اس وقت جبکہ ایم کیو ایم زخموں سے چُور ہے، بہت سی معقول آوازیں اس جماعت کو عقلمندانہ مشورہ دے رہی ہیں کہ یہ اپنے آپ کو‘ خود سے بچائے۔ ''اپنے آپ کو خود سے بچانے‘‘ کے دو مطالب واضح ہیں... یہ جماعت خود کو اپنی اعلیٰ قیادت سے الگ کر لے، اور دوسرا، یہ اپنی صفوں سے جرائم پیشہ عناصر کو نکال کر ایک عام سیاسی جماعت، نہ کہ مافیا، کی طرح کام کرے۔ ایک بازگشت یہ بھی سنائی دے رہی ہے کہ الطاف حسین کی جگہ پرویز مشرف اس جماعت کی قیادت سنبھالیں گے، لیکن یہ بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ سابق جنرل سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس جماعت کی قیادت کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ یہ کام ان کی طبیعت سے لگا نہیں کھاتا، لیکن قومی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کی اُن کی خواہش بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں؛ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر ایم کیو ایم اُنہیں قبول کیوں کرے گی؟
کارکنوں اور حامیوںکے لیے الطاف حسین ہی ایم کیو ایم ہیں۔ اگر وہ کسی طریقے سے منظر سے ہٹ جاتے ہیں ( یا ہٹا دیے جاتے ہیں) تو پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ان تمام برسوں میں کسی متبادل قیادت کو ابھرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ پارٹی کے اُن سینئر عہدیداران کی فہرست بہت طویل ہے جو ناگہانی اور پراسرار اموات کا شکار ہوئے۔ اگرچہ اُنہوں نے حال ہی میں اپنے تین ممکنہ جانشینوں کے نام لیے، لیکن پھر پارٹی کے ایک ترجمان نے فوراً ہی تصحیح کر دی کہ الطاف بھائی نے اُنہیں دراصل ''سینئر ممبران‘‘ ہی قرار دیا تھا۔ یقینا کسی کو جانشین مقرر کرنا خواہش مند دیگر افراد کو رشک بلکہ حسد میں مبتلا کرنے کے مترادف ہو گا۔
دوسری تجویز یہ دی جاتی ہے کہ پارٹی کسی طریقے سے خود کو اپنے جنگجو اور جرائم پیشہ عناصر سے دور کر لے۔ وہ لوگ جو کراچی کو قریب سے نہیں جانتے، اُنہیں یہ تصور نہیں ہو گا کہ یہاں سیاست، دولت اور جرائم میں کتنا گہرا تعلق ہے۔ جب 1985ء میں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی، یہ دراصل ایک گروہ ہی تھا‘ جس کا مقصد مہاجروں کو پشتون افراد کی جارحانہ کارروائیوں سے بچانا تھا۔ پرانے قارئین اور اس شہر کے حالات پر نگاہ رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ مہاجر اور پشتون آبادی کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ ان کا آغاز اُس وقت ہوا جب ایک مہاجر لڑکی ایک بس کے نیچے آ کر ہلاک ہو گئی تھی۔ اُس بس کا ڈرائیور ایک پشتون تھا۔ اُس وقت بڑی تعداد میں مہاجر افراد نے نوجوان الطاف حسین کی آواز پر لبیک کہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے مہاجر قوم کو وقار اور عظمت عطا کی۔ یہ وہ دن تھے جب جنرل ضیا کو بھی پی پی پی کو دبانے اور ایک خاص حد سے آگے نہ آنے دینے کے لیے کسی گروہ کی ضرورت تھی؛ چنانچہ انہوں نے مہاجر جذبات کا فائدہ اٹھایا اور مبینہ طور پر ایم کیو ایم کو فروغ اور تقویت پانے کا موقع فراہم کیا۔ لیکن ایک بات طے تھی کہ ایم کیو ایم ایک جنگجو گروپ پہلے اور ایک سیاسی جماعت بعد میں بنی۔ اگرچہ بعد میں اس نے ایک سیاسی جماعت کا روپ دھار لیا لیکن اس شہر پر اس کا قبضہ اس کے ''سیکٹر انچارج سسٹم‘‘ کی بدولت تھا۔ میں اُن دو عشروں کے دوران کراچی میں ہی تھا اور میں جانتا ہوں کہ شہر پر ان کی گرفت کس قدر مضبوط تھی۔ اس کے نوجوان کارکن ہر طرف بے خوفی سے چلتے پھرتے ہوئے پارٹی کے لیے ''چندہ‘‘ یا ''رقم برائے تحفظ‘‘ طلب کرتے تھے۔
جب الطاف حسین پاکستان سے نکل کر برطانوی شہری بن گئے‘ تو بھی حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی کیونکہ ان کا نیٹ ورک، جو رابطہ کمیٹی کے علاوہ ہوتا ہے، بہت مضبوط تھا۔ گزرتے ہوئے وقت نے پارٹی قیادت کو ایک بات سمجھا دی کہ اگر وہ قومی سطح پر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں قومی اسمبلی میں نشستیں حاصل کرنا ہوں گی۔ اگرچہ اس نے سندھ کے شہری علاقوں کے انتخابی حلقوں پر کنٹرول قائم کر لیا، لیکن ملک کے دیگر حصوں میں حمایت حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے باوجود، سندھ کے شہری علاقوں سے حاصل کردہ تقریباً بیس نشستوں نے نوّے کی دہائی سے لے کر 2013ء (موجودہ حکومت سے پہلے) تک اسے ہر حکومت میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیے رکھا۔ گزشتہ انتخابات میں سامنے آنے والے نتائج نے پی ایم ایل (ن) کو حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے کی مجبوری سے بے نیاز کر دیا۔ جیسے ہی ایم کیو ایم مرکز میں اپنی اہمیت کھو بیٹھی، یہ آپریشن کی زد میں آ گئی۔
ایم کیو ایم کو ایک اور امتیاز حاصل رہا کہ اگرچہ یہ ہمیشہ ہر حکومت کا حصہ ہوتی تھی‘ اس کے باوجود یہ اپوزیشن پارٹی کا ہی کردار ادا کرتی تھی؛ چنانچہ کسی کو بھی اس پر اعتماد نہیں رہا۔ اس بداعتمادی کا آغاز اُس وقت ہی ہو گیا تھا‘ جب اس نے 1989ء میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ (اُس وقت ایم کیو ایم پی پی پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شریک تھی)۔ بعد میں بھی اس نے اپنے بارے میں قائم ہونے والے اس تاثر کو زائل کرنے کی بجائے اسے تقویت دی۔ اس پر الزام رہا ہے کہ پارلیمانی نشستوں پر کامیابی کے لیے اس نے ہمیشہ مشکوک ذریعے استعمال کیے۔ ایک عام طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہر سیکٹر میں حامیوں کے شناختی کارڈ جمع کر کے ان کے نام پر اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کر دیے جاتے۔ عملے کو ڈرانے دھمکانے سے ایم کیو ایم نے کبھی گریز نہیں کیا۔ اس طرح یہ بات سمجھنی آسان ہے کہ ووٹ اور رقم، دونوں، کے حصول کے لیے پارٹی کو مسلح ونگ کی ضرورت تھی؛ چنانچہ جو سادہ لوح افراد یہ صائب مشورہ دے رہے ہیں کہ یہ مسلح ونگ سے خود کو الگ کرکے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے، وہ یا تو حقائق سے ناواقف ہیں یا جان بوجھ کر حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ چونکہ پارٹی کے زیادہ تر حامی درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، اس لیے یہ دولت مند کاروباری افراد سے رقوم نکلوائے بغیر چل نہیں سکتی۔ اسی رقم کو عرف ِعام میں بھتہ کہا جاتا ہے؛ تاہم موجودہ حالات سے یہ اندازہ لگانا درست نہیں کہ اب الطاف حسین ایک قصہ ٔ پارینہ بن چکے۔ وہ اب بھی پُرعزم اور سخت جان حامیوں کے تخیلات پر چھائے ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے الطاف حسین وہ شخص ہیں جنہوں نے مہاجر قوم کو عزت‘ وقار اور سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا۔ ان کی وجہ سے ہزاروں افراد کو، جو بے مقصد اور کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے دن پورے کر رہے تھے، آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ ایک آخری بات... جب بھی الطاف حسین منظر عام سے رخصت ہوں گے، کراچی لاقانونیت کے طوفان سے گزرے گا۔ ایریا کمانڈرز اپنے اپنے مقام کے لیے ایک دوسرے کے در پے دکھائی دیں گے۔