تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-04-2015

افضال نوید کی تازہ ترین شاعری

افضال نوید ان پانچ سات جدید شعرا میں سے ہیں جنہیں میں نے اپنے تئیں شارٹ لسٹ کررکھا ہے۔ کافی عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں بلکہ وہیں کے ہوکے رہ گئے ہیں۔پچھلے سال تھوڑے عرصے کے لیے اپنا تازہ مجموعۂ کلام چھپوانے کی غرض سے پاکستان آئے تھے جس پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ اس کتاب نے مجھے خوش نہیں کیا۔ ان کی پہلی کتاب '' تیرے شہر وصال میں ‘‘ کا دیباچہ میں نے لکھا تھا۔ افضال نوید ہمارے نامور نظم گو ابرار احمد کے چھوٹے بھائی ہیں۔ بہرحال، اب انہوں نے میری فرمائش پر اپنی تازہ ترین غزلیں بھجوائی ہیں جن میں سے مجھے وہ پہلا سا افضال نوید برآمد ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ بہرحال قمر رضا شہزاد کی طرح میں اس سے بھی مایوس نہیں ہوں کیونکہ عمدہ شعراء کے ساتھ یہ اکثر ہوتا ہے کہ ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے۔
سب سے پہلی چیز جو میں نے نوٹ کی ہے یہ ہے کہ یہ غزلیں انتہائی شکستہ خط میں تحریر کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر اشعار میں پڑھ ہی نہیں سکا۔ مجھے یقین ہے کہ شاعر اگر خود بھی انہیں پڑھنا چاہے تو شاید کامیاب نہ ہوسکے۔ علاوہ ازیں ان کے اندر جو اشکال پایا جاتا ہے وہ اس کا ایک نیا طرز کلام تو ہوسکتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر شعراء عمر بھر ایک ہی طرح کی شاعری تخلیق کرتے کرتے فارغ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ شاعری کے اندر ڈائیورسٹی کو میں نہ صرف ضروری سمجھتا ہوں بلکہ حتیٰ الامکان خود بھی اس پر عمل پیرا رہتا ہوں۔ تاہم ڈائیورشن کا مطلب یہ نہیں کہ شعر مطلب ومعنی سے ہی بہت دور نکل جائے ، اور اتنے دور کی کوڑی لائی جائے کہ قاری کے پلے ہی کچھ نہ پڑے۔
مشکل پسندی کے حوالے سے عموماً غالب اور اس کے پیش کار بیدل دہلوی کا نام لیا جاتا ہے لیکن ان کے ہاں بھی جب شعر کی گرہ کھلتی ہے تو وہ لطف سخن سامنے آتا ہے جس کی شاعر سے توقع کی جارہی ہوتی ہے۔ میں تو خود معنی پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کا قائل نہیں ہوں، بشرطیکہ شعر کی شکل تو کم از کم ایسی ہو کہ اپنا جواز پیش کرسکے ۔ بیدل اور غالب خود بھی اسی نظریے کے قائل تھے۔ اس سلسلے میں غالب کی یہ مثالیں اکثر دیا کرتا ہوں ؎
نہیں گر سروبرگِ ادراکِ معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
اور
گر بہ معنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
خم زلف و شکن طرف کلاہے دریاب
غرض الفاظ کا دروبست اور بعض اوقات الفاظ کا جمگھٹابھی اس قابل ہوتا ہے کہ قاری کی ضرورت کو پورا کردیتا ہے لیکن اگرساری صورت حال ہی دورازکار نظر آئے تو قاری کے حصے میں صرف الجھن ہی آتی ہے کیونکہ شعر مزہ لینے کی خاطر پڑھا جاتا ہے، اپنے آپ کو کسی بھنبھل بھوسے میں ڈالنے کے لیے نہیں، نہ ہی قاری کو شاعر کی ذہنی پیچیدگیوں سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے بلکہ شاعر کو ان پیچیدگیوں کو بھی پُرلطف اور آسان بنانے پر قادر ہونا چاہیے، ورنہ شعر قاری کا امتحان لینے کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ہی ' سہیلی بوجھ پہیلی‘ جیسا کوئی کردار رکھتا ہے۔ چنانچہ دیکھا یہ گیا ہے کہ شاعر ایسی پیچیدہ بیانیوں کے بعد اپنی اصل کی طرف بھی لوٹتا ہے اور اپنے آپ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جس کی افضال نوید سے بھی لازمی طور پر توقع کی جاسکتی ہے اور ہر ایسے شاعر کا قاری اس انتظار میں بھی رہتا ہے۔
سو‘ آخر میں اس کی ایک غزل پیش خدمت ہے جسے میں بہ دقتِ تمام پڑھنے میں بھی کامیاب ہوگیا ہوں اور جو بہت حد تک میرے پلے بھی پڑی ہے اور جسے پڑھ کر مجھے مزہ بھی آیا ہے!
جنگل میں تھا جس دم وہ شجر مجھ میں پڑے تھے
اور ان سے جو وابستہ تھے گھر مجھ میں پڑے تھے
میں ان کے زروسیم سے مشعل تھا اٹھاتا
جو جو بھی تھے یاں خاک بسر مجھ میں پڑے تھے
گلزار اٹھاتا تھا جڑوں کی تگ و دو سے
جھڑنے کے کسی گل کے ثمر مجھ میں پڑے تھے
عمریں تھیں بسر کرنے کو اطراف میں میرے
جنموں کی مسافت میں نگر مجھ میں پڑے تھے
مہتابِ مکمل میں اٹھاتا رہا خود کو
دریائوں کے جو زیر و زبر مجھ میں پڑے تھے
میں نیند میں دب جاتا تھا تحلیل میں ان کی
منظر کے سب انبار دِگر مجھ میں پڑے تھے
اقرار کی حالت میں لرزتا ہی رہا میں
تنکا سا مجھے لے کے سفر مجھ میں پڑے تھے
خلوت سے نکلنے کی نوید آئی تھی نوبت
افلاک کے سب شمس و قمر مجھ میں پڑے تھے
اور ، اب یہ ذرا دوسری طرح کی غزل جسے میں پڑھ سکا ہوں:
دمِ دبیز سے تنگ آکے کہکشاں کو گئی
زمیں گلاب کی خوشبو میں آسماں کو گئی
ستارے ضو کو سروں سے کشید کرتے رہے
ہزارہا روش جسم استخواں کو گئی
نہ جانے کون سے دریا ابھارنے ہوں گے
رکاوٹ آئی تو پھر بحر بیکراں کو گئی
نکل گیا حد مہر شفق سے ٹوٹ کے تو
اگر شبیہہ شب خام پاسباں کو گئی
سوار مضطرب بحر غوطہ زن جو ہوا
سوئے جزیرہ اڑا باد‘ بادباں کو گئی
اکائی خستہ یکتائی تھی ہمیشہ سے
کرن سے باندھ کے اطراف درمیاں کو گئی
ملائمت سے نفس عاری تھی سو خوئے خلا
درونِ خانۂ اجرام سرگراں کو گئی
آج کا مقطع
اور کیا چاہیے کہ اب بھی‘ ظفرؔ
بھوک لگتی ہے‘ نیند آتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved