یمن ہی نہیں ، پورے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے ۔ 2010ء میں شروع ہونے والی عرب بہار اب خزاں ثابت ہو رہی ہے ۔ خلیج میں بے چینی کا سب سے بڑا سبب اقتدار کی منتقلی کا ناقص نظام ہے ۔یہاں آپ کوزمانہ قبلِ مسیح کی حکمرانی کے ایسے نمونے نظر آئیں گے ، پسماندہ اور تاریک افریقی ممالک کے سوا جواب کہیں رائج نہیں ۔لیبیا اور شام جیسے ممالک میں فوجی قوّت کے بل پر برسرِ اقتدار آنے والے حافظ الاسد اور معمر قذافی کئی دہائیوں تک حکومت کرتے نظر آئیں گے ۔ دیگر ممالک میں بادشاہت نافذ ہے ۔دونوں صورتوں میں اقتدار کی منتقلی کا واحد راستہ یہی ہے کہ حکمران کی موت کے بعد اس کے خاندان کا کوئی فرد جانشین ہوگا۔
ایران میں بظاہر آپ کو ایک جمہوری صدارتی نظام نظر آرہا ہے لیکن پسِ پردہ انتہائی سخت گرفت قائم ہے ۔اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ 2013ء کے صدارتی انتخابات میں سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملی ۔ یہ فیصلہ انقلاب کی نگہبان کونسل کا تھا۔ یہ کونسل بارہ اراکین پر مشتمل ہے ۔ چھ فقیہہ اور چھ قانون کے ماہر، براہِ راست اور بالواسطہ طور پر دونوں کا انتخاب ملک کی اعلیٰ مذہبی قیادت کر تی ہے ۔ یہ مذہبی قیادت چاہے تو محمود احمدی نژاد آپ کو آٹھ برس تک مغرب پہ گرجتے برستے اور ہر حال میں اپنی مرضی کا جوہری پروگرام جاری رکھنے کا اعلان کرتے نظر آئیں گے ۔ پھر اگر وہ فیصلہ بدل دے تو حسن روحانی اقتدار میں آتے ہی یہ اعلان کر ڈالتے ہیں کہ چھ ماہ میں ایٹمی پروگرام پر عالمی قوتوں کے ساتھ معاہدہ چاہتے ہیں ۔ عرب ممالک کی بادشاہت اور ایران کی ملّائیت نے عالمِ اسلام کو اس حال میں لا کھڑا کیا ہے ، جس میں آج وہ آپ کو نظر آرہا ہے ۔ دونوں باہم دست و گریباں ہیں او رخطے میں اپنی اتحادی حکومتوں کا قیام چاہتے ہیں ۔
یہ وہ پسِ منظر ہے ،2010ء میں شرو ع ہونے والی عرب بہار اور پھر مغرب کے طرزِ عمل نے جسے مزید پیچیدہ کر دیا ہے ۔ عوامی سطح پر شروع ہونے والی ان تحریکوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اقتدار کے بھوکے، جرائم پیشہ افراد میدان میں اترے ۔ پھر امریکی سربراہی میں مغرب کودپڑا۔لیبیا میں امریکی اتحادیوں کی بمباری کا جواز کیا تھا ؟ ایرانی ملّا اور عرب بادشاہتوں ، دونوں کو اس پر اعتراض نہ تھا۔ خود پسند کرنل قذافی اپنی جگہ ایک نمونہ تھے ، بیالیس سالہ اقتدار نے انہیں تقریباً دیوانہ ہی کر ڈالا تھا۔ اسی قسم کا نشہ اب صدر طیب اردوان پہ طاری ہور ہا ہے ۔ دس بر س وزیرِ اعظم رہنے کے بعد اب اقتدار میں رہنے کے لیے وہ ترکی کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدل رہے ہیں ۔ مصر میں اخوان حکومت برطرف کی گئی تو دو عرب بادشاہتوں کی طرف سے سفاک فوجی حکومت کو 8ار ب ڈالر کی امداد کا جواز کیا تھا؟ یہی امداد اخوان کی آئینی حکومت کو دی جاتی توملک اس قدر معاشی بد حالی کا شکار ہی نہ ہوتا، جس میں اخوان کے مخالفین سڑکوں پر نکل آئے۔
مشرقِ وسطیٰ میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔
بہرحال کسی بھی طرزِ کی آمریت، بادشاہت اور ملّائیت زدہ حکومت کی اسلحے کے زور پر رخصتی مسئلے کا حل نہیں ۔ ایک مضبوط مرکزی حکومت سے محرومی کے نتیجے میں ریاست کا انجام وہی ہوتاہے ،جولیبیا او رعراق میں ہوا۔ یمن میں اب یہی ہورہا ہے ۔ یمن کی صورتِ حال پر سعودی تشویش اپنی جگہ درست ہے ۔ اس کی 900کلومیٹر عراق سرحد 2003ء کے امریکی حملے کے بعد سے غیر محفوظ تھی ۔ اب یمن کی 1800 کلومیٹر سرحد پر بھی حالات کشیدہ ہیں ۔ پچھلے مہینوں میں یہاں دہشت گردی کے کئی واقعات پیش آئے ہیں ۔ خطے میں سعودی عرب ہی وہ واحد نمایاں ریاست ہے جو سیاسی عدم استحکام سے اب تک بچی ہوئی ہے ۔ اس وقت جب کہ پورا خطہ ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے ، اپنے ہمسایہ ملک میں ایک اقلیتی گروہ کی اسلحے کے بل پر قائم ہونے والی حکومت کو وہ کیونکر برداشت کرتا؟ القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ سے لے کر ہر قسم کے دہشت گرد وہاں دندناتے پھر رہے ہیں ۔حوثی باغیوں کے بعد اب القاعدہ نے بھی جیل توڑ کر قیدی رہا کرا لیے ہیں ۔
یمن کا معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ اس کی حکومت نے باضابطہ طور پر خلیجی ممالک سے مداخلت کی اپیل کی تھی ۔ یمنی وزیرِ خارجہ نے اب زمینی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ اب تک کی جو صورتِ حال سامنے آئی ہے ، اس کے مطابق خلیجی اتحاد کے حملوں کے باوجود باغی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ زمینی کارروائی کے بغیر اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے اورعرب فوج اس کے لیے تیار نہیں ۔ اس صورت میں اسے بھاری جانی نقصان اٹھانا ہوگاکہ حریف سخت جان اور جنگ لڑنے کے عادی ہیں ۔ اپنی زمین کے چپے چپے سے وہ واقف ہیں ۔ ادھر باغی اہم ترین سمندری راستے آبنائے باب المندب سنبھالنے کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان اس واحد تجارتی راستے کی بندش کوئی خلیجی ریاست بھی برداشت نہ کر پائے گی ۔
عسکری طور پر پاکستان اپنی جگہ سخت دبائو کا شکار ہے ۔ آدھی فوج مشرق میں بھارتی سرحد پر تعینات ہے ۔ آپریشن ضربِ عضب سے قبل ہی ڈیڑھ لاکھ فوج افغان سرحد پر تعینات تھی ۔ 2009ء کے سوات آپریشن کے بعد سے فوجی جوان وہاں پہرہ دے رہے ہیں کہ سول ادارے یہ ذمہ داری اٹھا نہیں سکتے ۔ اب شمالی وزیرستان میں بھی انہیں ہی چوکیداری کرنا ہوگی ۔ دہشت گردوں کی بڑی تعداد فضل اللہ کی سربراہی میں افغان سرحدی علاقے میں مقیم ہے ۔ افغان افواج مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں ۔ اس قدر وہ مضبوط نہیں کہ طالبان سے تنہا نمٹ سکیں ۔ ملک بھر میں دہشت گردوں سے نمٹنے میں پولیس اور سول اداروں کے شانہ بشانہ پاکستانی فوج ایک بڑا کردار ادا کر ر ہی ہے۔ کراچی کے معاملات وہ دیکھ رہی ہے ۔ گزشتہ مہینوں میں بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپیں ہمارے سامنے ہیں ۔تحریکِ انصاف نے گلگت بلتستان میں انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
اس صورتِ حال میں یہ تو صاف ظاہر ہے کہ یمن پر حملے سمیت ، کوئی بڑا بوجھ وہ اپنے ذمے نہیں لے سکتیں ، فرقہ واریت سمیت ملک میں جس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ دوسری طرف یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ جتنی تعداد میں دستے بھیجے جا سکیں ، ان کی سعودی عرب کے اندر تعیناتی ضروی ہے ۔ مقدس مقامات کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔ مقدس مقامات ہی نہیں ، سعودی ریاست کا تحفظ بھی ضروری ہے اور حکومت اس کا حصہ ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، ایک مضبوط مرکزی حکومت سے محرومی کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلتاہے ۔اس صورتِ حال میں ثالثی کی کوشش ، ترک صدر سمیت اسلامی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا فیصلہ خوش آئند ہے ۔ حرمین شریفین اور سعودی عرب کے اندر تعیناتی سے بڑھ کر پاکستان کو تنہا کوئی بڑی ذمہ داری لینے سے گریز کرنا چاہیے۔