پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال ہونے کو ہیں ، لیکن اب تک کوئی مستقل وزیرِخارجہ مقرر نہیں ہوسکا، غیرمنتخب مشیروں سے کام چلایا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ سے حکومت گریزاں رہتی ہے، اس لیے وہاں اہم پالیسی اُمور پر بھرپور بحث وتمحیص نہیں ہوتی۔ وزراء اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے، اس لیے اکثر فورم ناتمام رہتا ہے۔ صرف دھرنوں کے دوران کہ جب حکومت اور خود پارلیمنٹ کے وجود کو خطرہ دَرپیش تھا، وزیر اعظم بھی ایک سے زائد بار پارلیمنٹ میں نظر آئے اوراس پر چودھری اعتراز احسن نے ناخلَف و نافرمان بیٹے کے ماں کو یاد کرنے پر ماں کی طرف سے تھانیدار کا شکریہ ادا کرنے کی پھبتی کسی اور اس استعارے میں تھانیدار اہلِ دھرنا تھے۔
عام طور پر خارجہ پالیسی اور بین الممالک تعلقات میں بعض حسّاس معاملات پس پردہ زیرِ بحث آتے ہیں، بلاضرورت منظرِ عام پر نہیں لائے جاتے، لیکن ہمارے حکمران ماشاء اللہ اس حکمت وبصیرت سے بالعموم عاری ہوتے ہیں ، کسی مسئلے کا فوری کریڈٹ لینے کے لیے اُسے طشت اَز بام کردیتے ہیں اور پھر جب منفی ردِّ عمل سامنے آتا ہے تو چوکڑی بھول جاتے ہیں۔ سعودی عرب ـ یمن کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا وزیراعظم نواز شریف کو فون آیا اور اسے میڈیا میں نشر کردیا گیا، اگلے روز وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ایک اجلاس دکھایا گیا جس میں وزیر اعظم کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ایئر اسٹاف، وزیرداخلہ اور مشیرانِ خارجہ دکھائے گئے ، جس سے یہ واضح پیغام دیا گیا کہ سعودی بادشاہ کی جانب سے فوجی امداد کی درخواست دی گئی تھی اور اس کی عملی صورت گری کے لیے یہ اجلاس منعقد ہوا۔ یہ تأثر بھی دیا گیا کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد فوری طور پر سعودی عرب کا دورہ کرے گا۔ اس کے بعد سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے منفی ردِّ عمل آنا شروع ہوا اور حکومت آئیں بائیں شائیں کرنے لگی۔
یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ اپنی معاشی مجبوریوں اور پٹرول کی ضروریات کے سبب پاکستان ہمیشہ کسی نہ کسی طور پر سعودی عرب کے زیرِ اثر رہتا ہے اور موجودہ حکمرانوں کی عقیدت ووفا کا رشتہ اس سے بھی سوا ہے اور اس کی وجہ سب کو معلوم ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر نقد امداد بھی دے چکا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ کسی نہ کسی درجے کا فوجی تعاون بھی ، خواہ مسلح افواج کے ٹروپس کی شکل میں ہو یا فوجی ٹریننگ کی صورت میں، سعودی عرب کو بالعموم حاصل رہتا ہے۔ ہمارے بعض ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی جوان اور افسران بھی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ معمول کی صورتِ حال ہوتی ہے، اس لیے اسے ایک مسلّمہ حقیقت یا روایت کا درجہ حاصل ہے اور یہ کبھی زیربحث نہیں آتی۔
لیکن موجودہ صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ سعودی عرب نے اپنے قومی مفادات کے تحت یمن میں باقاعدہ فوجی مداخلت شروع کررکھی ہے اور تا حال یہ فضائی حملوں تک محدود ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ جنگ شروع کرنا تو اپنے اختیار میں ہوتاہے، مگر اس کا اختتام بعض اوقات اپنے اختیار میں نہیں رہتا، بطورِ خاص کسی ملک میں داخلی بغاوت یا گوریلا جنگ کی صورت میں سلسلہ طوالت ہی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی سرحد یمن کے ساتھ ملحق ہے اور اسے یقینا خدشہ ہوگا کہ خدانخواستہ یہ آگ اس کے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے، خواہ اس کی صورت کوئی بھی ہو، لہٰذا سعودی عرب یمن کی خانہ جنگی میں اپنے علاقائی اور قومی مفاد کے حوالے سے متفکر ہے۔ سعودی عرب کا ایک تضاد یہ ہے کہ بعض ممالک میں وہ ریاست کے خلاف باغیوں یا حریت پسندوں کی مادّی واخلاقی مدد بھی کرتا ہے، لیکن اب یہی ''جہادی‘‘ یا آمادۂ بغاوت طبقات بٹ چکے ہیں ، ان کے اپنے اپنے گروپ اور اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ اور ایک گروپ دولتِ اسلامیہ عراق وشام یعنی داعش (ISIS) تو خلافتِ اسلامیہ کا مدعی ہے اور وہ تمام مسلم حکمرانوں کا مخالف ہے۔ القاعدہ کا ایجنڈا الگ ہے اور النصرہ شام میں سعودی عرب کے زیرِ اثر مصروفِ پیکار ہے۔ آج کل سعودی علماء ، حرمین طیبین کے اَئمہ اور سرکاری دارالافتاء کے سربراہ داعش اور القاعدہ کو خارجی ، تکفیری اور گمراہ ٹولہ قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن جب تک انہی نظریات کے حامل گروپ صرف پاکستان اور افغانستان میں مصروف پیکار تھے، سعودی عرب سے یہ فتوے جاری نہیں ہوئے تھے، بلکہ کسی حدتک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر ان کے لیے پسندیدگی کا گوشہ موجود تھا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی تضاد کا شکار ہیں۔ اوّلاً تو انہوں نے حکومت کی پالیسی اوریمن کی جنگ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ حصہ لینے کی شدت سے مخالفت شروع کردی، مگراب ذو معنی بیانات دیے جارہے ہیں ، جنگ میں ملوّث ہونے کی مخالفت کا تأثر بھی دیا جاتا ہے اور سعودی عرب سے محبت اور قریبی دوستی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے، یعنی پیٹ کھاتا ہے اور آنکھیں شرماتی ہیں ، طے نہیں کر پا رہے کہ دل کا فیصلہ قبول کریں یا شکم پروری کو ترجیح دیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا ؎
دل کی آزادی شہنشاہی ، شِکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا، ترے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شِکم
سو ، زیادہ احتیاط پر مبنی مشورہ یہ ہے کہ ملک کے پارلیمانی سیاسی قائدین بند کمرے میں(In Camera) اجلاس منعقد کریں اور اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر ٹھنڈے دل سے غورکریں اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد شخصی تعلقات اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر دینی ، ملّی اور ملکی وقومی مفاد میں فیصلے کریں۔
سعودی عرب کے دفاع یا داخلی سلامتی کے لیے پاکستان کا دفاعی تعاون تو شایدکسی نہ کسی درجے میں سب یا اکثرسیاسی جماعتوں کو قابلِ قبول ہوگا، مگر سعودی عرب کی خاطر یمن کی خانہ جنگی میںبراہِ راست شامل ہونا پاکستان کے لیے منفی نتائج کا حامل ہوسکتا ہے اوراس سے قریبی پڑوسی ایران کے ساتھ بھی تعلقات کا متاثر ہونا ناگزیز ہے، کیونکہ ایران اپنے آپ کومشرقِ وسطیٰ کا بڑا Stakeholder سمجھتا ہے اور وہ وہاں کے تنازعات میں بالواسطہ طور پر ملوّث بھی ہے اور تیل وگیس کے وافر ذخائر کی وجہ سے وہ اس کا متحمل بھی ہوسکتا ہے، یعنی Affordکرسکتا ہے، جبکہ ہماری معاشی حالت کمزور ہے، ابھی ہم معاشی خود کفالت کی منزل میں داخل نہیں ہوئے۔ حال ہی میں ایران کے ایک سابق قومی سلامتی کے مشیر نے عظیم تر ایران کی بات کی ہے، جس میں مشرقِ وسطیٰ کا بڑا حصہ شامل ہے۔
اس لیے بہتر یہ ہے کہ پاکستان کو مسئلے کا حصہ بننے اور الجھاؤ پیدا کرنے کی بجائے اُس کے حل کا حصہ بننا چاہیے اور اس سلسلے میں ایران سے روابط قائم کرکے کوئی درمیانی صورت نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ بعض اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ اس موقع پر ''تحفظِ حرمین طیبین‘‘ کے نام سے تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حضرات وہاں جاکر جہاد کریں گے،کیا حرمین طیبین پرکہیں سے حملے کی دھمکی ملی ہے؟ الغرض ہمیں حرکت وعمل کا ہر وقت کوئی تازہ عنوان چاہیے۔ پرائیویٹ جہاد کے دروازے تو اب ہر وقت اور ہر جگہ کھلے ہیں ، اب تو اخبارات میں امریکی طالبان، برطانوی طالبان، فرانسیسی طالبان اور مختلف الاقوام طالبان کے نام بھی پڑھنے کو ملتے ہیں اور حرمین طیبین کے نام میں تو بڑی جاذبیت اور جذباتیت کا سامان موجود ہے۔ سعودی عرب کو ایک ریکروٹنگ آفس کھول دینا چاہیے، مگر ایسا نہ ہوکہ وہاں جاکر Back Fire ہوجائے، کیونکہ اس جِنّ کو ہر وقت کوئی کام چاہیے۔ سعودی عرب کی حکومت اور وہاں کے علماء سے نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ حضورِ والا ؎
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
آپ اگر پورمی اُمّتِ مسلمہ کے لیے عقیدت واحترام کا مرکزبننا چاہتے ہیں تو ایک خاص مسلک اور مکتبۂ فکر کی پروموشن کو ترک کردیجیے، حرمین طیبین میں آپ نے ہر ملک سے جو ایک خاص مسلکی ومذہبی نظریے کے حامل مراقبین (CID)کی فوج ظفر موج بھرتی کررکھی ہے، اُن کے حصار سے نکلیے، یہی لوگ ہیں جو آپ اور اُمّت کے دیگر مذہبی طبقات میں دوریاں بلکہ منافرت پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔کم ازکم عالمی سطح پر ''اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ ہی کو کسی برانڈ کے بغیر قبول کرلیجیے تاکہ آپ کے لیے ہر ایک کے دل میں احترام کے جذبات موج زن ہوں۔
چند سال پہلے ملک عبداللہ نے سعودی عرب میں ایک بین المسالک (Intra Faith) مکالمہ منعقد کیا، اس میں پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش، اور ایران تک سے اہلِ حدیث ، دیوبندی ، جماعتِ اسلامی اور اہلِ تشیُّع کے علماء کو شرکت کی دعوت دی، لیکن اس پورے خطے میں اہل السنۃ والجماعۃ کو مکمل طور پر نظر اندازکیا۔ سعودی سفارت خانے اور قونصلیٹ کے اربابِ اقتدارکو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔