تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-04-2015

کولکتہ چرچ اور یوحنا آباد

بھارت کے صوبہ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ کے چرچ پر ہندو بلوائی حملے کے دوران انجیل مقدس کی بے حرمتی کر نے لگے تو وہاں موجود 72 سالہ نن نے آگے بڑھ کر انہیں بی بی مریم کا واسطہ دیتے ہوئے ایساکرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ انتہا پسند ہندوئوں نے اس بوڑھی نن کے ساتھ شرمناک سلوک کرتے ہوئے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس پردنیا بھرکا مہذب معاشرہ چیخ اٹھا۔کیتھولک بشپ کانفرنس کے صدر کارڈینل بیسلیوزکلیمز نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کومخاطب ہوتے ہوئے کہا: ''گائے کی حفاظت کے ساتھ انسانوں کی حفاظت کوبھی اپنے دھرم کا حصہ بنائو‘‘۔ دنیا بھر میں اس سانحے پر اتنا سخت احتجاج ہواکہ بھارت کے لیے منہ چھپانا مشکل ہوگیا۔
چند روز قبل لاہور میں یوحنا آبادکا عظیم سانحہ رونما ہوا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ یوحناآباد کے دو چرچوں پر خود کش دھماکے بھارت نے اپنے ''سب ایجنٹ‘‘ تحریک طالبان کے مولوی فضل اﷲکے ذریعے کرائے۔ ایسے میں یہ پہلو سامنے رکھنا ہوگا کہ جب پاکستان میں یہ خودکش دھماکے کرائے گئے،اس وقت بھارت کو دنیا بھر کی عیسائی برادری سمیت تمام اقوام کی جانب سے شدید مخالفانہ رد عمل کا سامنا تھا اور عالمی میڈیا ہندوانتہا پسندوںکے ایک گروہ کے ہاتھوں ایک بوڑھی نن کے ساتھ روا رکھے جانے والے شرمناک سلوک پر مودی کے انتہا پسندانہ نظریات کی خوب خبر لے رہا تھا۔ خواتین کی تمام عالمی تنظیمیں بھی بوڑھی نن کی بے حرمتی کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔ عالمی رائے عامہ اس شرمناک واقعے پر بھارت کے چہرے سے پردے ہٹاتے ہوئے اس کے جعلی سیکولر نعروںکے پرخچے اڑا رہا تھا۔ بھارت اور دنیا بھر سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے بوڑھی نن کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے کولکتہ میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ اس پر بھارت کو لالے پڑگئے اور اس نے دنیا کی توجہ نن کے سانحے سے ہٹانے کے لیے یوحناآباد میں دو چرچوں پر خود کش حملے کرا دیے جس کے فوراً بعد یوحنا آباد ، اس کے قریب فیروز پور روڈ کے علاوہ ملک بھر میں منظم انداز میں پر تشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ دو باریش مسلمانوںکو بد ترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بے رحمی سے سب کے سامنے زندہ جلا دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی بہت سے افسوسناک واقعات ہوئے لیکن ایسا شدید اور منظم رد عمل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہ صورت حال بہت سے شکوک اور سوالات کو جنم دیتی ہے۔
جس دن یوحنا آباد میں مسیحی بھائیوںکے چرچوں میں دھماکے ہوئے، اس سے صرف ایک دن پہلے کولکتہ کے بعد مہاراشٹر کے ایک چرچ میں بھی مشتعل ہجوم نے زبردست توڑ پھوڑکی اور پھر اسے آگ لگا دی۔ اب ذرا کڑیاں ملائیے! یوحنا آباد کا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو اگلے دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دل میں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پھوٹنے لگتے ہیں۔ وزیراعظم عالمی برادری سے اپیلیں کرنے لگتے ہیں کہ اقوام متحدہ کو پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے طرز عمل سے روکا جائے۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنا شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور بے شرمی کی حد دیکھیے کہ نریندر مودی یہ سب اس وقت کہہ رہے تھے جب فروری 2015 ء میں کو لکتہ کے کانونٹ کی بوڑھی نن ہندو انتہا پسندوںکی اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد ابھی ہسپتال میں زیر علاج تھی۔ اور پھر جس دن نریندر مودی اقوام عالم سے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپیلیںکر رہے تھے، اسی دن لاہورکے ٹائون شپ میں واقع سینٹ پیٹر چرچ کے باہر موٹر سائیکل پر سوار دونامعلوم افراد فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے جس سے دو راہگیر زخمی ہوئے۔
نیم چڑھے کریلے کی مثال اس طرح سچ ثابت ہو رہی ہے کہ بھارت میں انتہا پسند تنظیموںکوکام کرنے کی جو چھٹی تھی وہ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے اور راشٹریہ سیوک سنگھ سے قریبی رشتہ
ہونے کی وجہ سے اب کھلی چھٹی میں تبدیل ہوگئی۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے خاکی نیکروں والے نیم فوجی دستے مسلمانوں اور عیسائیوں کی تذلیل نہ کرتے ہوں۔ نریندر مودی کے اقتدارکے پہلے دن سے ہی بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتیں بھارت ہندوانتہا پسند تنظیموںکی شدید نفرت کا شکار ہونے لگیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس انتہا پسندی پرشرمندگی محسوس کرنے کے بجائے اس پر فخرکا اظہارکیا جا رہا ہے۔ بوڑھی نن کے ساتھ کیے گئے انتہائی شرمناک سلوک پرعالمی رائے عامہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پکاراٹھیں کہ یہ دنیا کی کیسی سب سے بڑی جمہوریت، سیکولرازم کے راگ الاپنے والاکیسا ملک اور کس طرح کا روشن ہندوستان ہے جس میں کانونٹ میںکام کرنے والی 72 سا لہ نن کو ہندو مذہبی انتہا پسندوں کی اجتماعی زیا دتی پر فخر محسوس کیا جارہا ہے۔
کولکتہ کے اس شرمناک سانحے کے خلاف 19مارچ کو دہلی کے جنتر منترکے ارد گرد بڑے بڑے بینرز اور پلے کارڈزاٹھائے ہوئے سول سوسائٹی اور شہری آزادیوں کی تنظیموںکے عہدیداروں نے نریندر مودی کے اقتدارکے 300 دنوں کے دوران نفرت، انتہا پسندی اور متشددانہ کارروائیوں کے بارے میں ایک رپورٹ بھی جاری کی جس میں ڈاکومنٹری ثبوت دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اب تک اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف تشدد کے 600 واقعات ہوئے جن میں متعدد افراد قتل ہوئے۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے سے اب تک 149 مسلمانوں اور عیسائیوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا اور صرف آسام میں ایک ہی دن میں چائے کے با غات میں کام کرنے والے 108 مسلمان مردوں اور عورتوںکو انتہا پسند ملیشیا نے قتل کر دیا۔
مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیاکہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان، مودی سرکارکے مرکزی اور صوبائی وزرا اور ریاستی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ کیسری (Saffron) ٹوپیاں پہننے والے انتہا پسند گروپ بے خوفی سے مذہبی نفرت کو ہوا دیتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنا نے لگے ہیں۔ انہوں نے کھلے عام یہ اعلانات کرنے شروع کر دیے ہیںکہ بھارت میں رہنے والے کو صرف ہندو بن کر ہی رہنا ہو گا۔ چرچوں کو آگ لگانا، پادریوں پر حملے،ان کی تضحیک اور تھانوں میں ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کرانا عام سی بات ہے۔ اب بھارت میں اقلیتوں کے لیے ' تم ‘ اور ہندوئوںنے اپنے لیے 'ہم‘ کی نئی لغت شروع کر دی ہے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کی نیم فوجی تنظیم وشوا ہند و پریشدکے سربراہ موہن بھگوت نے اپنی انتہا پسند تنظیم کے پچاس سال مکمل ہونے کی تقریب سے خطاب میںکرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی پہچان ہی ہندوتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ بھارت کی ہر اقلیت کو اپنے اندر نگل سکتی ہے، اس لیے ہندوستان میں رہنے کے لیے سب کو ہندو کہلوانا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved