وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب نے 30مارچ کو لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں اعلان کیا ''2018ء تک پنجاب کا ہر بچہ تعلیم حاصل کررہا ہو گا۔‘‘ موصوف نے یہ وضاحت بہرحال نہیں کی کہ وہ کسی فرقے کے مدرسے میں پڑھے گا یا کسی ''کانونٹ‘‘ سکول میں داخل ہو گا، سرکاری سکول جائے گا یا نجی سکول سے تعلیم خریدے گا، انگریزی میڈیم نصاب پڑھے گا یا اردو میڈیم؟ پنجابی حکمرانوں نے پنجاب میں پنجابی زبان، تہذیب اور ثقافت کو ویسے ہی قتل کر دیا ہے۔ اب پتا نہیں یہ بیان ٹاٹوں والے سکولوں کے لئے تھا یا ائیر کنڈیشنڈ فائیو سٹار سکولوں کے بارے‘ پنجاب کا ہر بچہ ایسے سکولوں میں تعلیم حاصل کرے گا جہاں پیدل فاصلے سے بچوں کو لینے کے لئے لمبی گاڑیوں کی طویل قطاریں ہوتی ہیں یا ان سکولوں میں جہاں کڑکتی دھوپ اور جما دینے والی سردی میں بچے میلوں چل کر جاتے ہیں اور اکثر و بیشتر ''کمرہ جماعت‘‘ چھت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ یہ بھی نہیں پتا کہ میاں صاحب کسی سرکاری پروگرام کا ذکر کر رہے ہیں یا پھر بچی کھچی سرکاری تعلیم کی نجکاری کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ''پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ‘‘ کے معجزات پر مشتمل کوئی مہم ہو۔ ویسے میاں صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تمام بچے پڑھیں گے تو ان جیسے سیٹھ گھرانوں کی صفائیاں کون کرے گا،برتن کون دھوئے گا، گھریلو مشقت کون کرے گا؟یہ کام آخر بیگمات کے کرنے کے تو ہرگزنہیں! اور پھر ان کے طبقے کو سستی چائلڈ لیبر کہاں سے ملے گی؟
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے دوسرے سرکاری منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی اعلانات اور تقاریب تک ہی محدود رہے گا۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہر قسم کے منصوبوں کی پہلے ہی بھرمار ہے لیکن شروع ہونے والا ہر نیا ''منصوبہ‘‘ بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی کو عوام کی پہنچ سے اور بھی دور کر دیتا ہے۔ ہر نئے منصوبے کا اعلان پچھلے منصوبوں پر مٹی ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔آبادی کا 82فیصد حصہ علاج کی جدید سہولتوں سے محروم ہے۔ ڈھائی کروڑ بچوں نے سکول کبھی نہیں دیکھا اور جنہوں نے دیکھا ہے انہوں نے بس دیکھا ہی ہے کیونکہ داخل ہونے والے بچوں کی اکثریت پرائمری سے پہلے ہی بھگا دی جاتی ہے۔ ملک میں ہر ایک منٹ میں ایک بچہ غذائی قلت یا قابل علاج بیماری سے لقمہ اجل بنتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہر روز خط غربت سے نیچے گرتے ہیں اور 60فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ یا باقاعدہ بھوک کا شکار ہے۔تعلیم سمیت ہر سماجی شعبے میں بچیوں کے حالات اور بھی ابتر ہیں۔ دوسری طرف ان حکمرانوں کے بیانات سنیں تو کوئی اور ہی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کسی اور سیارے کی اطلاعات دے کر عوام کی معلومات میں اضافہ کر رہے ہوں۔ کسی بھی سماج کے ''انسانی‘‘ ہونے کی اولین شرط خوراک، رہائش ، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی معاشرے کے ہر فرد کو فراہمی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کسی حاکم کی بھول نہیں بلکہ اس نظام کی متروکیت ہے جس پر یہ حکمران براجمان ہیں۔ یہ اس نظام کے انسان دشمن کردار کی عکاسی ہے جس نے سماج کو خونی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔
دہقان گھرانے سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین اور ''بابائے سوشلزم‘‘ کے نام سے مشہور شیخ رشید مرحوم کہا کرتے تھے کہ ''میں نے زبردستی آئین میں شق رکھوائی کہ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج ، روزگار کی ہر فرد کو فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے ...دیکھو میں نے آئین کے ذریعے سوشلزم جاری کروا دیا ہے۔‘‘شیخ صاحب بھی بڑے بھولے انقلابی تھے۔ آئین اور قانون سے سوشلزم آتا تو پھر مسئلہ ہی کیا تھا؟ سرمایہ داری پر مبنی ریاست میں کتنی ہی ریڈیکل سیاست کیوں نہ کر لی جائے، سرمائے کا جبر نہیں توڑا جاسکتا۔ طبقاتی سماج میں ہر آئین اور قانون اسی طبقے کا مطیع ہوتا ہے جس کے پاس ذرائع پیداوار اور مالیاتی سرمائے کی ملکیت ہوتی ہے۔
آئین کا شور سب سے زیادہ یہی حکمران طبقہ مچاتا ہے جس کے لئے اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے، قانونی پیچیدگیوں کی لایعنی بحث ہر وقت ہورہی ہے، ان دستاویزات کو تقریباً مقدس صحیفے کے بنا کر پیش کیا جاتا ہے جن میں محنت کشوں اورغریبوں کو دینے کے لئے سوائے فریب کے کچھ نہیں ہے۔ سب کچھ حکمرانوں اور امیروں کے لئے ہے جو ہر چیز کو خرید سکتے ہیں یا بوقت ضرورت کچل سکتے ہیں۔اس آئین کو بنے کوئی 42سال تو بیت چکے ہیں۔ ضیاء الحق کی ترامیم نے اس کا جزوی سا لبرل چہرہ بھی بگاڑ دیا ہے اور آج تک کوئی ''جموری‘‘ حکومت یا ''لبرل‘‘ آمریت ان رجعتی ترامیم کا خاتمہ کر سکی ہے نہ ہی کسی ممبر پارلیمنٹ نے آئین میں درج بنیادی سماجی و معاشی حقوق کی فراہمی کے لئے آواز تک بلند کی ہے۔ سب غریبوں کی باتیں کرتے ہیں، کام امیروں کے لئے کرتے ہیں۔ ''کالے ٹیکے‘‘ کے طور پر نچلے طبقے کا کوئی فرد ان اسمبلیوںمیں لایا بھی جاتا ہے تو اسی نظام کے رنگ میں رنگ کر اپنے طبقے سے غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔
تعلیم اور علاج پر سرکاری اخراجات کا جائزہ لیں تو تعلیم کے بجٹ کے لحاظ سے پاکستان 134ممالک کی فہرست میں 131ویں جبکہ صحت کے بجٹ کے لحاظ سے 134میں سے 134ویں نمبر پر ہے۔ وفاقی یا صوبائی بجٹ میں ان شعبوں کے لئے جو قلیل سی رقم مختص کی جاتی ہے اس کا بھی انتہائی قلیل سا حصہ ہی درحقیقت خرچ ہوتا ہے۔ ضیاالحق کے دور میں جو F-16 طیارے امریکہ سے خریدے گئے تھے وہ اب 35سال پرانے ہوچکے ہیں۔ ذرا غور کریں 35سال پرانے اربوں ڈالر کے یہ جہاز بھی ''پریکٹس‘‘ کرتے کرتے ناکارہ نہیں ہوئے؟ یہ ایٹم بم اور میزائل استعمال ہوئے ہیں نہ کبھی ہوں گے۔ ہزاروں ارب روپے انسانی تباہی کے آلات پر خرچ کرنے یا سامراجی اسلحہ ساز کمپنیوں کی تجوریوں میں ڈالنے کی بجائے عوام پر خرچ ہوتے تو نہ صرف شرح خواندگی سو فیصد ہوتی بلکہ غربت کی بہت سی بیماریوں کا وجود ہی مٹ جاتا۔ آج یہ ملک پولیو زدہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ختم ہوجانے والی وبائی بیماریاں پھر سے امڈ رہی ہیں۔ لیکن ''ایٹمی طاقت‘‘بننے کے لئے عوام کو ''قربانیاں‘‘ بھی تو دینی پڑتی ہیں۔ بھٹو صاحب نے گھاس کھا کے ایٹم بم بنانے کا جو نعرہ لگایا تھا وہ من و عن پورا ہوا ہے۔
ویسے میڈیا کے استعمال کا طریقہ کوئی ''خادم اعلیٰ‘‘ سے سیکھے۔ اپنے ہی خلاف لکھی جالب کی نظمیں پڑھنا اور ساتھ ہی غریبوں کا خون نچوڑنے کے پراجیکٹ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ پھر موصوف کی ''گڈ گورننس‘‘ ہے جس کی چلتی پھرتی مثال پنجاب پولیس اور اس کے رویے ہیں۔ بوسیدہ انفراسٹرکچر، ابلتے گٹر، بے ہنگم ٹریفک، غلاظت،کرپشن، دہشت گردی، مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور جرائم اس نظام کو لاحق متروکیت کی موذی بیماری کی علامات ہیں جو ''گڈ گورننس‘‘ سے ٹھیک نہیں ہوسکتی۔
ہر سماجی شعبے، زندگی کے ہر پہلو میں ''مقابلہ بازی‘‘ کا زہر سرمایہ داری نے بھر دیا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کی گردن پر پیر رکھ کے آگے بڑھنے کی اندھی دوڑ میں پاگل ہوا جارہا ہے۔ بچوں میں سکول جاتے ہی مقابلہ بازی کا رجحان ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر انسان انفرادی خصوصیات اور صلاحیتوں کا مالک ہے۔ مقابلہ کیسا؟ فرسٹ پوزیشن لینے والا بچہ کیا ہر لحاظ سے آخری پوزیشن لینے والے سے بہتر ہوتا ہے؟ لیکن سرمایہ دار کو چونکہ مشین کی طرح کام کرنے والے انسان درکار ہوتے ہیں اس لئے کولہو کا بیل ہونا ہی اس سماج میں ''کامیابی‘‘ کا معیار ہے۔ مقابلہ بازی کی سوچ حسد اور نفرت کو جنم دیتی ہے، انسان کو انسان سے دور کرتی ہے اور پورا معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ فیکٹری میں ہزاروں مزدور ایک اکائی بن کر ایک جنس بناتے ہیں تو کیا ایک کلاس کے سارے بچے مل کر امتحان کو بہتر انداز میں پاس نہیں کر سکتے؟ ایسا ہوا ہے اور ترقی یافتہ تعلیمی نظاموں میں آج بھی ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی بنیادی شرط ہی یہی ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی بچوں پر خود غرضی کی نفسیات مسلط کر دی جائے تاکہ احساس محرومی میں غرق ہو کر ''آگے بڑھنے‘‘ کی دوڑمیں ساری عمر سرمایہ دار کو زیادہ سے زیادہ منافع کما کر دیتے رہیں۔
اس نظام میں اول تو محنت کشوں کے بچوں کو تعلیم دینے کی معاشی گنجائش ہی نہیں۔ اور جو دی جارہی ہے وہ بھی شفیق انسان بنانے کی نہیں بلکہ نفرت اور دوسروں کو مجروح کرنے کی تعلیم ہے جس سے آدمی انسان کبھی نہیں بن سکتا۔مرزا غالب کے بقول ؎
بسکہ مشکل ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا!