وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب نے اگلے روز پارلیمنٹ میں جس خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم جس دوران مٹی کا مادھو بن کر بیٹھے رہے‘ اس پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیونکہ یہ سب ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ تھا اور جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ خود پارلیمنٹ کا ماحول ہی اس قدر تنائو میں مبتلا کردیا جائے کہ وہ یمن کے معاملے پر وہ اتفاقِ رائے ظاہر نہ کر سکے جس کی حکومت کو توقع تھی اور وزیراعظم اس سے پہلے ہی پارلیمنٹ کے موڈ کو اچھی طرح جان چکے تھے کہ وہ ان ارادوں اور وعدوں کے حق میں نہیں ہے جو وزیراعظم کی طرف سے سعودی عرب حکومت کے ساتھ کیے جا چکے تھے اور جن کا ایک مقصد وہ نمک بھی حلال کرنا تھا جو وزیراعظم کا خانوادہ اپنی جلاوطنی کے دوران سعودی شاہی مہمان کی حیثیت سے کھا چکے تھے اور‘ اب اپنی گلوخلاصی کے لیے سارا بوجھ پارلیمنٹ پر ڈالنا چاہتے تھے کہ میں تو تیار تھا لیکن پارلیمنٹ نہیں مانی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے آفس کے مطابق وزیراعظم نے بعد میں بھی خواجہ صاحب کی اس بوچھاڑ کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ یہ سب کچھ ان کی مرضی اور ایما کے مطابق ہی ہو رہا تھا اور اسی سے ان کی مقصد براری کی صورت بھی نکل سکتی تھی۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن پر اتفاق رائے حاصل کرنے
والے حکومتی وزرا‘ بالخصوص اسحاق ڈار وغیرہ کے بار بار زور دینے بلکہ منت ترلوں کے بعد ہی وہ پی ٹی آئی کو ایوان میں لانے میں کامیاب ہوئے تھے؛ چنانچہ جو ڈرامہ رچایا گیا اس کا سکرپٹ خود وزیراعظم کا تحریر کردہ تھا ورنہ ایک بار رسمی طور پر ہی خواجہ صاحب کو ٹوکتے کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں بلکہ اس کی بجائے شاید وہ اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے!
چونکہ حکومت نے اس ضمن میں حسبِ معمول کوئی ہوم ورک نہیں کر رکھا تھا اور نہ ہی عسکری حلقوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی‘ سو‘ نتیجہ یہ تھا کہ کوئی ایک بھی سیاسی جماعت وہ مطالبات ماننے کے حق میں نہیں تھی جو سعودیہ کی طرف سے حکومت پاکستان سے کیے گئے تھے اور جن کی تفصیل ابتداء ہی میں خواجہ صاحب نے بیان کردی تھی اور اپوزیشن‘ بالخصوص چودھری اعتزاز احسن کی چشم کُشا تقریر نے پارلیمنٹ کے موڈ اور مزاج کی ایک جھلک دکھا دی تھی اور چونکہ چودھری صاحب کے مطالبات پر حکومت یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھی کہ ان کا وفد سعودی حکومت کے ساتھ کیا کیا وعدے کر کے آیا ہے اور وہ اس ضمن میں کس حد تک جانے کو تیار ہے اور بالخصوص یہ کہ وہ مذکورہ سعودی مطالبات کے ضمن میں کیا کچھ کر آئے ہیں اور آئندہ کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جس سے حکومتی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کا بھانڈہ چوک ہی میں پھوٹ کر رہ گیا اور اب حکومت کے لیے نہ جائے رفتن تھی نہ پائے ماندن۔
چنانچہ اب حکومت کے لیے سعودی حکومت کو یہ کہنا ممکن اور آسان ہو گیا ہے کہ ہم تو ہر خدمت کے لیے تیار تھے لیکن پارلیمنٹ نے سارے رنگ میں بھنگ ڈال دی حالانکہ سعودی حکومت بھی اس
قدر سادہ نہیں ہے کہ اس ڈرامے کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اور‘ اس بے تدبیری کی وجہ سے حکومت نے اپنے حوالے سے سعودی حکومت کو راضی کرنے کی بجائے ناراض کر لیا ہے جس کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کیونکہ ا یسے ناقابلِ عمل وعدے کرنے کی بجائے حکومتی وفد صاف کہہ سکتا تھا کہ ہم پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے اس لیے ہم اجلاس بلا کر اس کے آگے یہ معاملہ رکھیں گے اور اس پر بھرپور زور دیں گے کہ آپ کے مطالبات کو پذیرائی ملنے کی کوئی صورت نکل سکے‘ لیکن موقعہ پر یہ ہوا کہ یمن والے معاملے کو دانشمندی سے آگے بڑھانے کی بجائے نہایت غیر ضروری طور پر‘ اور ایک ایسے موضوع پر سارے ایوان کو بدمزہ کر کے رکھ دیا گیا جو اس پروگرام میں شامل ہی نہیں تھا‘ حتیٰ کہ یمن اور سعودی مطالبے پر کسی مثبت پیش رفت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی‘ اور یہی حکومت چاہتی بھی تھی کہ اپنے غیر حقیقی وعدوں سے جان چھڑانے کی راہ ہموار کرے لیکن وہ اس میں بُری طرح ناکام ہوئی۔
چنانچہ اس بہت بڑے مسئلے کو جس بھونڈے انداز میں سبوتاژ کیا گیا اور جس پر بحث کے لیے پی ٹی آئی نے بھی اپنے تحفظات کے باوجود ہائوس میں آنا گوارا کر لیا کہ حکومت کی عقل و فہم پر ایک بار پھر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جبکہ چودھری اعتزاز احسن کی تقریر اور اس میں اٹھائے گئے نکات کے پیش نظر حکومت اس معاملے کو اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھانے کے قابل ہی نہیں رہ گئی تھی کہ سعودی حکومت کو منہ دکھانے کے قابل ہی رہ جائے کیونکہ اول تو اس کے پاس چودھری صاحب کے بیان کیے گئے تحفظات کا کوئی جواب ہی نہیں تھا اور نہ ہی وہ سمجھتی تھی کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کے مطابق قائل کر سکے گی اور جو وعدے وہ کر کے آئی تھی‘ انہیں واشگاف کرنے کی بھی پوزیشن میں ہرگز نہیں تھی لیکن جس بھونڈے طریقے سے اور جس انجام سے اسے دوچار کیا گیا‘ وہ اپنی جگہ پر یادگار رہے گا۔
یقینا حکومت اپنی اس ناکامی کا بعض اور حلقوں کو بھی سعودی حکومت کے سامنے ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کر کے اپنی بریت کا کوئی جواز پیش کرے گی لیکن اس صورت میں بھی وہی سوال سامنے آئے گا کہ یہ سارا کچھ اور اس سے متعلقہ امکانات اور ممکنہ خدشات اسے وعدے وعید سے پہلے ہی سعودی حکومت کے سامنے رکھنا چاہئیں تھے!
آج کا مطلع
ہمارے ساتھ وہ ظاہر ہے جو کچھ کرنے والے ہیں
اور اُس کے ساتھ ہی الزام جس پر دھرنے والے ہیں