مارچ کے آخری پندھرواڑے سے یمن خبروں میں ہے۔ یمن میں بہار کا موسم گرم ہوتا ہے‘ نہ جانے اس گرم بہار میں خوش رنگ پھول یمن کی سرزمین پر کھلے یا نہیں مگر اس بار یمن کی بہار، لہو رنگ ضرور ہے۔ یمن عرصہ دراز سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف لسانی‘ مذہبی اور فرقوں میں بٹے گروپ ہمیشہ ہی تصادم کی حالت میں رہے ہیں۔ یمن پر اگر ایک طرف لاقانونیت‘ کرپشن اور ناانصافی کا راج ہے تو دوسری طرف ہر قسم کی دہشت گردی کے لیے بھی وہ ایک زرخیز سرزمین ہے۔ یمن‘ عرصہ دراز تک شمالی اور جنوبی یمن کی صورت میں تقسیم رہا۔ شمالی یمن میں شیعوں کا اثرورسوخ تھا تو جنوبی یمن سنیوں کے زیر اثر۔ اس ملک کی موجودہ خانہ جنگی کوئی نئی بات نہیں‘ یہاں کبھی بھی پرامن حالات نہیں رہے۔ اس وقت صنعاء شیعہ جنگجوئوں کے کنٹرول میں ہے۔ ان کا سربراہ حسین بدر الدین الحوثی تھا ، جو 2004ء میں یمن کی سرکاری فوج کے ساتھ لڑائی میں جاں بحق ہوا۔ اسی وجہ سے شیعہ جنگجو، حوثی کہلاتے ہیں مبینہ طور پر شمالی یمن کے ان جنگجو حوثیوں کو ایران کی مالی‘ اخلاقی اور جنگی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا جب حوثی اپنا کنٹرول بڑھاتے ہیں تو سعودی عرب اسے خطے میں ایران کے اثرورسوخ کے بڑھنے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے
ساتھ مل کر حوثیوں سے برسر پیکار ہے۔ سعودی عرب کی یمن کے ساتھ سرحد اٹھارہ سو کلو میٹر طویل ہے۔ سرحدی علاقہ ہمیشہ سے ہی سعودی افواج اور حوثیوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپوں کا مرکز رہا ہے۔ یوں یہ ایک معمول کی کارروائی تصور ہوتی ہے۔ 2009ء کے اگست میں بھی حوثیوں کی سعودی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں‘ جو کئی ماہ تک جاری رہیں۔ Operation Scorched earthکے نام سے شروع ہونے والا یہ جنگی ایڈونچر دراصل یمن کی سرکاری فوج اور حوثیوں کے درمیان تھا۔ یہ لڑائی ‘ سعودی عرب کے اندر تک آ گئی تھی۔ سعودی افواج دفاع کے لیے اس جنگ کا براہ راست حصہ بنیں۔ چھ ماہ کی زبردست جنگ کے بعد‘25جنوری کو امن کا معاہدہ طے پا گیا لیکن امن کا یہ معاہدہ بھی‘ کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوا۔ حوثیوں اور یمن کی سرکاری فوج کے درمیان جھڑپیں‘ معمول بن گیا تھا۔ جب بھی حوثی سرکاری فوج سے اُلجھی، سعودی عرب، حکومت کی جنگی مدد کو ضرور آیا۔
یمن کے اندر خانہ جنگی میں سعودی عرب کی تھوڑی بہت مداخلت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یمن کی بدقسمت سرزمین‘ اس وقت دو طاقتور بلاکس کے درمیان پراکسی وار کے لیے میدان جنگ ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو کیا پاکستان کا اس پراکسی وار کا حصہ بننا کسی بھی طرح دانش مندانہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ پاکستان ایک تو پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ اب تک اس جنگ میں اسی ہزار کے قریب معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں۔ پشاور کے ہولناک سانحے سے گزرنے والا ملک‘ جہاں کی مساجد‘
سکول‘ امام بارگاہیں چوک‘ شاہراہیں‘ محفوظ نہیں۔ جس ملک کی یہ حالت ہو‘ اُسے کسی بھی قیمت پر کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف پر سعودی شاہی خاندان کے احسانات ان گنت ہیں۔ مگر کیا ان احسانات کا بدلہ پوری قوم کو چکانا ہے‘ نہیں۔ ہرگز نہیں! اس وقت جاری جنگ یمن کی خانہ جنگی ہے‘ اس جنگ سے سعودی عرب میں مقدس مقامات کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ایسا تاثر پھیلانے والا مخصوص مکتبہ فکر دراصل پاکستانی مسلمانوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہتا ہے، جو کہ یہاں کے لوگ ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک پر بمباری ہو‘ یہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ افغانستان میں روسی جارحیت کو روکنے کے لیے‘ ہمارے نوجوان جہاد کے جذبہ سے سرشار ایک ایسی جنگ کا ایندھن بنتے رہے‘ جس کی لگامیں امریکہ کے ہاتھ میں تھیں۔ ایسے ہی غلط غیر حقیقت پسندانہ‘ جذباتی فیصلوں نے اس ملک میں دہشت گردی کی پنیری اگائی اور آج ہم یہ فصل کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان ہرگز اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ‘ اپنے فوجیوں کو دوسروں کی جنگ میں جھونک دے۔ یہاں پاکستان کو اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔ اور جلدازجلد دونوں متحارب قوتوں کے درمیان امن کا معاہدہ طے پانا چاہیے۔
یمن کی صورتحال اس وقت انتہائی قابل رحم ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام‘ غربت اور خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک کی 63 فیصد آبادی 18سے24سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ملک کا انفراسٹرکچر تباہ ہونے اورروزگار کے مواقع زیادہ نہ ہونے کی بدولت یہ نوجوان بہت آسانی سے متحارب قوتوں کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم نے یہ ہوش ربا انکشاف کیا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ''بچہ سپاہی‘‘ (کم عمر) یمن میں بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ دہائیوں سے ایک دوسرے سے نبرد آزما مذہبی فرقوں میں بٹے متحارب گروہ ‘ معصوم بچوں کو بھی اپنے جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ داعش اور القاعدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی ایسے نوجوان اور بچے استعمال ہو رہے ہیں ۔ دوسری جانب‘ اعداد و شمار کے مطابق 50فیصد بچیاں‘ کم عمری کی شادی کا شکار ہو کر اپنا مستقبل کھو دیتی ہیں۔ یہ یمن ہے جو مستقل جنگ اوربدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب سمیت تمام اتحادی ملکوں کو بھی اس خطے میں جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کی بجائے انہیں بجھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ معاملات بہرحال‘ جنگ کے میدان میں نہیں امن کی میز پر ہی طے ہوتے ہیں۔