تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-04-2015

قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ

وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ فرمایا: تلک الایّام ندا ولہا بین الناس۔ ''یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیا کرتے ہیں‘‘۔ نہیں معلوم تحریکِ انصاف اور متحدہ کی قیادت کو بدلتے ہوئے تقاضوں کا کتنا احساس ہے۔ مگر یہ تو ہم جانتے ہیں کہ قدرت کے اصول دائمی اور اٹل ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ع
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
فی الحال تو کراچی کے سبھی سیاسی کھلاڑی خوف زدہ ہیں۔ 9 اپریل کو عمران خاں این اے 246 کی گلیوں میں گھومیں گے تو پتہ چلے گا کہ فضا کس قدر بدلتی ہے۔
نوڈیرو میں ڈیڑھ دو ہزار کے ''جلسۂ عام‘‘ میں زرداری صاحب نے اعلان کیا کہ وزراء کے حساب کا وقت آ پہنچا ہے۔ کہا کہ اگلی بار اسمبلیوں کے ٹکٹ کارکنوں سے پوچھ کر دیے جائیں گے۔ چونکا دینے والی بات انہوں نے یہ کہی کہ مشکل وقت میں نون لیگ کا وہ ساتھ دیں گے۔ نون لیگ پہ کون سی مشکل آنے والی ہے کہ خود سندھ میں سکڑتی ہوئی پیپلز پارٹی ان کی مدد کرے گی؟ اس بیان کا ترجمہ یہ ہے: میاں صاحب ازراہِ کرم سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے سے گریز کیجیے۔ وزرا کی بدعنوانی کا ذکر شاید بلاول بھٹو کے دبائو کا نتیجہ ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا زرداری صاحب کو سات برس بعد وزراء کے کارناموں کا علم ہوا؟
نائن زیرو سے ہونے والی گرفتاریوں کے بعد بابر غوری کے شادی ہال کا انہدام واضح کرتا ہے کہ رو رعایت کا اب کوئی سوال ہی نہیں۔ شریف حکومت اور عسکری قیادت کا اعتبار دائو پر لگا ہے۔ واپسی کے وہ متحمل نہیں۔ ایم کیو ایم کے گرفتار شدگان میں سے کئی ایک صولت مرزا ایسے انکشافات پر آمادہ ہیں۔ رفتہ رفتہ، بتدریج ماحول بدلتا چلا جائے گا۔ تیس برس کا طویل عرصہ! خوف ایک ایسی چیز ہے، رفتہ رفتہ جو ہڈیوں میں جم جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے ہی پگھل سکتی ہے۔
دبائو سندھ حکومت پر بھی بہت ہے۔ چار شادی ہال ہی مسمار نہیں ہوئے، شرجیل میمن کے محکمۂ بلدیات سے ہر روز تین چار سو ایسے ملازم برطرف کیے جا رہے ہیں، گھر بیٹھے ہر ماہ جو تنخواہ وصول کیا کرتے اور اوورٹائم بھی۔ واٹر بورڈ سمیت مختلف اداروں میں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اب بھی وہ انتخابی مہم کے لیے دستیاب ہوں گے‘ لیکن پریشاں روزگار‘ لیکن آشفتہ مو۔ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا بے روزگار کس طرح کی مہم چلایا کرتے ہیں۔ یہ سوال ان کے ذہنوں پر سوار رہے گا کہ برطرفیوں پر ہی اکتفا ہو گا یا مفت کا پیسہ واپس بھی لیا جائے گا۔ کراچی کے ایک سینئر اخبار نویس نے کہا کہ پندرہ بیس برس میں بابر غوری کے شادی ہال سے لگ بھگ ایک ارب کی آمدن ہوئی ہو گی، اس کا کیا ہو گا؟ سینکڑوں ایسے ہال ہیں اور برسبیلِ تذکرہ یہ کہ ان میں ہمارے اخبار نویس بھائی بھی شامل ہیں۔ بہتی گنگا میں بہت سوں نے ہاتھ دھوئے۔ ایک ایک چہرے کی رونمائی ہونے والی ہے۔ رینجرز کی قیادت کو پچھلے چند دنوں اس اخبار نویس نے بہت پُراعتماد پایا۔
ہفتہ کی شام دنیا ٹی وی کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں ناچیز نے عرض کیا تھا کہ دھونس اور دھاندلی کی گنجائش کم ہے۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار عمران اسمٰعیل فتح یاب ہو سکتے ہیں یا چند ہزار ووٹوں سے ہاریں گے۔ حبیب اکرم سے اس پر میں نے شرط بھی لگا لی کہ میرا اندازہ اگر نادرست ہوا تو پروگرام کے پورے سٹاف کو پنج ستارہ ہوٹل میں، میں کھانا کھلائوں گا۔ سوشل میڈیا پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ گئی ہے جو شاید 23 اپریل تک جاری رہے۔
2013ء میں پی ٹی آئی نے ایک گمنام مسیحی نوجوان کو ٹکٹ دیا تھا۔ اس کے باوجود اکتیس ہزار ووٹ وہ لے گیا تھا۔ اگر یہ ایک معروف مسلمان امیدوار ہوتا؟ ڈاکٹر علوی کی کامیابی سے لے کر دھرنا تحریک کے دوران عمران خان کے عظیم جلسہء عام اور اب دونوں پارٹیوں کے درمیان جاری مسلسل تصادم سے کس کو فائدہ پہنچا ہے؟ ایم کیو ایم نے بہت کچھ ہار دیا ہے اور پی ٹی آئی نے اس اثنا میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔
گیارہ بجے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے کے باوجود جماعتِ اسلامی کے راشد نسیم کو دس ہزار ووٹ ملے تھے۔ شام پانچ بجے تک کتنے ہو جاتے؟ کم از کم پچیس ہزار۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنی انتخابی مہم آزادی سے چلا سکے اور نہ تحریکِ انصاف، جس کے امیدوار کا تعارف تک نہ تھا۔ پشتون ووٹروں کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ کس کے حق میں وہ بروئے کار آئیں گے۔ پنجابیوں، سندھیوں اور بلوچوں میں سے ہر ایک کی آبادی دس سے پندرہ ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ کریم آباد اور جناح گرائونڈ والے واقعات کے بعد مظلومیت کا عنصر کس کے حق میں ہو گا؟ ایم کیو ایم کے امیدوار کا تعلق کراچی نہیں، حیدر آباد سے ہے۔ اپنے لب و لہجے اور انداز و اطوار سے عمران اسمٰعیل کراچی والے زیادہ لگتے ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی زیادہ ہیں۔ ابلاغ بھی زیادہ؛ اگرچہ ابھی وہ اس قدر کھل کر اور ڈٹ کر بات نہیں کرتے، جس طرح کہ کرنی چاہیے۔ ایم کیو ایم کے کنور نوید کا روّیہ یکسر معذرت خواہانہ ہے۔ ذہناً ابھی تک وہ حیدر آباد کی ریشم گلی میں گھوم رہے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے امیدوار کی دستبرداری اور گھر گھر دستک دینے پر پی ٹی آئی کی کامیابی کا انحصار ہے۔ جماعتِ اسلامی کیوں دستبردار ہو؟ پچاس برس انہوں نے ریاضت کی۔ شہیدوں کے جنازے اٹھائے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ زخم کھا کر صبر کا ایسا مظاہر ہ کیا کہ تاریخ میں اس کی مثالیں کم ہوں گی۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو دفن کر کے دل و جاں کو سنبھالے رکھنا سہل نہیں ہوتا۔ وہی جانتے ہیں کہ جن پر بیت جاتی ہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ اس کا امیدوار کامیاب ہو نہیں سکتا۔ مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ دستبرداری کی صورت میں گویا اپنا اثاثہ وہ کھو دے گی۔ تحریکِ انصاف کے لیڈروں کو احساس ہونا چاہیے۔ جیسا کہ کپتان سے میں نے کہا، اسے قول دینا چاہیے کہ آئندہ الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹیں جماعتِ اسلامی کی ہوں گی۔ کچھ اس کے علاوہ بھی۔ سیاست میں آخری چیز اپنی پارٹی کا مفاد ہوا کرتا ہے۔ آسانی سے کوئی قربان نہیں کیا کرتا۔ کراچی میں ان دونوں جماعتوں کے مستقبل کا انحصار آج کے باہمی تعاون اور اعتماد پر ہے۔ سودے بازی نہیں بلکہ کسی بلند مقصد کے لیے ایثار زندگی کو ثمربار اور سرخرو کرتا ہے۔
دھاندلی کا امکان بہت کم ہے۔ ووٹروں کے شناختی کارڈ جمع نہ کیے جا سکیں گے۔ پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ اور ڈبے تبدیل کرنے کی جرأت اب کوئی نہ کرے گا۔ رینجرز اگر مقرر کر دیے گئے اور کرنا پڑیں گے تو باقی ماندہ دہشت بھی تمام ہو جائے گی۔ سندھ حکومت فریق بن کر اپنا منہ کالا نہ کرے گی۔ کراچی میں لیاری کے سوا پیپلز پارٹی کا تو اب کوئی مستقبل ہی نہیں۔ موجودہ اندازِ اقتدار کے ساتھ تو پورے سندھ ہی میں نہیں۔ رینجرز کی تعینات کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی قیادت کا بھرم خطرے میں ہے۔ حماقت کا ارتکاب کرنے کی وہ متحمل نہ ہو گی۔
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ فرمایا: تلک الایّام ندا ولہا بین الناس۔ ''یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیا کرتے ہیں‘‘۔ نہیں معلوم تحریکِ انصاف اور متحدہ کی قیادت کو بدلتے ہوئے تقاضوں کا کتنا احساس ہے۔ مگر یہ تو ہم جانتے ہیں کہ قدرت کے اصول دائمی اور اٹل ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ع
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved