تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-04-2015

مرغی نہیں کھاتا‘ شیر لسّی پیتا ہے!

کب تک ٹالتی رہے گی؟ آخر قوم اس شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرے گی، جسے ان کے مرنے والوں کی پرواہ ہے اور نہ جینے والوں کی۔ خدا کی بستی میں ہر عمل کا ردّعمل ہوا کرتا ہے۔
اس خبر پہ یقین کر لیا جاتا کہ میاں محمد نواز شریف وزارتِ عظمیٰ شہباز شریف کے سپرد کر کے خود صدارت سنبھالنے کے متمنّی ہیں۔ یہ مگر قرینِ قیاس نہیں کہ اس کے بعد پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا قرعہ چوہدری نثار کے نام نکل سکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وزیرِ اعظم‘ چوہدری صاحب سے ناخوش ہیں۔ نیکٹا کو فنڈز جاری نہیں کیے گئے‘ اس کے باوجود کارکردگی چوہدری صاحب کی اچھی ہے۔ ایسے اخبار نویس داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں، آسانی سے جو حرفِ تحسین کہا نہیں کرتے۔ شہباز شریف بھی رکاوٹ ہیں، ہر حال میں جو نثار علی خان کو برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
شہباز شریف کچھ نہ کچھ تحرّک تو پیدا کر دیں گے، کچھ فیصلے تو صادر کریں گے۔ میاں صاحب کی حالت تو محمود غزنوی کے بھائی مسعود ایسی ہے کہ جنوب سے خطرہ لاحق ہوتا، وہ شمال کا رخ کرتا؛ تاآنکہ سلاجقہ ابھر آئے۔ تاریخ نے اس نادرِ روزگار فاتح الپ ارسلا ن کو دیکھا، جس نے شمال اور جنوب، مشرق اور مغرب کی ساری سرزمینوں کو ہموار کر دیا۔ چار ہزار کے محافظ دستے سے رومیوں کے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ تین صدیوں کے لیے انہیں پسپا کر دیا۔
گورنر پنجاب کے لیے عدالت کو یاددہانی کرانا پڑی ہے۔ چوہدری سرور کی علیحدگی کے بعد وزیرِ اعظم کے دو عدد نائبین وزیرِ اطلاعات پرویز رشید اور نجم سیٹھی نے عطاء الحق قاسمی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ کسی بھی موثر حلقے کی طرف سے قاسمی کی مخالفت نہ کی گئی۔ تاثر تب یہ تھا کہ کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ سیاست اگرچہ ان کا میدان نہیں۔ تجزیہ رقم فرمائیں تو کسی معصوم سے بچے کی طرح لگتے ہیں۔ مزاح نگار البتہ وہ بڑے ہیں۔ شریف خاندان کے لیے ان سے موزوں گورنر کون ہو سکتا ہے؟ متحرک ہو تو اس کا انجام میاں محمد اظہر یا چوہدری سرور ایسا ہوا کرتا ہے۔ قاسمی صاحب کی تو نگرانی کرنے کی ضرورت بھی نہ ہو گی۔ سپیشل برانچ کے اخراجات بھی کم ہو جائیں گے؛ البتہ وہ دبئی، بھارت، کینیڈا یا امریکہ کا رخ کرنے کی کوشش کریں تو یاد دلانا ہو گا کہ لاٹ صاحب ایسے نہیں کیا کرتے۔
لاہور کے اونچے انٹینا والے اخبار نویسوں کے مطابق مزاحمت خود شریف خاندان میں ہے۔ شہباز شریف کہتے ہیں: عرفان صدیقی کو مشیر بنانے سے کیا حاصل ہوا؟ روزانہ ایک عدد کالم وہ ہمارے حق میں لکھا کرتے تھے۔ اب ہمارے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں اور کوئی جواب دینے والا نہیں۔ کیا قاسمی صاحب سے بھی ہاتھ دھو لیں؟ بتایا گیا ہے کہ محترمہ کلثوم نواز، حمزہ شہباز اور کاروبارِ حکومت خاص طور پر اطلاعات کے شعبے میں دخیل محترمہ مریم نواز‘ سعود مجید کو گورنر بنانے کے حق میں ہیں۔ پرویز رشید اکثر انہی کا تجویز کردہ گیت گایا کرتے ہیں۔ ادھر قائم مقام گورنر بھی فریاد کناں ہیں کہ حضور چھ برس میں کب کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر ہوئی؟
پیچیدگی کیا ہے؟ قاسمی صاحب کے اعزاز میں وزیرِ اعظم ایک عدد ضیافت کا بندوبست کریں۔ اپنی مجبوری سے انہیں آگاہ کریں۔ شیر مگر لسّی پیتا ہے۔ اپنے حال میں مگن رہتا ہے۔
25 دسمبر 2014ء کی شب وزیرِ اعظم نے اعلان کیا تھا: ''نیکٹا کو فوری طور پر فعال ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں‘‘۔ ان ہدایات میں سے ایک انٹلی جنس ایجنسیوں کے لیے مشترکہ ڈائریکٹوریٹ کا قیام تھا۔ اس ادارے کا کیا ہوا؟ آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی اور دوسری ایجنسیاں جہاں ایک چھت کے نیچے یکجا ہوتیں۔ دہشت گردوں کے خلاف برق رفتاری سے کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا؟ فوجی افسروں کے تحفظات ہیں کہ نازک معاملات میں وہ نسبتاً غیر محتاط سول ایجنسیوں پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ یہ تحفظات کیوں دور نہیں ہو سکتے؟ سول افسروں کا انتخاب ان کی مرضی سے کر لیا جائے اور تربیت کے مرحلے سے گزارا جائے۔ یہ بھی نہیں تو چھلنی کے پہلے مرحلے پر فوجی افسروں کا تقرر کر دیا جائے۔ سول عدالتوں کی بجائے اگر فوجی عدالتیں قائم کی جا سکتی ہیں تو یہ ذمہ داری کیوں انہیں سونپی نہیں جا سکتی۔ اگر یہ بھی نہیں تو کوئی دوسرا نسخہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم کے دفتر میں اس قدر ذہنی اور اخلاقی افلاس کیوں کارفرما ہے؟ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ خونخواروں کی نذر ہو گئے اور وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کی سپیشل برانچ کے افسروں نے ایک رپورٹ سرکار کی خدمت میں پیش کی تھی: ایک خاص مکتبِ فکر کے بیس مدارس دہشت گردی میں ملوّث ہیں۔ قبائلی علاقوں سے دارالحکومت کا رخ کرنے والوںکو وہ پناہ دیتے ہیں۔ بھتہ وصول کرتے، پیغامات لاتے اور لے جاتے ہیں۔ پنجاب کے وزیرِ داخلہ نے خود بھی تیرہ ایسے مدارس کی نشان دہی فرمائی تھی۔ ان سب کے خلاف اب تک کارروائی کیوں نہیں؟
جمعرات کو حیدر آباد میں مولانا فضل الرحمن کے برادرِ خورد مولانا عطاء الرحمن کی قیادت میں ایک جلوس نکالا گیا، مدارس کے خلاف اقدام کی جسارت کرنے والوں کو مزہ چکھانے کے علاوہ، یہ اعلان بھی کیا گیا ''جمعیت علمائِ اسلام پاکستان پر حکومت کرے گی۔ وہ ملک کو حقیقی اسلامی نظام سے روشناس کرائے گی‘‘۔ اگر طے شدہ قومی فیصلوں کے خلاف ایک پارٹی بغاوت کا اعلان کرتی ہے‘ تو وہ حکومت کا حصہ کیوں ہے؟
کیا وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملک کو حالات کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف میں وہ مصالحت کیوں نہیں کرا سکتے؟ یمن میں صلح کرانے وہ ترکی جا پہنچے ہیں۔ ان دو آدمیوں سے بات نہیں کر سکتے؟ واقعہ یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان سے بہتر وزیرِ داخلہ نہیں مل سکتا۔ واقعہ یہ بھی ہے کہ عزت نفس کا احساس رکھنے والے اس شخص کو معاف کرنے پر وہ آمادہ نہیں۔ آخر دوسروں کی طرح وہ سربسجود کیوں نہیں ہوتا؟ مشورے دینے اور اختلاف کی جسارت وہ کیسے کرتا ہے؟
کب تک ٹالتی رہے گی؟ آخر قوم اس شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرے گی، جسے ان کے مرنے والوں کی پرواہ ہے اور نہ جینے والوں کی۔ خدا کی بستی میں ہر عمل کا ردّعمل ہوا کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved