یمن کے حوالے سے حالیہ پیدا ہونے والے بحران سے پہلے کوئی اندازہ کرسکتا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اگرچہ تعلیم کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے ،یمن سے متعلق یہاں کس قدر علم موجود ہے۔ خدا کی پناہ اتنے یمن پر ماہرین تو خود یمن میں نہ ہوں گے اور نہ ہی اتنی تعداد میں یمن پر مبصرین سعودی عرب پیش کرسکتا ہے جو صدیوں سے یمن کا ہمسایہ ہونے کے علاوہ برسوں یمن کا ان داتا بھی بنا رہا۔
موجودہ بحران سے قبل مجھے تو یمن کے بارے میں اتنا ہی پتا تھا کہ یہاں القاعدہ موجود ہے اور امریکہ ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ یمن پر بھی ڈرون حملے کرتا ہے، مگر بھلا ہو ہمارے ہاں کے ان چھپے ہوئے لاتعداد ماہرین کا کہ ان کے طفیل معلوم ہوا کہ کچھ لوگ حوثی بھی کہلاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔بعض ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ زیدی شیعہ ہیں مگر امام ابو حنیفہ ؒکو مانتے ہیں۔ لو بھئی اگر امام ابو حنیفہ ؒکو مانتے ہیں تو پھر فقہ جعفریہ میں ان کو کیسے شمار کریں۔پھر یہ بھی نوید دی گئی کہ حوثیوں کی تحریک کے بڑے لیڈر حسین حوثی زیدی شیعہ تو تھے مگر بعدازاں ایران کے مذہبی اہمیت کے شہر قم میں زیر تعلیم رہنے کے سبب اثنا عشری ہوگئے تھے۔ ان کو '' تھے‘‘ لکھنا بھی زیادتی ہے کیونکہ بعض مبصرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہلاک نہیں ہوئے تھے بلکہ روپوش ہیں۔ہمارے شہر کراچی میں بہت سی قوتیں آباد ہیں مگر معلوم ہوا کہ دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں ایک حوثی تک موجود نہیں ہے جس سے رابطہ کرکے براہ راست معلومات مل سکتی ہوں۔ ہمارے جو پاکستانی بھائی یمن سے بحفاظت واپس لائے گئے ہیں وہ یمن کے بارے میں جو باتیں بتاتے ہیں وہ بھی صورتحال کو واضح نہیں کرتیں۔
جہاں تک تاریخی پس منظر کا تعلق ہے تو اس پہلو سے بھی ہمارے تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں نے ہمیں بے اندازہ معلومات فراہم کردی ہیں۔ یمن میں اسلام کی آمد کے وقت کی صورتحال سے لے کر خلافت عثمانیہ اور پھر برطانوی تسلط سے جدید دور تک جو کچھ بیت چکا ہے ،اس کا میں تو احاطہ کرنے سے قاصر ہوں۔
جغرافیائی اہمیت بھی مبصرین مسلسل واضح کررہے ہیں کہ یمن کے سمندر کی جدید دور میں بہت اہمیت ہے۔ تیل کی تجارت اس راستے سے ہوتی ہے۔اس تمام پس منظر میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اتنی اہمیت کے ملک میں باغیوں نے ایک '' جائز حکومت‘‘ کو معزول کرکے فساد پھیلا رکھا ہے جس سے ہمارے دوست ملک سعودی عرب کے لیے سکیورٹی خطرات پیدا ہوگئے ہیں جن کا تدارک لازم ہوگیا ہے۔ میرے پاس ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جن کو باغی کہا جارہا ہے وہ باغی ہیں بھی یا نہیں۔ جس جائز حکومت کو معزول کرنے کا ذکر کیا جاتا ہے اس کا بھی کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں لایا جاتا۔ فساد ضرور یمن میں پھیلا ہے مگر کون حقیقت میں ذمہ دار ہے اس کی وضاحت کہیں نہیں ہوتی۔ پھر سعودی عرب کے لیے سکیورٹی خطرات کی بھی تفصیل سے میں لاعلم ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ کن خطرات کا فوجی ایکشن کے ذریعے تدارک کیا جارہا ہے۔
کیسی عجیب بات ہے کہ تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں کی فوج موجود ہے اور جو سوال میرے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں وہ انہی کی آرا اور تبصروں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ کسی کے ہاں ایک سوال کا جواب ہے تو دوسرے کا نہیں ہے۔ کوئی واضح نہیں کرسکا کہ امریکہ اس معاملے میں کیا کررہا ہے، نہ کوئی یہ بتا سکا ہے کہ اصل میں سعودی عرب کیا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی نے یمنی عوام کا حقیقی نقطۂ نظر ہم تک پہنچایا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ شیعہ سنی جھگڑا ہے، کوئی کہتا ہے ایران سعودی عرب کی جنگ ہے۔ کوئی اس کو گہری سازش کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جتنے منہ اتنی باتیں۔
جہاں تک ہماری حکومت کا تعلق ہے تو وہ تو ہمارے تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں کا بھی ریکارڈ توڑتی نظر آتی ہے۔ مجال ہے کہ جن لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پاکستان پر حکومت کررہی ہے ان لوگوں کو کچھ بھی بتایا ہو۔ مسلسل گول مول بیانات آرہے ہیں۔ دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکستان اسی فوجی اتحاد کا حصہ ہے جو سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر کارروائی کررہا ہے مگر ہماری حکومت اس کی تردید یا تصدیق سے گریز کرتی ہے اور اس بات کو بار بار دہرا رہی ہے کہ سعودی عرب کی سکیورٹی پر مصالحت نہیں کی جائے گی۔
حکومت اگرچہ کچھ کہہ نہیں رہی مگرصاف دکھائی دے رہا ہے کہ ابتدائی طور پر سعودی عرب اور یمن کی سرحد پر حفاظتی فرائض ادا کرنے کا ہم بیڑہ اٹھا چکے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے ہم دلیل دے سکتے ہیں کہ ہم تو صرف سعودی عرب کی سکیورٹی کی حفاظت کررہے ہیں مگر ایسی سرحدی ڈیوٹی بہت خطرناک ہوتی ہے۔ جس طرح آگ کے تھوڑا قریب اگر موم رکھ دیا جائے تو ابتداء میں تو وہ پگھلتا نہیں مگر آہستہ آہستہ جب تپش پہنچتی رہتی ہے تو موم پہلے نرم ہوتا ہے اور پھر پگھلنے لگتا ہے۔جنگ کے ماحول میں سرحدی حفاظت کی ڈیوٹی بھی آگ اور موم والا معاملہ ہوتا ہے لہٰذا ہماری فوجی قیادت کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنی فوج کو سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور کردیا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اس جنگ کا حصہ بننے سے بچ جائیں اور اگر ہم مجبوراً اس جنگ میں شامل ہوگئے تو تاریخ کا نہیں بلکہ حالیہ واقعات کا سبق ہمارے سامنے ہے۔
امریکہ عراق میں جس Mindsetکے ساتھ آیا تھا، کہاں ہے وہ Mindset۔ جب حملہ کیا تھا تو خیال تھا کہ دنوں نہیں مہینوں میں فارغ ہوجائیں گے، مگر برسوں ذلت و رسوائی کے بعد آج کہاں ہے امریکہ عراق میں۔ پھر افغانستان کو ہی دیکھ لیں جس کی صورتحال کہتے ہیں کہ یمن سے کئی لحاظ سے ملتی جلتی ہے۔تو حالیہ واقعات تو یہ سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اس آگ سے دور ہی رہنا چاہیے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے آج تک نہ تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی حالیہ واقعات سے۔ اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی ارادہ ہے۔
ہمارے ملک میں فیصلہ سازی کس انداز سے ہوتی ہے اس پر ریسرچ ہونا چاہیے، کیونکہ جب فیصلہ کیا جاتا ہے تو چپ سادھ لی جاتی ہے لیکن جب اس فیصلے کے نتائج اپنی تمام تلخیوں سمیت سامنے آتے ہیں تو الزام ایک دوسرے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کارگل کا قصہ یاد کریں۔ جنرل مشرف آج تک کہتے ہیں کہ انہوں نے بطور آرمی چیف ،نوازشریف کو بحیثیت اس کے وقت کے وزیراعظم کے بتا دیا تھا کہ ان کا پلان کیا ہے مگر میاں نوازشریف آج تک یہی موقف دہراتے ہیں کہ ان کو کچھ بتائے بغیر کارگل آپریشن کیاگیا۔ پھر کوئی اس معاملے کی تفتیش بھی نہیں کراتا جس سے شبہ پڑتا ہے کہ خرابی دونوں طرف تھی۔
اب اگرچہ فیصلے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایاگیا ہے مگر کون نہیں جانتا کہ فیصلہ فوج اور سول قیادت ہی کرتی ہے۔ فی زمانہ ہماری سیاسی حکومت کے کرتا دھرتا چونکہ سعودی عرب کے زیر بار ہیں لہٰذا فوج کے ادارے کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ جو فیصلہ بھی ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے اس پر اس نقطۂ نظر سے بھی غور کرے کہ مستقبل میں اگر نتائج درست نہ نکلے تو زیادہ ذمہ داری فوج ہی کی باور کی جائے گی۔