تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     05-04-2015

’’شیطانِ بزرگ‘‘ سے مفاہمت

سوئٹزرلینڈ میں ایرانی ایٹمی پروگرام پر ایران اور چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، چین، روس، برطانیہ،فرانس اور جرمنی) کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو اگر امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کا نام بھی دے لیا جائے تو کچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا۔ انقلاب کے بعد سے ایرانی رہنمائوں کا بنیادی ہدف امریکہ تھا، وہ اسے رضا شاہ پہلوی کا سرپرست اور رضا شاہ پہلوی کو اس کی کٹھ پتلی قرار دے کر اس کے خلاف شدید جذبات کا اظہار کرتے اور اسے ''شیطانِ بزرگ‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ اسرائیل کی پشت پناہی کے حوالے سے بھی امریکہ تنقید(بلکہ نفرت)کا نشانہ رہا ہے۔ امریکہ نے بھی ایرانی انقلاب کو برسوں دل سے تسلیم نہیں کیا، یہ مسلسل اس کی نگاہوں میں کھٹکتا رہا ہے۔ انقلاب کے آغاز میں امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ ان کی رہائی کے لئے روانہ کیا جانے والا فوجی مشن ناکام ہوا اور امریکی قیادت کی سبکی کا باعث بنا۔ عراق سے جنگ چھڑی تو اس کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ عرب حریفوں کے ہاتھ بھی صاف نہیں تھے۔ یہ جنگ کم و بیش دس سال جاری رہی۔ اس نے ایرانی انقلاب کو ضُعف تو پہنچایا لیکن اس کے دانت کھٹے نہیں کر سکی۔ بالآخر یہ اس طرح بند ہوئی کہ فریقین اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔
کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستانی قیادت کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ کئی گنا بڑے دشمن کا سامنا کرنے کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کی جانی چاہیے، اسی طرح ایران، عراق جنگ نے ایرانی قیادت کو ایٹمی صلاحیت کے حصول کی طرف لگا دیا۔ مشکل یہ تھی کہ شاہ کے دور میں ایران ''این پی ٹی‘‘ پر دستخط کر چکا تھا، اس لئے اس کی ایٹمی تنصیبات کو معائنے سے ''محفوظ‘‘ نہیں رکھا جا سکتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو اول روز ہی سے کہرام مچ جاتا اور وہ پابندیاں فی الفور بروئے کار آ جاتیں جو کئی سال بعد دیکھنے میں آئیں۔ پاکستان نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے تھے، اس لئے اس کا معاملہ کچھ مختلف تھا۔ پھر یہ کہ 1971ء میں بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے اس کے بارے میں ہمدردی بھی پیدا کر رکھی تھی۔ بھارت کے ایٹمی پروگرام کا معاملہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں تھا، اس کی پیش رفت نے پاکستان کی جوابی (دفاعی) کارروائی کی سنگینی کو کم کر دیا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت فوجوں کو واپس دھکیلنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اس اتحاد نے اس کی ''شرارتوں‘‘ کو نظر انداز کرنے کا جواز پیدا کر دیا تھا... بہرحال جو بھی کہا اور لکھا جائے، پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی، جبکہ ایران کے راستے میں گڑھے کھود دیئے گئے۔ امریکہ نے نہ صرف خود پابندیاں عائد کیں، بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو بھی ہم نوا بنایا اور تمام عالمی طاقتیں ایران کو ایٹم بم کے حصول سے روکنے کے لئے سرگرم ہو گئیں۔
ایران تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے، اس کی برآمد پر ہی اس کی معیشت کا انحصار ہے۔ ایران کے ساتھ کاروبار کرنا دوبھر ہوتا چلا گیا، اس کے باشندوں پر سفری پابندیاں عائد ہو گئیں۔ ڈالر کے ذریعے تجارت ممکن نہ رہی تو تیل کی برآمدات ایک تہائی رہ گئیں۔ افراطِ زر میں اضافہ ہوا، ایرانی ریال کی قدر گھٹتی چلی گئی۔ یہ معاملہ کھلتا چلا گیا کہ عالمی طاقتوں سے ''کُٹیّ‘‘ کرکے تیز قدمی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ایک طرف ایرانی قیادت میں مفاہمت کا جذبہ بیدار ہونے لگا تو دوسری طرف امریکی قیادت نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے بات چیت کا راستہ بہتر اور محفوظ سمجھا۔ صدر اوباما اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ طاقت کے استعمال سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ امریکہ کے اندر ری پبلیکن پارٹی کی شدید مخالفت اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی سر توڑی کے باوجود وہ ڈگمگائے نہیں اور بالآخر سوئٹزرلینڈ سے یہ خبر آ گئی کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے لئے ایک فریم ورک پر اتفاق ہو گیا ہے۔ جون کی تیس تاریخ تک تفصیلی معاہدہ طے پا جائے گا، یوں امریکہ اور ایران اپنی اپنی جگہ اطمینان کا سانس لیں گے۔
ایران کے عرب حریفوں میں بھی یہ صورتِ حال پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھی جا رہی، لیکن صدر اوباما کے بقول یہ ڈپلومیسی کی فتح ہے۔ امریکی رائے عامہ کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ایک کے مقابلے میں دو افراد اوباما حکمت عملی کی حمایت کررہے ہیں،جبکہ ایران میں جشن کا سماں ہے۔ وہاں کچھ مخالفانہ صدائیں بلند ہوئی ہیں، لیکن ایرانی وزیر خارجہ اور ان کے نائب جب معاہدے کے بعد تہران پہنچے ہیں تو ان کا پُرجوش استقبال ہوا ہے۔ سڑکیں زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی ہیں اور سوشل میڈیا میں صدر اوباما کو آیت اللہ کا جامہ پہنا کر ان سے محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایران کے مخالفوں کا کہنا ہے کہ اس نے سنٹری فیوجز کی کمی، افزودہ یورینیم اور پلوٹونیم میں تخفیف پر جو اتفاق کیا ہے، وہ وقتی ثابت ہوگا، چپکے چپکے وہ کہیں نہ کہیں ،کچھ نہ کچھ کرتا رہے گا۔ پابندیاں ختم ہونے سے اس کی معاشی طاقت اور صلاحیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اپنے اردگرد کے ممالک میں وہ جنگ جوئوں کی جو مبینہ سرپرستی کررہا ہے، اس میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے حریف عرب ممالک بھی ایٹمی صلاحیت کے حصول کی کوششوں میں لگ جائیں گے،یوں امن کے امکانات بڑھنے کے بجائے کم ہوتے جائیں گے۔ کئی عرب تجزیہ کاروں کے نزدیک ایران کا انقلاب اب شیعہ (یا نیم شیعہ) جنگ جوئوں کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنے کا نام ہو چکا ہے۔
ایران پر لازم ہے کہ وہ ان کے خدشات دور کرے، اگر ''شیطانِ بزرگ‘‘ کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے تو نسبتاً چھوٹے حریفوں کے ساتھ معاملہ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ یمن کے اندر ہونے والی لڑائی کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہونا چاہیے، بعد میں یہ دائرہ شام تک وسیع کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے حالات کی اس تبدیلی سے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ایران سے گیس حاصل کرنے کے منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔ اس سے توانائی کے بحران کو (برق رفتاری سے) کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سعودی عرب اور ایران میں وہ بداعتمادی موجود نہیں تھی، جو اب دیکھنے میں آ رہی ہے۔یہ کوشش کامیاب ہو سکتی ہے کہ دونوں ملک اگر فوری طور پر پُرجوش معانقہ نہیں کر سکتے تو بھی مصافحہ کر لیں اور بالآخر وہیں پہنچ جائیں، جہاں چند عشرے پہلے موجود تھے۔ امریکہ بہادر کے ساتھ ساتھ دوسری عالمی طاقتوں، بالخصوص چین اور پاکستان کو یہ (بظاہر) پہاڑ سر کرنا ہوگا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved