تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-04-2015

ماضی کے مزار

سٹالن ، مائوزے تنگ اور اتاترک کے ورثے سے نجات پا کر چین ، روس اور ترکی نے ترقی کے مراحل طے کیے ۔ ماضی کے ملبے سے نجات پائے بغیر کوئی قوم سرخرو نہیں ہوتی ۔
بدقسمتی سے تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے ۔ بخدا میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا لیکن جھوٹ کی یک طرفہ یلغار۔
جی ہاں ، ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول اور کرشماتی لیڈر تھے ۔ جی ہاں ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد، جب بجھے ہوئے دل مستقبل کے اندیشوں سے لرزتے اور امیدیں مرجھا گئی تھیں ، باقی ماندہ پاکستان کو پائوں پر کھڑا کرنے کی انہوںنے سر توڑ جدوجہد کی ۔ عربوں سے مراسم میں انہو ںنے گہرائی پیدا کی اور چین کے ساتھ پہلے سے چلے آتے تعلقات میں بھی ۔ ایٹمی پروگرام کی انہوں نے بنیاد رکھی۔ عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کا حصول ممکن بنایا۔ ملک کا پہلا متفقہ دستور تشکیل دیا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ بھارت اور امریکہ کو ٹھکانے پر رکھا۔
یہ ان کے کارناموں کی فہرست ہے، حسبِ توفیق ان کے مدّاح جس میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔تصویر کا دوسرارخ یہ ہے کہ آٹھ سال تک وہ پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے ۔ جنوری 1965ء کے جس الیکشن میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو شرمناک دھاندلی سے ہرایا گیا، اس میں وہ ایوب خان کے متبادل امیدوار تھے ۔ حکمران پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے یہ انہی کی تجویز تھی کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو جماعت کا صدر اور ایس ایس پی کو سیکرٹری جنرل بنادیا جائے ۔ وہی تھے، جنہوںنے فوجی حکمران کو ایشیا کا ڈیگال اور صلاح الدین ایوبی قرار دیا۔ صلاح الدین ایوبی کہ عہدِ اوّل کے بعد نہ صرف مسلم تاریخ کے سب سے بہتر حکمران تھے بلکہ سات سو برس گزرجانے کے بعد آج بھی مغرب ان کی اخلاقی بالاتری تسلیم کرتا ہے ۔
معاہدہ تاشقند کے وہ خلاف تھے ، جیسا کہ اکثر پاکستانی ۔اس کے باوجودقومی اسمبلی میں سمجھوتے کے حق میں انہوں نے دلائل کے انبار لگا دیے اور لگائے رکھے تا آنکہ معزول کر دیے گئے ۔
فیلڈ مارشل ایوب خان سے بھٹو کو کیسی شدید نفرت تھی ۔ سابق فوجی حکمران دنیا سے اٹھا تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے انتقال کی خبر نشر کرنے کی اجازت نہ دی گئی ۔ اخبارات کو بتا دیا گیا کہ وہ یہ اطلاع اندر کے صفحے پر ہی شائع کر سکتے ہیں ۔ اس آدمی سے ، جسے اب مٹی اوڑھ لینی تھی ، اس قدر نفرت کا مطلب کیا تھا؟ اس وقت تو انہیں گھن محسوس نہ ہوئی تھی ، جب قوم کی ماں کو اس آدمی نے غدّار کہا تھا۔ تب وہ انتخابی مہم میں اس کے سب سے زیادہ سرگرم ساتھی تھے ۔ بے رحمانہ دھاندلی میں شریک!
اپنے زیرِ اقتدار پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے بھٹو نے دن رات ایک کر دیا مگر کیا پاکستان توڑنے کے عمل میں وہ شریک نہ تھے ؟ اگر ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی وہ مزاحمت نہ کرتے ۔ اگر لاہور کے جلسۂ عام میں وہ یہ نہ کہتے کہ مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ؟ اگر وہ اِدھر ہم، اُدھر تم کا نعرہ بلند نہ کرتے ؟ اور یہ سرخی ان کے مدّاح نے جمائی تھی ، جس نے ان کی موت کے بعد دردناک نظمیں لکھیں اورعنوان اس کا ''ذکر‘‘ رکھا۔ کیا شیخ مجیب الرحمن سے آدھی سیٹیں جیتنے کے باوجود انتقالِ اقتدار کی راہ میں وہ رکاوٹ نہ تھے ؟ اگر وہ لاہور کے چیئرنگ کراس میں یہ نعرہ بلند نہ کرتے کہ سندھ اور پنجاب اقتدار کا سرچشمہ ہیں (اور ان کی چابیاں میری جیب میں ہیں ) تو کیا پاکستان پھر بھی ٹوٹتا؟
سیاست کے سبھی اسرار سے آشنا بھٹو کیا یہ نہ جانتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن ایک متعصب اور نالائق لیڈر ہے ۔ حکومت کرنے کا وہ اہل ہی نہیں ۔ اقتدار ملا تو چند ماہ میں وہ نا مقبول ہو جائے گا ۔ اگر وہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں پر قناعت کرتے ؟ کیا کبھی کسی پارلیمانی جمہوریت میں یہ واقعہ بھی ہواہے کہ اپوزیشن لیڈر نے ایسے الیکشن کے بعد اقتدار میں حصہ طلب کیا ہو، جو خود اس کے نزدیک پوری طرح منصفانہ ہو ؟ اس کے باوجود اگر انہیں ایک مثالی جمہوری لیڈر قرار دیا جاتا ہے تو کیا عرض کیجیے ؟
جی ہاں ،انہوں نے ایک شاندار متفقہ دستور مرتب کیا مگر چند ہی دن کے بعد اس میں چھ عدد ترامیم کر دیں۔ بنیادی حقوق معطل کیے اور ایمرجنسی نافذ کر دی۔ کیا کبھی کسی دستور کے خالق نے خود اپنے آئین کے ساتھ یہ سلوک کیا ہوگا؟
بہت ادب کے ساتھ ان کے مدّاحوں سے سوال یہ ہے کہ کیا آزادیٔ صحافت جمہوریت کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ نہیں ؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صحافت آزاد تھی ؟ اخبارات کی فائلیں موجود ہیں ۔ دو چار ماہ میں کبھی ایک آدھ بار ہی کسی اپوزیشن لیڈر کی خبر دو کالمی چھپی ہوگی ۔ عام طور پر اندر کے صفحے پر سنگل کالمی ۔ وزارتِ اطلاعات کے دفاتر سے اخبار کے ایڈیٹر نہیں بلکہ نیوزروم کو براہِ راست فون کیا جاتا کہ فلاں خبر روک دی جائے اورفلاں بیان نمایاں طور پر چھاپا جائے ۔ مجیب الرحمٰن شامی اور قریشی برادران ہی نہیں ، حسین نقی بھی جیل بھیجے گئے ۔ فائلیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں کہ آج کے مقابلے میں ان کی تنقید کس قد رمحتاط اور مدھم تھی ۔ اس کے باوجود قریشی برادران اورمدیرِ جسارت محمد صلاح الدین کو ان کے اقتدار کابیشتر حصہ جیل میں بتانا پڑا۔ جسارت اور ڈیلی سَن سمیت کتنے ہی اخبارات اور مجیب شامی کی ادارت میں شائع ہونے والے کتنے ہی ہفت روزے بند کر دیے گئے ۔ لاہور پریس کلب کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے کہا تھا : آپ آزاد ہیں کہ مفتی محمود پر تنقید کریں ۔ آپ آزاد ہیں کہ میری حکومت کے اچھے اقدامات کی تحسین کریں ۔ اخبارات میں مطبوعہ تقریر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
کالونی ٹیکسٹائل ملز کے 200مزدوروں سمیت احتجاج کرنے والے کم ا ز کم چار سو محنت کش بھٹو کی پولیس نے قتل کیے ۔ کیا ان سے پہلے اور ان کے بعد کے ادوار میں کوئی حکمران اس سفّاکی کا تصور بھی کر سکتا تھا ؟ ڈاکٹر نذیر احمد، خواجہ رفیق ، مولانا شمس الدین ا ور احمد رضا قصوری کے والد قتل کر دیے گئے ۔ ان کے مدّاح کم از کم اتنا ہی کریں کہ کوئی اور قاتل ڈھونڈ نکالیں ۔ کوئی خاندانی دشمنی ، کوئی ذاتی رقیب؟ بھٹو زندہ تھے ،جب نواب محمد اکبر خاں بگٹی نے کہاتھا : بھٹو نے مجھے چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کاحکم دیا تھا مگر میں نے انکار کر دیا۔ بگٹی بھٹو کے مخالف نہیں تھے۔ بلوچستان پر فوج چڑھانے کے بعد انہی کی عنایت سے گورنر بنے تھے ۔ بلوچستان حکومت برطرف کرنے اور بلوچوں کے قتل ِ عام کا جواز کیا تھا؟ بھٹو کے دور میں شاہی قلعے کے تنگ و تاریک تہہ خانے ان کے مخالفین سے آباد رہے ۔ ان میں سے ایک کا نام محمد حنیف رامے تھا۔ دوسرا ، معراج محمد خاں کراچی جیل میں پڑا تھا، جسے انہوں نے اپنا جانشین قرار دیاتھا۔ عبد الولی خان سمیت نیشنل عوامی پارٹی کی پوری قیادت غداری کے الزام میں حیدرآباد جیل میں تھی ۔ انہی میں سے ایک حبیب جالب تھے ۔
1977ء کی انتخابی دھاندلی کے بعد پوری کی پوری سیاسی قیادت گرفتار تھی ؛تاآنکہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ پچاس ہزار سیاسی کارکن ۔ اس الیکشن میں وزیرِ اعظم اور چاروں وزرا اعلیٰ ''بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہو ئے تھے ۔
23مارچ 1977ء کو لیاقت باغ کے جلسۂ عام میں یہ ناچیز بھی موجود تھا، جس پر چاروں طرف سے گولیاں برسائی گئیں ۔ 9عدد لاشیں اٹھاکر ولی خان واپس چلے گئے۔ حیرت ہے کہ درسی کتابوں میں بھارت کے منفی ذکر پر مسلسل ہنگامہ کرنے والے تاریخ کے اس دور کومسخ کرنے پر ہمیشہ مہر لب رہتے ہیں ۔
سٹالن ، مائوزے تنگ اور اتاترک کے ورثے سے نجات پا کر چین ، روس اور ترکی نے ترقی کے مراحل طے کیے ۔ ماضی کے تعصبات سے نجات پائے بغیر کوئی قوم کبھی سرخرو نہیں ہوتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved