانے کے محفوظ رستے تھے اور ان راستوں پر چلنے والے دہشت گردوں کے ناپاک وجود کو ختم کرنے کیلئے عزم و حوصلے کی تجدید کا عہد کرتے ہوئے تیئس مارچ کے دن پاکستان وادی تیراہ کے اس حصے پر اپنا فوجی کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا تھا جہاں سے دہشت گرد ''کر اس بارڈر موومنٹ‘‘ کرتے رہتے تھے اور جس کے کنٹرول پر تحریک طالبان اور منگل باغ فخر سے کہا کرتے تھے کہ یہاں سے ہم جب اور جہاں چاہیں پاکستان کی عوام اور فوج کو اپنے دہشت گردوں کے ذریعے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
وادی تیراہ کا پر خطر معرکہ انجام دیتے ہوئے پاکستان نے اقوام عالم سمیت افغانستان پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغان عوام کی سالمیت کیلئے اتنا ہی پر جوش اور مخلص ہے جیسے اپنے وطن کی سرحدوں اور عوام کیلئے ہے اور افغانستان کے عوام سمیت ان کے منتخب صدر اشرف غنی احمد زئی کو دوستی اور باہمی دفاع کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے پاک فوج کے ان سات جا نثاروں نے وادی تیراہ کا کنٹرول سنبھالنے کے دوران جسم و جان کی قربانی دے کر اپنے لہو کی روشنائی سے ''برادر افغان سلامت باشد‘‘ تحریر کر دیا ہے...!!