پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور بھارتی جریدہ ''استفسار‘‘
یمن بحران پر حکومت نے 6اپریل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا جبکہ قومی مفاد خارجہ پالیسی کا رہنما اصول ہو گا۔ تاہم اس بات پر قومی اتفاق رائے موجود ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ اس میں دو باتیں اہم ترین ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت اور خصوصاً وزیر اعظم اس ضمن میں ہر حد تک جانے کو تیار ہیں اور جس کی واضح وجہ صاحب موصوف کی ذاتی مجبوری بھی ہے کیونکہ وہ شاہی خاندان کے بیحد ممنون ہیں جبکہ دیس نکالا ملنے کے دوران برسوں وہ شاہی خاندان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے گزار چکے ہیں۔
گزشتہ برس سعودی حکومت کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ بھی کم و بیش اسی قربت کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی سعودی حکومت کی طرف سے ہر نازک موقع پر پاکستان کی ہر ممکن مدد کی گئی ہے۔ جس میں تیل کی ادھار سہولت بطور خاص شامل ہے۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ مثلاً زرداری صاحب کی حکومت کے دوران سعودی حکومت کی جانب سے ایسی کسی سخاوت یا فیاضی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا جس کی کچھ دوسری وجوہ بیان کی جاتی ہیں ۔
تاہم جہاں تک سعودی عرب اور بالخصوص یمن میں پاکستانی افواج بھیجنے کا تعلق ہے تو ہمیں اس موضوع پر واضح تقسیم نظر آتی ہے اور بعض قابل ذکر سیاسی عناصر وہاں فوج بھجوانے یا کسی بھی طرح کی عسکری مداخلت کے حق میں نہیں ہیں اور جس کی کئی مضبوط وجوہ بھی ہیں اور جن میں ملک کی اپنی داخلی صورت حال بھی شامل ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایسی کسی مداخلت کے نتیجے میں ہمارے ہمسایہ اسلامی ملک ایران کی ناخوشی بھی سمجھ میں آتی ہے ‘جسے افورڈ نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ اس وجہ سے پیدا ہونے والے ملک میں فرقہ وارانہ اضطراب کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ چنانچہ حکومت کے پاس بچائو کا واحد راستہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس مسئلے کو زیر بحث لایا جائے اور جس کے نتائج بھی اسے اچھی طرح سے معلوم ہیں کیونکہ اس موضوع پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا یا حاصل ہونا تقریباً ممکن ہے کیونکہ اس سے بھی بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قومی مفاد کو ہر طرح سے ترجیح دی جائے جو عسکری مداخلت کا بوجوہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سیاسی طور
پر بھی ضروری تھا کہ اس پر کھل کر بحث ہو اور اس کے نتائج کو خود بھی تسلیم کیا جائے اور عسکری عدم مداخلت کو ایک ضرورت اور جواز کے طور پر بھی پیش کیا جا سکے۔چنانچہ ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جائے اس لیے وزیر اعظم دیگر مسلم رہنمائوں سے ملاقات کے سلسلے میں آج کل میں ترکی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ ادھر ایرانی حکومت نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ سعودی حکومت سے مل کر اس تنازع کا حل نکالنے کے لیے تیار ہے‘ بیشک سعودی حکومت کی طرف سے اس کا کوئی گرم جوش جواب موصول نہیں ہوا ہے جبکہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان حالیہ ایٹمی پیش رفت روکنے کا معاہدہ بھی اپنے واضح اثرات رکھتا ہے‘ اور اس سے تنائو کی کیفیت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
چونکہ کہا جاتا ہے کہ خارجہ معاملات براہ راست عسکری قیادت کے پاس ہیں‘ اس لیے اس مسئلے کو لازمی طور پر زیادہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے گا کیونکہ وہ ملک کے اندر مختلف مصروفیات میں الجھی ہوئی ہے اور سرحدوں پر بھی سب اچھا نہیں ہے‘ اس لیے پاکستان کے لیے اس معاملے میں کوئی مصالحانہ کردار ہی مناسب ترین ہو گا جبکہ سعودی عرب کی سالمیت کو درپیش ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا بچہ بچہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہے اور اس سلسلے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے دعا کرنی چاہیے کہ وزیر اعظم کے بیرون ملکی دورے ثمر آور ثابت ہوں اور عرب دُنیا اس سنگین بحران سے نکل سکے کیونکہ خود پاکستان اس کے اثرات سے نہیں بچ سکے گا۔
اور اب بھارت سے موصول ہونے والا یہ رسالہ: یہ پتلا سا جریدہ اپنے مندرجات کی وجہ سے ایک اپنی اہمیت رکھتا ہے جن میں ٹھوس موضوعات کو اولیت اور اہمیت دی گئی ہے اور جسے جے پور سے عادل رضا منصوری اور شین-کاف نظام نکالتے ہیں۔ یادِ رفتگاں کا حصہ بطورخاص وقیع ہے جس میں شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے رشحات قلم شامل ہیں جبکہ مشتاق صدف اور محمد افتخار شفیع کے مضامین قابل قدر ہیںاور کشمیری لال ذاکر کا افسانہ خاصے کی چیزہے۔ ندا فاضلی سمیت متعدد نامور شعرا کی تخلیقات اس کے علاوہ ہیں ‘ قیمت40روپے ہے۔اس میں شائع ہونے والی آسٹریا میں مقیم پاکستانی شاعر آفتاب حسین کی یہ خوبصورت غزل دیکھیے:
روک سکتا تھا کسی کو میں‘ مگر جانے دیا
مجھ میں کوئی مر رہا تھا‘ میں نے مر جانے دیا
خواب تھا آنکھوں میں میری‘ میں نے آنکھیں کھول دیں
اور اس خوشبو کو سارے میں بکھر جانے دیا
رفتہ رفتہ دل کو دُنیا کی ہوا راس آ گئی
رفتہ رفتہ ہم نے اپنا زخم بھر جانے دیا
اور اب وہ لوگ میری راہ کی دیوار ہیں
جن کو میں نے اپنے اندر سے گزر جانے دیا
شام کوئی دل سے ہو کر جا رہا تھا‘ آفتاب
ہم نے دیکھا اک نظر اور دیکھ کر جانے دیا
آج کا مقطع
لگاتا پھر رہا ہوں عاشقوں پر کفر کے فتوے
ظفرؔ، واعظ ہوں میں اور خدمتِ اسلام کرتا ہوں