تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-04-2015

سکھا شاہی اور کیا ہوتی ہے؟

ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے مقتدر ایوان میں فرائض سر انجام دینے والے ایک اعلیٰ ترین افسر نے اپنے حاکم کی خواہشات کی تکمیل کرتے ہوئے منہاج القران ماڈل ٹائون کے باہر تجاوزات گرانے کے آپریشن کا مبینہ طور پر حکم جا ری کیا جس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر اس بے رحمی سے ریاستی طاقت استعمال کی گئی کہ بارہ مرد اور دو خواتین ،شہید کر دیئے گئے ۔ گولیوں کے برسٹ سے شہید کی جانے والی ایک خاتون کے پیٹ میں پرورش پانے والی ایک معصوم جان بھی اپنی ماں کے ساتھ ہی اس ظلم و بر بریت کا نشانہ بن گئی ۔اس آپریشن میں پولیس کی براہ راست گولیوں سے زخمی ہونے والے83 کے قریب نوجوان اور بوڑھے موت و حیات کی کشمکش میں ہسپتالوں اور ان کی راہداریوں میں دن گزارتے رہے اور ان میں سے کئی زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو گئے۔
پاکستان اور دنیا بھر میں اس قتل عام پر اک کہرام مچ گیا ۔ہر گھر اور ہر آنکھ سوائے نمک خواروں کے اشک بار ہو گئی ۔ خوف خدا سے عاری چند گھروں کے سوا باقی ہر گھر میں صف ماتم سی بچھ گئی۔ چند ماہ بعد ا سلام آباد میں اس قتل عام کے ذمہ داروں کو حکومت سے مستعفی ہونے اور انہیں اس جرم عظیم کی سزا دینے کا مطالبہ کرنے کیلئے دو الگ الگ دھرنے دیئے گئے جن میں ملک بھر سے لوگ شرکت کر نے کیلئے آتے رہے ۔حکمران اتحاد میں شامل کسی نے بھی ان دھرنے والوں کے مطا لبات پر دھیان دینے کی بجائے ان کے خلاف اسی طرح کی طاقت کے استعمال کرنے کا ارادہ کر لیا جیسے منہاج القران ماڈل ٹائون لاہور میں کرایا تھا ۔ جب اقتدار کے بلند و بالا ایوانوں سے یہ حکم شاہی صادر ہوا تو اس
پر عمل کرنے والوں نے کہا : '' جناب عالی !قانون کے مطا بق آپ کو ہمیں اس کارروائی کیلئے زبانی نہیں بلکہ تحریری طور پر لکھ دیناچاہیے ‘‘۔یہ گستاخی اور جرأت کرنے والے پولیس افسر کا نام محمد علی نیکو کارا ہے ۔ محمد علی نیکوکارا اس وقت اسلام آباد پولیس میں بطور ایس ایس پی آپریشن اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے حکمرانوں کو مشورہ دیتے ہوئے درخواست کی کہ '' جناب والا !دارالحکومت میں اگر اس وسیع پیمانے پر لاٹھی چارج اور اس کے بعد ہوائی فائرنگ کی گئی تو اس سے دارلحکومت اور ملک بھر میں شدید رد عمل ہونے سے صورت حال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ ہے کیونکہ لاٹھی چارج ، آنسو گیس اور ہوائی فائر نگ سے لوگ ہلاک اور زخمی ہوں گے اورجو باقی ادھر ادھر بھاگیں گے تو اس مشتعل ہجوم کا رخ کسی بھی جانب مڑ سکتا ہے، قریب ہی وزیر اعظم ہائوس، ایوان صدر اورڈپلو میٹک انکلیو جیسے انتہائی حساس اور سپریم کورٹ جیسے اہم ادارے ہیں، جب ہر طرف لوگ پولیس کے تشدد سے زخمی ہوں گے تو حالات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم لوگ انہیں ڈائیلاگ سے انگیج کر لیتے ہیں‘ پھر بھی اگر آپ چاہتے ہیں کہ طاقت ہی استعمال کرنی ہے تو پھر میری گذارش ہے کہ اس کیلئے ہمیں زبانی نہیں بلکہ تحریری حکم جاری کیا جائے کیونکہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا اور سفارت خانے ان ہلاکتوں اور املاک کی تباہی کی اس وسیع پیمانے پر تشہیر کرے گاکہ سب کیلئے مسائل کھڑے ہوجائیں گے ‘‘۔اسلام آباد پولیس کے سامنے تین ماہ قبل ماڈل ٹائون لاہور کا واقعہ تھا ،جس کی پنجاب
حکومت ذمہ داری لینے سے انکاری ہو چکی تھی اور اس آپریشن میں حصہ لینے والے پانچ کے قریب پولیس افسران کی مثال سب کے سامنے تھی... اور پھر محمد علی نیکو کارا نے حکمرانوں کی جانب سے دھرنے والوں کو کچلنے کیلئے ریاست کے زبانی احکامات کی تعمیل سے معذرت کر تے ہوئے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پھر فائرنگ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا... پاکستان کے ایک با اختیار سرکاری اہل کار نے بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے احکامات کی تعمیل کی اور سزا کا مستحق ٹھہرا دیا گیا اور دوسرے نے جناحؒ کے احکامات کو پائوں تلے روند تے ہوئے پاکستانیوں ہی کے خون کا دریا بہا دیا اور وہ اسی پاکستان کے آج کے حکمرانوں کی نظر میں سب سے پیارا اور فرمانبردار ہو کر انعام و اکرام کا حق دار ٹھہرا۔
منہاج القران کے باہر عدالتی حکم پر لگائے گئے بیرئرزکو غیر قانونی طور گرانے کیلئے دیئے جانے والے زبانی احکامات کی تکمیل کرتے ہوئے ماڈل ٹائون میں بارہ مردوں اور دو خواتین سمیت ماںکے پیٹ میں پرورش پانے والی ایک ننھی جان کو گولیوں سے بھوننے والوں میں سے ایک کو اس کارہائے نمایاں کے سر انجام دینے پر حکمرانوں کی جانب سے انعام و کرام کی بارش کرتے ہوئے ترقیوں سے نوازتے ہوئے جنیوا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں پاکستان کی جانب سے سفیر کے فرائض سونپ دیئے گئے اور ایس ایس پی محمد علی نیکو کارا ،جس نے انسانی جانوں سے کھیلنے سے معذرت کی تھی ،اسے حکم شاہی سے پولیس کی ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا۔
محمد علی نیکوکارا اور توقیر شاہ دو نام نہیں بلکہ دو کردار ہیں ،جن میں سے ایک اخلاقی اقدار کی تکمیل کرتے ہوئے ہمیشہ سے ہی وقتی مشکلات کا شکار ہوتا چلا آ رہا ہے تو دوسرا ہر ناجائز حکم کے سامنے سر جھکاتے ہوئے ہر طرح کے عیش و آرام کے مزے لوٹتا ہے ،لیکن حق کی راہ پر چلنے والوں کو مصائب اور وقت کے ہر ظالم کے ظلم کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اور یہی اس کا امتحان ہوتا ہے لیکن صبر سے اس کا مقابلہ کرنے والے کو دین اور دنیا کی ہر نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے اور یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ احکامات قران ہیں، اور وہ لوگ جو ہر بت کو اپنا خدا مانتے ہیں ،مخلوق خدا کو ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں ،ان کی رسی دراز تو کی جاتی ہے لیکن بالآخر اسے
عذاب عظیم کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہی انسان کو آخرت میںملنے والا صلہ ہے اور یہی اس کا امتحان ہے۔ اگر کسی کو بھی آخرت اور انعام الٰہی کا اس دنیا میں نظارہ کرنا ہو تو زبان خلق کی طرف سے محمد علی نیکو کارا کیلئے ادا کیے جانے والے الفاظ سامنے رکھ لے اور سفیر بن کر ترقی پانے والے توقیر شاہ کو دنیا جس طرح'' خراج تحسین‘‘ پیش کر رہی ہے وہ سامنے رکھ لے۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں محمد علی نیکو کارا ایک نام نہیںبلکہ ایک کردار ہے جو تاریخ میں ہمیشہ امر رہتا ہے نیکوکارا وہ پھول ہے جس کا حسن دیکھنے والوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ یہ پھول ہے اور دوسری طرف کانٹے کو آپ پھول سے چاہے جتنی بھی تشبیہ دے لیں وہ پھول نہیں بن سکتا۔ وہ بے شک پھولوں کے ارد گرد رہتا ہے لیکن نہ دیکھنے والوں کیلئے اور نہ ہی اسے اگانے والوں کیلئے اس کی خاصیت بدلنے کی طاقت اور صلاحیت ہے ،وہ بہر صورت کانٹا ہی رہے گا۔ایک مشہور کہاوت ہے کہ مشک وہ ہے جو خود اپنے مشک ہونے کا اعلان کرے ،عطار کی طرف سے اس کی حقیقت کی تشہیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مشک کو آپ کوئی اور نام دے دیں اس کی خاصیت اور خوشبو میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اس کو بے شک بد خواہ یا خوشبو سے نفرت کرنے والے کسی بھی کمتر نام سے یاد کریں ،مشک مشک ہی رہے گا کیونکہ وہ پھول کا حسن ہوتا ہے۔
محمد علی نیکو کارا کو آج پولیس سروس سے ایک سکھا شاہی حکم سے فارغ کر دیا گیا ہے اور دوسرے سکھا شاہی فرمان سے توقیر شاہ کو سفیر کے عہدہ جلیلہ پر فائز کر دیا گیا ہے لیکن یاد رکھیں نیکو کارا پھول ہے اور ہمیشہ پھول ہی رہے گا، کانٹا نہیں بنے گا!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved