تین سال ہوتے ہیں کہ بلاول ہاؤس لاہورکے ایک وسیع ہال میں لگی میزوں کے گرد بیٹھے صحافی ہمہ تن گوش ہو کر اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی باتیں سن رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی برآمدات بڑھانا ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر ہے۔وہ فرما رہے تھے کہ ''میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کی برآمدات میں بیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوجائے ، کیونکہ اسی طرح ہم اپنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں ‘‘۔جب زرداری صاحب نے اپنی تقریر ختم کی اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میرے ساتھ بیٹھے عمر شامی نے صدر صاحب سے پوچھا، ''جناب صدر برآمدات میں بیس ارب ڈالر اضافے کے لیے کوئی منصوبہ بندی آپ نے کی ہے؟‘‘۔ سرِ صدارت اثبات میں ہلا کر فرمایا ،'' پاکستان سے سبزیوں اور پھلوں کی برآمد کے بڑے امکانات ہیں اور ہم اس بارے میں کام کررہے ہیں‘‘۔ ان کا جواب سن کر عمر شامی نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی اور میں منہ نیچے کرکے اپنا ضبط آزمانے لگا۔ ہمارے ہنسنے کی وجہ یہ تھی کہ جناب صدرجس مقدار میں سبزیوں اور پھلوں کی برآمد کی بات کررہے ہیں، اتنی تو ہماری پیداوار بھی نہیں ہے۔ پھر سبزیاں پھل تو دور کی بات اگر پاکستان اپنی ہر قسم کی پیداوار شامل کرکے بھی اپنی برآمدات بیس ارب ڈالربڑھانا چاہے تو اس کے لیے کم ازکم دس سال کی ٹھوس منصوبہ بندی اور اس پر مسلسل کام کی ضرورت ہے جبکہ زرداری صاحب کی حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں صرف ایک سال باقی تھا۔ اس آخری سال میں انہیں
سیاست سے ہی فرصت نہیں ملنی تھی چہ جائیکہ وہ برآمدات بڑھانے جیسامحنت طلب کام کرنے کی کوشش کرتے۔ بہرحال صدر جو بھی ہو، صدر ہوتا ہے ،اس کی بات کا احترام ہر قانون پسند شخص پر لازم ہے۔ اس لیے ہم نے عہدۂ صدارت کے احترام میں ان کی بات کو جھٹلانے کی ہمت نہیں کی۔ مگر کیا کریں کہ وقت اتنا ظالم ہے کہ صدر مملکت سے بھی بدلحاظی کرنے سے نہیں شرماتا۔ وقت نے ہی ثابت کردیا کہ صدر صاحب نے جو کچھ کہا، اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ انہوںنے بس یونہی ایک بات کردی تھی اور ہم نے سن لی تھی۔ وہ اس بارے میں سنجیدہ تھے، نہ ان کی حکومت کو کوئی پروا تھی ، نہ کسی اور نے ان کی بات کو دل پر لیا تھا۔ ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی گورننس اور معیشت کی درستگی میں کتنی مہارت رکھتی ہے اس کے لیے کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ غیر حقیقی منصوبے، بدعنوانی اور جمہوریت کی حفاظت کے زعم کے امراض اسے آج سے لاحق نہیں ہوئے بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بے پناہ سیاسی شعور کے باوجود پیپلزپارٹی نے کبھی انتظامی سطح پر معاملات کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خود کو خارجہ پالیسی اور سیاست تک ہی محدود رکھا جبکہ انتظامی امور ایسے نا تجربہ کار وزراء پر چھوڑ دیے جو حکومت تو کیا کوئی چھوٹا سا دفتر چلانے کی صلاحیت سے بھی
عاری تھے۔ اسی روایت پر محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں چلتی رہیں اور صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں چلنے والی حکومت کی انتظامی امورسے دلچسپی صرف وہاں تک رہی جہاں سے کچھ مال و منال بن سکتا تھا ورنہ بے عملی کی کیفیت ہر طرف طاری رہی۔
2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو نا اہلیت کے مظاہرے کی سزا کے ساتھ ساتھ سندھ کی حکومت بھی ملی تو توقع تھی کہ اب یہ جماعت خود کو سنبھال کر اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے گورننس کی ایک مثال قائم کرے گی، لیکن کچھ بھی نہ ہوا اور اس کے لچھن وہی رہے جوماضی میں تھے ۔ گمان ہوا کہ شاید 2018ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور بھٹو قصہ ٔپارینہ بن جائیں گے، آخر قوم کب تک بھٹو کا خون بہا ادا کرتی رہے گی۔ یہ گمان یقین میں بدل گیا جب پیپلزپارٹی کے ایک سابق وفاقی وزیر سے کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی۔ ان وزیرصاحب کا نام بتانا تو مناسب نہیں مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اپنی طلاقتِ لسانی اور قادرالکلامی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ دانشور ایسے ہیں کہ اپنی پارٹی کے کمزور ترین مؤقف کے لیے بھی دلائل تراش لیتے ہیں۔ ان صاحب سے گفتگو ہوئی تو بات سندھ میں ان کی جماعت کی کارکردگی پر آ پہنچی۔ اس پروہ کہنے لگے کہ پیپلزپارٹی کو لوگ اس کی کارکردگی کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے ،بلکہ نظریے کی وجہ سے دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ پیپلز پارٹی کی 2013ء کے الیکشن میں شکست کی وجہ ہرگز اس کی خراب کارکردگی نہیں بلکہ کارکنوں کی لا تعلقی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ حضور دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں نظریات کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بناتی ہیں اس لیے سندھ میں اگر اس بات پر کچھ توجہ کرلی جائے تو یہ پارٹی پنجاب میں بھی زندہ ہوسکتی ہے اور کارکنوں کی لاتعلقی بھی ختم ہوسکتی ہے۔ اس پر وہ بگڑ گئے اور تاریخ کی عجیب و غریب تاویلیں کرکے بتایا کہ جو لوگ پیپلزپارٹی سے اچھی حکمرانی کی توقع کرتے ہیں وہ درحقیقت ملک دشمن ہیں یا متعصب ہیں۔ وزیر چاہے سابق ہی ہو ، اس سے الجھنا مناسب نہیں اس لیے میں ہی خاموش ہوگیا۔ ویسے بھی اس قسم کی کج بحثی پر قرآن نے صرف سلام کہنے کا حکم دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اہلیت کے بارے میں گمان یقین میں بدل چکا تھا اور یقین مستحکم ہونے کو تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی چھتیسویں برسی پر سابق صدر آصف علی زرداری نے وہ کہہ ڈالا جو پیپلزپارٹی کوزندہ دیکھنے والے سننا چاہتے تھے۔ انہوں نے اعتراف کر لیا کہ ان کے وزراء سے عوام کی خدمت نہیں ہوسکی اور موجودہ سندھ حکومت بھی اس حوالے سے کمزوری کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس اعتراف کے بعد ایک بار پھر امید بندھی ہے کہ ماضی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گی۔ زرداری صاحب کا اعتراف اصلاح احوال کی امید تو دلاتا ہے لیکن یقین اسی وقت آئے گا جب وہ سند ھ میں معاملات بہتر بنانے کی کوئی عملی کوشش کریں گے۔ ان کی حکومت کے کئی وزراء پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، سندھ پولیس کے کئی افسراپنی ماہرانہ بددیانتی کی سند بلاول ہاؤس سے منسوب کرتے ہیں، محکمہ مال کا ہر اہلکار کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار کی پشت پناہی کا دعویٰ کرتا ہے اور کچھ منہ پھٹ تو زرداری صاحب کے خاندان تک سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔ اپنے اور اپنی حکومت کے بارے میں اتنے خراب تاثر کو ٹھیک کرنا آسان کام نہیں ، اس کے لیے زرداری صاحب کو بہت کام کرنا ہوگا ۔ وہ جس راستے پر قدم رکھ رہے ہیں ، اتنا آسان نہیں، اس کے لیے انہیں ان روایات سے جان چھڑانا ہوگی جو پیپلزپارٹی کی پہچان رہی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرپائے تو شاید وفاق سے نکلی ہوئی پارٹی صوبائی حکومت سے بھی نکل کر لاڑکانہ اور نواب شاہ کی ضلع کونسلوں تک ہی محدود ہوجائے گی۔