تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-04-2015

لیون پنیٹا کے انکشافات

مجھے سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن اور سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹاکی کتاب پڑھ کر کچھ کچھ سمجھ آرہی ہے کہ میمو سکینڈل پاکستان میں لانا کیوں ضروری ہوگیا تھا۔
میمو کمشن اور اسامہ بن لادن آپریشن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ میمو کمشن کے ذریعے کوشش کی گئی تھی کہ اس وقت کی فوجی قیادت جو غصہ امریکیوں پر نہیں اتار سکتی تھی اسے پاکستان کے چند کرداروں پر اتارا جائے اور اس سلسلے میں نواز شریف اور شہباز شریف کو باقاعدہ استعمال کیا گیا اور وہ بھی خوشی سے استعمال ہونے پر بے حال ہورہے تھے کیونکہ پہلی دفعہ فوج کے سربراہوں سے ملاقاتوں کا موقع مل رہا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اب اقتدار کچھ فاصلے پر ہی ہے۔ ان ملاقاتوں کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے اسی سکرپٹ پر اداکاری کی جو انہیں جنرل پاشا اور جنرل کیانی کی طرف سے لکھ کر دیا گیا تھا ۔
لیون پنیٹاکی کتاب ''وردی فائٹس‘‘ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جنہوں نے میمو کمشن پر پاکستان میں ایک طوفان اٹھایا ہوا تھا کہ ملک کی خودمختاری کو حسین حقانی نے بیچ دیا ہے اور وہ غدار ہے‘ وہ اس وقت تک منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکے تھے جب تک انہیں جنرل ملن اور لیون پنیٹانے فون کر کے بتا نہ دیا کہ اسامہ کو مارنے کے لیے امریکہ نے پاکستان کے اندر راتوں رات آپریشن کیا اور پاکستان کو خبر تک نہ ہونے دی۔
اس وقت کیوں جنرل ملن سے نہیں پوچھا گیا کہ اگر اسامہ کو تلاش کر لیا گیا تھا تو ہمیں کیوں نہیں بتایا گیا تاکہ ہم اسے خود پکڑتے؟ اس پر احتجاج کیوں نہیں کیا کہ آپ نے ہماری خودمختاری کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ ہمیں کیوں پوری دنیا میں ننگا کر دیا کہ پاکستانی سیاسی اور فوجی قیادت کو علم تک نہیں تھا کہ اس کی سرحدوں کے اندر کیا ہوچکا تھا۔
کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں کو اگست 2010ء میں پتہ چل چکا تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں رہ رہا ہے۔ اس کے بعد جس طرح کی طویل پلاننگ کی گئی وہ اپنی جگہ ایک طویل کہانی ہے۔ کیسے ایبٹ آباد میں اسامہ کی حویلی جیسی ایک حویلی تیار کی گئی ۔ ایک ایک تفصیل پر کام کیا گیا ۔ ریہرسل کی گئی ۔ اور تو اور کمانڈوز کی دو ٹیموں کو اتنے فاصلے سے ہیلی کاپٹرز میں لایا گیا جتنا فاصلہ افغانستان اور ایبٹ آباد کے درمیان تھا ۔ صدر اوباما اس پر بھی راضی نہ ہوئے تو انہیں باقاعدہ وہ ساری ریہرسل دکھائی گئی کہ پاکستان کے اندر آپریشن کیسا اور کس طرح ہوگا۔ اوباما نے وقت نکال کر وہ ساری ریہرسل دیکھی اور مطمئن ہوئے کہ ہاں اب آپریشن ہوسکتا ہے۔ اور جب اس ایشو پر بحث ہوئی کہ پاکستان کو بتانا ہے یا نہیں تو صدر اوباما نے کہا‘ رہنے دیں‘ پاکستانیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا‘ وہ دونوں اطراف کھیلتے ہیں۔ جنرل مشرف دور سے امریکیوں کو یقین ہوچلا تھا کہ پاکستانی ڈبل کراس کرتے ہیں ۔ اربوں ڈالرز بھی لیتے ہیں اور کام بھی پورا نہیں کرتے۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے امریکہ نے سمجھ لیا ہو کہ پاکستانی جنرل ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔
تو کیا ہم سب کا زور صرف اپنے لوگوں پر چلتا ہے؟ زرداری صاحب کی ساری سیاسی سمجھداری اپنے ہی لوگوں کو مزید غلام بنانے پر خرچ ہوجاتی ہے؟ ان کی ذہانت اس وقت کہاں گئی تھی جب انہیں ہلیری کلنٹن نے فون کر کے بتایا تھا کہ امریکیوں نے اسامہ کو پاکستان کے اندر ڈھونڈ کر مار ڈالا ہے۔
جو کچھ لیون پنیٹانے لکھا‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی قیادت کا رویہ امریکیوں کے ساتھ کچھ اور تھا اور عوام کی تسلی کے لیے کچھ اور بیانات داغے جارہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر سخت لائن اختیار کی گئی تھی‘ لیکن جب لیون پنیٹا نے ایک دھمکی دی تو قیادت فوراً لائن پر آ گئی۔ سب کچھ بھول گئی۔ قومی عزت‘ قومی وقار کے نعرے‘ سب کچھ ایک لمحے میں۔ پھر ایک دن اسی لیون پنیٹاکی دھمکی سے خوفزدہ ہو کر جنرل پاشا لاہور کی عدالت میں بیٹھ کر امریکی سفیر کو موبائل فون پر ٹیکسٹ مسیج بھیج کر رپورٹ کر رہے تھے کہ جناب لیون پنیٹاکو بتا دیں کہ ان کے حکم کی تعمیل ہوگئی ہے اور ان کا بندہ وہ خود اپنی حفاظت میں لاہور ایئرپورٹ چھوڑنے جارہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر جنرل کیانی اور جنرل پاشا امریکیوں کو فون پر غصے کا اظہار نہیں کر سکے تھے کہ انہوں نے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے تو پھر وہ حسین حقانی پر کیسے ناراض ہورہے تھے کہ اس نے ایک خط انہی امریکیوں کو لکھ دیا تھا ؟ وزیراعظم گیلانی پر کیوں غصہ اتار رہے تھے‘ جب انہوں نے کہہ دیا تھا کہ جنرل کیانی نے سپریم کورٹ میں بیان دے کر آئینی خلاف ورزی کی ہے۔ بڑا جرم کس کا تھا؟ امریکیوں کا‘ یا وزیراعظم گیلانی کا ؟
لگتا ہے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ان فون کالز کے بعد خیال آیا ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا‘ لہٰذا کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت تھی‘ امریکہ کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے‘ کسی اور کو تلاش کیا جائے۔ یوں غصہ نکالنے کے لیے یوسف رضا گیلانی اور حسین حقانی کا انتخاب ہوا۔ اس سے پہلے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کے دوران یہ طے پایا تھا کہ اب نواز شریف اور شہباز شریف باقاعدہ کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جائیں گے اور حکومت کے خلاف میمو کمشن بنایا جائے گا۔ نواز شریف اور شہباز شریف اس بات پر سپریم کورٹ نہیں گئے کہ امریکیوں نے ہماری خودمختاری کا جنازہ نکال دیا ہے‘ لہٰذا ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔ وہ گئے بھی تو جنرل پاشا اور جنرل کیانی کو خوش کرنے۔ دونوں بھائیوں کی فرمائش پر میمو کمشن بن گیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ وہی جنرل پاشا منصور اعجاز سے ملنے لندن گئے۔ اگر وہ گواہی دینے پاکستان آتا تو اسے واپسی پر حفاظت کے لیے پورا بریگیڈ دینے پر بھی وہ تیار تھے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکیوں کی لکھی ہوئی ہر کتاب پر یقین کرنا ضروری نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہلیری کلنٹن نے اپنی کتاب میں زرداری کے بارے میں سب کچھ لکھ دیا ہے کہ جب انہیں فون ہوا تو انہوں نے کیا جواب دیا ۔ اگر زرداری صاحب سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہلیری کلنٹن کو بہت کچھ سنا دیا تھا تو پھر جب وہ اپنی کتاب لکھیں تو ہمیں بھی بتائیں کہ سب کچھ کیسے ہوا تھا۔
اگر جنرل کیانی اور جنرل پاشا سمجھتے ہیں کہ جب انہیں رات کو جگا کر پاکستان کے اندر آپریشن کی خبر سنائی گئی تھی تو انہوں نے امریکیوں کو جواباً دھمکیاں دی تھیں یا ان سے حساب کتاب برابر کرنے کا دعوی کیا تھا تو پھر وہ بھی کتاب لکھ سکتے ہیں ۔ جنرل کیانی کتاب کیوں نہیں لکھتے؟ جنرل پاشا بھی اس طرح امریکیوں کے راز کھول سکتے ہیں جیسے لیون پنیٹا نے ہمارے راز کھول دیے ہیں۔
میں شرطیہ کہتا ہوں ہمارے سابق جنرل کبھی کتاب لکھنے کا نہیں سوچیں گے کیونکہ ان کے پاس ہمیں بتانے کے لیے ہے ہی کچھ نہیں۔ یہ امریکیوں کے ساتھ اندر کھاتے کچھ اور ڈیل کرتے اور عوام کو کچھ اور بتاتے ہیں۔ یہ ڈرون کے لیے اڈے بھی فراہم کرتے ہیں اور ڈرون پر مذمت بھی کرتے ہیں ۔
ویسے ذرا سوچیں جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے پاس ہمیں بتانے کو کیا ہوگا؟ جنرل کیانی جرأت کر کے ہمیں بتا سکیں گے کہ جب امریکی انہیں سمندر میں لنگر انداز بحری جہاز پر خفیہ طور پر لے کر گئے تھے تو کیا باتیں ہوئیں جن کی رپورٹ بعد میں ایک امریکی اخبار نے چھاپی؟ یا پھر وہ بتائیں گے کہ رات کے اندھیرے میں ان کی شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان سے درجنوں ملاقاتوں میں کیا کچھ زیربحث آتا تھا؟ جس کی بنا پر عمران خان کو کہنا پڑ گیا کہ جنرل کیانی بھی الیکشن فراڈ میں شریک تھے۔ اسی طرح کیا وہ کبھی لیون پنیٹاکی اس بات کو جھٹلا سکیں گے کہ جب جنرل ملن نے انہیں فون کیا تو وہ ڈر گئے تھے اور انہوں نے امریکیوں سے درخواست بھی کی کہ وہ اسامہ کی موت کا اعلان خود کریں‘ ان میں ہمت نہیں۔ کتاب لکھنا تو دور کی بات ہے میری ریٹائرڈ جرنیلوں سے رہی سہی توقع اس دن پوری ہوگئی تھی جب ہوٹل کے مالک صدرالدین ہاشوانی کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جنرل جہانگیر کرامت اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو یہ سوچ کر سننے گئے کہ سننے کو بہت کچھ ملے گا لیکن جو لوگ وہاں موجود تھے وہ اتفاق کریں گے کہ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ بولنے والوں کے پاس کچھ کہنے کو ہے۔ اور کچھ نہیں تو وہ اس خطے میں بدلتے حالات پر ہی وہاں بیٹھے لوگوں کو کچھ بتاتے یا یہی بتا دیتے کہ ان کے نزدیک دہشت گردی کا کیا علاج ہے۔ ایک سابق آرمی چیف اور ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی ایک ہوٹل مالک کی کتاب کے قصیدے پڑھ کر روانہ ہوگئے اور ہم سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے!
ویسے جب بھی میں سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا اور امریکی جنرل ملن کی ہمارے جرنیلوں کو رات گئے کی گئی فون کالز کا سوچتا ہوں اور پھر اس کے کچھ عرصے بعد بننے والا میمو کمشن یاد آتا ہے تو ایک پنجابی محاورہ ذہن میں آتا ہے 'گرا کھوتے سے، غصہ کمہار پر...!‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved