چینل 24 پر‘ پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر صاحب‘ جن کا نام میںٹھیک سے نہیں سن پایا‘ حیرت انگیز بات کہہ گئے کہ ''پاکستان سنی سٹیٹ ہے۔‘‘ ہم نے قومی یا سرکاری طور پر کبھی اپنے آپ کو سنی سٹیٹ نہیں کہا۔ پاکستانی فوج اور سیاسی قائدین نے بھی فرقہ واریت کی بنیاد پر یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پاکستان سنی سٹیٹ ہے۔ ہمارے ملک کا صحیح نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور ہماری ریاستی پالیسیاں فرقہ واریت سے بالاتر رہ کر بنائی جاتی ہیں۔ ہم اندرون ملک اور دیگر مسلمان ملکوں کے ساتھ روابط میں‘ بنیادی اسلامی تصورات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ فرقہ واریت ‘ ہمارے ریاستی معاملات میں قطعاً پیش نظر نہیں رکھی جاتی۔ آج کل پاکستان کا حکمران خاندان‘ سعودی عرب کے حکمران خاندان سے گہرے روابط رکھتا ہے۔ سعودی حکمران اپنی واضح مذہبی بلکہ فرقہ ورانہ شناخت رکھتے ہیں‘ لیکن مضبوط ذاتی تعلقات ہونے کے باوجود‘ ہمارے ملک کا حکمران خاندان‘ ریاستی اور سیاسی کارکردگی میں‘ فرقہ واریت کو اہمیت نہیں دے سکتا۔ ہمارے معاشرے کی ساخت ہی ایسی ہے کہ پاکستان کو کسی ایک فرقے کا ملک نہیں بنایا جا سکتا۔ اس میں تمام مسلمان بلاامتیاز مسلک و فرقہ‘ دین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی اسلامی شناخت ہی کو اہمیت دیتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق سے پہلے تو‘ قائد اعظمؒ کے اصول فوقیت رکھتے تھے اور ان کی تعلیمات میں فرقہ واریت تو دور کی بات ہے‘ مذہب بھی پاکستانیت پر اثرانداز نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہر مذہب اور عقیدے کے لوگوں کو ایک جیسا پاکستانی سمجھتے تھے۔ اقلیتوں کو پاکستان کی اکثریتی آبادی سے علیحدہ کر کے‘ امتیازی سلوک کا مستحق قرار دینے کا فیصلہ ضیاالحق کا تھا‘ لیکن قوم نے عملی طور پر اسے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ ہمارے اجتماعی رویوں میں ایک ہی قوم کا اصول کارفرما رہتا ہے۔ کچھ تنگ نظر اور جداگانہ مفادات رکھنے والے لوگ‘ فرقہ ورانہ تقسیم کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن پاکستانیوں کی اکثریت ان سے اتفاق نہیں کرتی۔
بے بہا بیرونی سرمائے اور مقامی سرپرستیوں کے زیراثر‘ شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی بہت کوشش کی گئی اور روپے پیسے کے ساتھ تشدد سے بھی کام لیا گیا‘ لیکن پاکستان کے عام شہریوں کو فرقہ واریت سے متاثر نہیں کیا جا سکا۔ چند کرائے کے لوگ‘ جو معاشرے سے بالکل الگ اور کٹے ہوئے ہیں‘ چھپ کر تشدد کی وارداتیں کرتے رہے‘ جس کا مقصد ایک فرقے کو دوسرے کے خلاف صف آراء کرنا تھا‘ مگر کبھی نہیں کیا جا سکا۔ ہمارا معاشرہ اسی طرح مل جل کر بھائی چارے کی فضا میں آگے بڑھتا آ رہا ہے اور انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا‘ کیونکہ اس کے بغیر ہماری آزادی اور سلامتی دونوں خطرے میں ہیں۔ پاکستان میں جو بھی شیعہ سنی کا سوال کھڑا کرتا ہے‘ وہ ہمارے اتحاد میں دراڑیں ڈال کر عدم استحکام پیدا کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس دن‘ فرقہ ورانہ تقسیم تصادم میں بدل گئی‘ ہمارا معاشرہ بھی تباہ و برباد ہو جائے گا اور پاکستان کا وجود بھی خطرات میں گھر جائے گا۔ہم تمام دیگر مسلمان ملکوں کے ساتھ اسلام کی بنیاد پر روابط رکھتے ہیں۔ ہماری پہچان اسلامی ملک کے طور سے ہے اور ہمیں اسی پر فخر ہے۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں ہم سب ایک ہوتے ہیں۔ ایک ہی امام کے پیچھے‘ ایک ہی صف میں نمازیں پڑھتے ہیں اور کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملاتے ہوئے‘ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہی ہماری شناخت ہے اور یہی ہمارے مذہبی رشتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ بطور ریاست‘ سعودی عرب کے ساتھ ہمارا کوئی فرقہ ورانہ تعلق ہے۔ یہ دو اسلامی ملکوں کی دوستی ہے‘ جس میں دونوں ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔
دفاع کے شعبے میں ہم دونوں کا باہمی تعاون ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ابھی تک ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ سعودی عرب نے نہ تو خود کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کی ہے اور نہ وہ ہمارے دفاعی ماہرین سے اس کی امید رکھتا ہے۔ ہمارا تعاون ایک دوسرے کے دفاع اور استحکام کے لئے ہوتا ہے اور آج بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہمارے تمام حکومتی اور فوجی ترجمان صرف ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ہم سعودی عرب کے اندر خدمات انجام دینے کے معاہدے کرتے ہیں اور پاک فوج سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی پاکستانیوں نے سعودی عرب جا کر خدمات انجام دیں‘ وہ مکمل طور پر سعودی عرب کی سرحدی حدود کے اندر تھیں اور رہیں گی۔ یہ طبی خدمات سے لے کر تربیتی خدمات تک‘ ہر شعبے میں جاری رہتی ہیں اور آئندہ بھی ہمارے باہمی تعاون کی حدود یہی رہیں گی۔
سعودی عرب اور یمن میں جنگ کا جوتصور ہم لئے بیٹھے ہیں‘ وہاں اس کے امکانات نہیں دیکھے جا رہے۔ یمن میں دوردور تک کسی کے وہم و گمان میں نہیں کہ ان کا ملک سعودی عرب کے خلاف کوئی جارحیت کر سکتا ہے۔ یمنی اپنے معاملات میں اتنا الجھے ہوئے ہیں کہ وہ سرحد پار کوئی لڑائی چھیڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مختلف قبیلوں میں بٹا ہوا یہ ملک‘ مدتوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ ایک بار یہ تقسیم ہو کرکئی سال تک دو آزاد اور خودمختار ملکوں کی حیثیت سے قائم رہا۔ حالات میں تبدیلی آئی تودونوں یکجا ہو گئے۔متحارب فریقوں نے عام انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کیا۔ علی عبداللہ صالح صدر بنے۔ باغیوں کے ایک گروہ نے صدارتی محل پر حملہ کیا تو صالح زخمی ہو کر سعودی عرب چلا گیا۔ منصور ہادی نے ان کی جگہ صدر بن کر 90دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا۔ وہ یہ وعدہ پورا نہ کر سکے۔جب عوام کے لئے تکالیف ناقابل برداشت ہو گئیں‘ تو انہوں نے انتخابات کے لئے تحریک چلائی۔ اس تحریک میں سارے قبیلوں نے مل کر قبائلی تنازعات کو نظرانداز کیا اور اجتماعی جدوجہد شروع کر دی۔ حکومت‘ جو کہ عوامی اعتماد سے محروم ہو چکی تھی‘ نے عوام کے خلاف مسلح طاقت استعمال کی اور اس طرح تصادم شروع ہو گئے۔ سرکاری فورسز ‘ عوامی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ پائیںاور منصور ہادی اپنے خاندان اور وفاداروں سمیت سعودی عرب فرار ہو گیا۔ اب وہ سعودی عرب میں بیٹھ کر اپنے حامیوں کے ذریعے یمن کے اندر جنگ لڑ رہا ہے اور سعودی عرب نے اس کی حمایت میں یمن پر فضائی حملے شروع کر کے‘ منصور ہادی کے حامیوں کو سہارا دینے کی کوشش شروع کی۔ یمن کے حالات سے باخبر لوگ وثوق سے کہتے ہیں کہ ہادی کے حامی‘ سعودی عرب کی مدد سے دوبارہ عوام کی حمایت حاصل نہیں کر سکیں گے اور جنگ نے اگر طول پکڑا‘ تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ یمن کی خانہ جنگی زیادہ طویل ہو جائے گی‘ لیکن اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ منصور ہادی یا اس کا بیٹا‘ دوبارہ یمن آ کر‘ اقتدار سنبھال لیں گے۔ دوسری طرف یہ توقع بھی نہیں کی جا رہی کہ سعودی فوج یمن میں داخل ہو کر‘ ہادی کے حامیوں کو اقتدار دلا دے گی۔ عام خیال یہی ہے کہ عرب لیگ مداخلت کر کے‘ یمن میں برسرپیکار فریقوں کے مابین کسی نہ کسی طرح کا سمجھوتہ کرا دے گی‘ لیکن خطے کے اندربعض طاقتیں ‘ شیعہ سنی تنازعہ کھڑا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بعض مغربی ممالک بھی فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دینے کے خواہاں ہیں‘ لیکن اب ایک نئی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ ایران کی بین الاقوامی تنہائی چند ماہ کے اندر ختم ہونے والی ہے۔ ایٹمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے تحت آخرکار تعلقات
معمول پر لانے کا معاہدہ بھی ہو جائے گا۔عالمی پابندیاں ختم ہونے کے بعد‘ پاکستان کے لئے ایران سے معمول کے تعلقات قائم کرنا آسان ہو جائے گا۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ ہم نے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ باہمی تعلقات کو اپنی اپنی جگہ بہتر انداز میں چلایا ہے۔ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے ہم باہمی تعلقات تو وسیع نہ کر سکے‘ لیکن اب یہ رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں اور امکان ہے کہ گیس پائپ لائن کو مکمل کر کے ہم پھر سے تعلقات کا سابقہ ماحول بحال کر لیں گے۔ جہاں تک حرمین شریفین کا تعلق ہے‘ وہ تمام مسلمانوں کے لئے مقدس اور محترم ہیں۔ ہمیں اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارے یہ دونوں مقدس مقامات ہر طرف سے محفوظ ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے بھی حالات کے تقاضوں کا اندازہ کرتے ہوئے اپنی پالیسی کو صحیح رخ پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ترکی کے دورے پر جا کر اسلامی برادری کے ذریعے یمن کا مسئلہ حل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے رابطوں میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہو جائیں گی۔پاکستان اور ترکی مل کر اسلامی برادری کے فریم ورک میں گفت و شنید کے ذریعے یمن کا مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یمن سے آنے والے پاکستانیوں نے حیرت انگیز بات یہ بتائی کہ وہاں اسلحہ بھی عام ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی منتشر ہیں اور مسلح گروہ بھی جابجا موجود ہیں‘ لیکن کسی شہری کو یہ شکایت نہیں کہ اس سے کسی نے بھتہ مانگا یا وہاں اغوا برائے تاوان ہوا۔ عام شہریوں کے حقوق کا باہم لڑنے والے دونوں فریق احترام کر رہے ہیں۔