تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     03-04-2015

بغداد کے مناظروں کے دور کی واپسی

بحث و مباحث، مذاکرات ، مناظروں اور دلائل کو ہمیشہ سے ہی علم اور معلومات کے تبادلے ، اضافے، دیگر افراد کے موقف اور رائے ، جس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلاف بھی، جاننے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یونانی فلاسفربھی مباحثے کو فروغ ِ علم کاموثر ذریعہ گردانتے تھے۔ اسلام کے مفکرین نے دین کی دعوت کے لیے اسی طریقے کو اپنایا۔ ان کی طرف سے کیے جانے والے مناظرے آراء اور دلائل کے اظہار کا سلجھا ہوا اور مہذب طریقہ مانا جاتا تھا۔ یہ مناظرے اُس ماحول میں ہوتے تھے جس میں فریقین بنیادی عقائد کو تو تسلیم کرتے تھے لیکن فروعی اور مسلکی معاملات پر قدرے اختلاف پایا جاتا تھا۔ ایسے مناظر وں میں مفکرین اور علما اپنے اپنے موقف کو عوام اور خواص کے سامنے پیش کرتے تھے۔ تاہم ان کا ایک اہم جزوبرداشت اور رواداری ہوتی تھی اوردلائل دیتے ہوئے دوسرے فریق کے عقائد اور جذبات کا احترام ملحوظ رکھا جاتا تھا۔
اُس وقت مدرسوں میں بھی طلبہ کو مباحثے کرنا سکھایا جاتا تھا تاکہ وہ اپنا موقف دلیل ، نہ کہ ہٹ دھرمی ، کے ساتھ پیش کرسکیں۔ ان کو دی جانے والی تعلیم صرف چند مخصوص کتب کو ازبر کرنے یا کچھ معلومات فراہم کرنے تک محدود نہ تھی، یہ ان کی اس حدتک کردار سازی ضرور کرتی تھی کہ وہ مخالفین کی رائے کو برداشت کرسکیں۔ کسی کی دلیل سے اختلاف کرنا نہ تو دشمنی کے زمرے میں آتا تھا اور نہ اتفاق کرنا ہتھیار ڈالنا سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اختلاف کرنا دوسرے کا حق مانا جاتاتھا۔ ان مباحث سے سامعین کی فکری تربیت بھی ہوتی تھی اور وہ ایسے علوم کی بابت معلومات بھی حاصل کرتے تھے جن تک اُن کی براہ ِر است رسائی نہیں ہوتی تھی۔ ان مناظروں کو شاہی سرپرستی اُس وقت حاصل ہوگئی جب علم دوست عباسی خلیفہ ہارون الرشید بذات ِخود ان مناظروں، جن کا اہتمام ان کے وزیر علی بن عیسیٰ ان کے دربار میں کرتے، کو سنتے۔ یہ دسویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ ان کے دربار میں معتزلہ اور اشعری مکاتبِ فکر کے علمامیں عظیم الشان مباحثے ہوتے۔
اگرچہ ان مناظروں کی افادیت پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے ، لیکن ان سے کچھ منفی، بلکہ ناپسندیدہ ، پہلوبھی سامنے آئے ۔ اُن مناظروں کی وجہ سے ایسے معاملات اچھالے گئے جو آگے چل کر تشدد اور قتل ِعام کا باعث بنے۔ ان کی وجہ سے اسلامی ریاستوں میںفساد پھیلا، جیسا کہ لیو ٹالساٹی کے ناول ''Anna Karenina‘‘ کا ایک کردار، لیون کہتا ہے۔۔۔''اصل موقف دل کی گہرائی میں پنہاں ہوتا ہے۔ جو منطق دلیل کے ذریعے دی جاتی ہے، وہ صرف سطحی ہوتی ہے، اصل کشمکش ہماری انااورداخلی جذبات کی دنیا میں ہوتی ہے۔‘‘اور یقینا اُس من کی دنیا تک عقل، دلیل اور منطق کی رسائی نہیں ہوتی ۔ جب تک مسلکی معاملات عقل اور دلیل کی دنیا میںتھے، اُن پر بات ہوتی تھے، مناظر ے ہوتے تھے اور بحث کی جاتی تھی، لیکن جب وہ ناقص تعلیم کے ذریعے روح کی گہرائی میں اتار دیے گئے تو ہر قسم کا کلام ِ نرم ونازک بے اثر۔آج دلیل کی جگہ گولی ، یا کم ازکم گالی۔
جب 1258 ء میں منگولوں کے لشکر نے بغداد پر حملہ کیا تو اسلامی ریاست کی شکست کے اسباب میں اہم ترین سبب یہ تھا کہ اہم مکاتبِ فکر عقائد اور مسالک کے اختلافات کی وجہ سے پارہ پارہ تھے، چنانچہ ریاست منگولوں کی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکی۔ کتابوں کو دریا برد کردیا گیا، دریا کا پانی سیاہ پڑ گیا، دولاکھ(کچھ روایات کے مطابق دس لاکھ) سے زائد افراد بلاتخصیص، ایک ہفتے کے اندر اندر قتل کردیے گئے۔ بغداد کم و بیش غیر آباد ہوگیا اور پھر اسے دوبارہ آباد ہونے میں صدیاں لگ گئیں۔ اقبالؒ کہتے ہیں،''حرم رسوا ہوا پیر ِ حرم کی کم نگاہی سے۔‘‘ یہ ماضی تھا، لیکن آج اکیسویں صدی میں ایک مرتبہ پھر اس کم نگاہی کاکیا جواز ہے؟آج ایک مرتبہ پھر دنیائے اسلام ایک خونی کشمکش کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یمن میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے اسلامی دنیا کے دو اہم ترین ممالک کے درمیان تصادم کی فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے۔
اسلامی ممالک میںانتہا پسندانہ رویوںکے فروغ کی وجوہ کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں تحقیق اور غور و فکر کی جگہ اندھا دھند رٹا لگانے کو تعلیم کا درجہ دے دیا گیا۔ پاکستان میں خاص طور پر چند لائنوں کو یاد کرکے امتحان پاس کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اب طلبہ کسی سبق کو پڑھنے ،ا ُس کے مفہوم اور موضوع کو سمجھنے کی بجائے محدود جواب یاد کرلیتے ہیں۔ جدید سکولوں اور مدرسوں میں تعلیم کے نام پر بس سبق یاد کرنا سکھایا جاتا رہا ہے۔ اس ماحول میں طلبہ غور وفکر کی عادت سے دور رہتے ہوئے یا تو کسی موقف کو بلاتحقیق مان لیتے ہیں یا یکسر رد کردیتے ہیں، وہ تجزیہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ چونکہ تعلیم میں مذہب کا اثر بہت گہرا ہے ، اس لیے وہ اپنے موقف کو تبدیل کرنے ، یا اس میں کچھ معقولیت کوشامل کرنے کو مذہب کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
آج کل پاکستان میں بعض ٹی وی چینلز کے سٹوڈیو ''بغداد ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض اوقات ریکارڈ شدہ اور اکثر براہ ِ راست مناظرے پیش کیے جاتے ہیں اور اسے دین کی خدمت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ مخالف علما پہلے سے ہی طے کرکے آئے ہوتے ہیں کہ دوسرے کی دلیل نہ سنیں گے اور نہ ہی مانیں گے، بس اپنی ہی کہیں گے اور کہتے ہی چلے جائیں گے جبکہ اس دوران معقولیت اور عقل منطق وغیرہ کا خون ہوتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسی گرما گرمی سے اس ٹی وی اور اینکر کی ریٹنگ میں بے حد اضافہ ہوتا ہو، لیکن پھر بغداد کا حشر ذہن میں آتا ہے اور دل صدمے سے پھٹ جاتا ہے۔ پروگرام میں بلائے گئے علما میں سے ایک کا جھکائو ایران اور دوسرے کا اس کے مخالف عرب ملک کی طرف ہوتا ہے۔ عقل حیران ہے کہ کیا یہ مناظروں کا وقت ہے؟ یہ رویہ معاشرے کو انتہا پسندی کی سوچ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک مرتبہ کسی ملک کا قومی کردار مسخ ہوجائے تو اس پر غیر ملکی تسلط لازمی ہوجاتا ہے۔
اس وقت اسلامی دنیا، خاص طور پر دنیا کا یہ خطہ، نہایت نازک حالات سے دوچار ہے۔ اس وقت ہمیں مناظروں اور مباحثوں کی بجائے معقول رویوں کی ضرورت ہے۔ زبان کی جنگ اور دشنام طرازی ہتھیاروں کی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ الیکٹرانک میڈیا عوام کو بہت متاثر کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عوام مخالف کی رائے کو ''سازش‘‘ سمجھیں لیکن اپنے موقف کی حمایت میں پیش کی گئی نام نہاد دلیل اُن کا موقف مزید پختہ کردے گی۔ اس وقت جبکہ دو اہم اسلامی ممالک ایک کش مکش کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پاکستان کے ارباب ِ اختیار کے سامنے بھی مسئلہ آن کھڑ ا ہوا ہے کہ وہ اس مرحلے پر کیا موقف اختیار کریں(اس پر یقینا اہم حلقے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے)، لیکن اس دوران کم از کم ٹی وی چینلوں کو اپنے کردار کا جائزہ لیناچاہیے۔ یہ فیصلہ ان کے سٹوڈیوز میں نہیں ہونا، لیکن یہ عوام کو جذباتی تنائو کا شکار ضرور کردیں گے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کے چکر میں معقولیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے اور بغداد بننے سے گریز کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved