تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     08-04-2015

تین اہم خبریں

گزشتہ دنوںتین اہم خبریں زیر بحث رہیں۔ پہلی خبر یمن ،سعودی عرب تنازعہ ہے۔ اس تنازعہ کے حوالے سے ملک کی مختلف جماعتیں مختلف نقطہ ہائے نظر کی حامل ہیں۔مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے اسلام (س)، جماعۃ الدعوۃ اور بعض دیگر جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ پاکستان کو مشکل کی گھڑی میں سعودی عرب کا ہر صورت میں ساتھ دینا چاہیے۔ اس کے بالمقابل تحریک انصاف، ملی یکجہتی کونسل اور جماعت اسلامی کاموقف یہ ہے کہ پاکستان کو تنازعہ میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جبکہ بعض شیعہ اوربریلوی مکاتب فکر کی تنظیمیں ایک الگ موقف رکھتی ہیں۔
میرا اس تنازعہ کے بارے میں موقف یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی خانہ جنگی ہواس کے تدارک کے لیے پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کروائی جائے لیکن اگر ایسی صورت ممکن نہ ہو تو اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہییں۔
سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور اس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کی معاشی معاونت کے حوالے سے بھی سعودی عرب کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کی حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کی سر زمین سے گہری روحانی اور دینی وابستگی ہے۔ اس لیے اگر پاکستان فریقین کے درمیان صلح کروانے پر قادر نہیں ہوتا تو پاکستان کو قومی اتفاق رائے کے ساتھ سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہیے۔ جو عناصر سعودی عرب کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں انہیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلح بغاوت افغانستان، قبائلی علاقہ جات اور شام میں قابل قبول نہیں تو پھراسے یمن میںبھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کا قومی مفاد حوثی قبائل سے نہیں بلکہ سعودی عرب سے وابستہ ہے اور اس مسئلے کو تعصب کی بجائے اصولی بنیادوں پر طے کرنا چاہیے۔ اگر آج ریاست پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ نہ دیا تو کل حکومت اور ریاست پاکستان کے اہم معاملات میں سعودی عرب سے تعاون کی توقع نہیں رکھ سکے گی۔گو ملی یکجہتی کونسل نے اس تنازعہ میں پاکستان کے ثالث بننے کی سفارش کی ہے لیکن میںنے ملی یکجہتی کونسل کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں بھی مشورہ دیا تھا کہ اگر صلح کرانا ممکن نہ ہو توپاکستان کو اپنے قومی مفاد میں درست فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہیے کہ متنازعہ فریقین میں کون سا فریق پاکستان کا معاون اور دوست رہا۔
دوسری اہم خبر 6اپریل کو پاکستان تحریک انصاف کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں واپسی تھی۔ تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف لمبی تحریک چلائی اور کئی ماہ تک قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوئی۔ عمران خان صاحب اس اسمبلی کو دھاندلی زدہ اسمبلی قرار دیتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحق ڈار اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مابین سیاسی ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے مذکرات بھی جاری رہے اور بالآخر جوڈیشل کمیشن کے قیام کی یقین دہانی کے بعدتحریک انصاف اسمبلی میں واپس آنے پر آمادہ ہوئی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کی واپسی پر مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کیا جائے گا لیکن مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بارے میں بہت زیادہ منفی زبان استعمال کی۔ نتیجتاً سیاسی ہم آہنگی کی فضا قائم ہونے کی بجائے ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاسی تناؤ کی فضا پیدا ہوگئی۔مسلم لیگ کے رہنماؤںکو اس موقع پر وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی تاکہ سیاسی اختلافات ذاتی رنجشوں میں تبدیل نہ ہو ں۔
تیسری اہم خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی کی ممبر ماروی میمن نے کم عمری کی شادی کے خلاف قومی اسمبلی میں بل پیش کیا ہے۔ اس صورتحال میں‘ میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کو قارئین کے سامنے رکھا جائے ۔ نکاح بنیادی طورپر صنف مخالف کے دو افراد کے درمیان ایک مذہبی اور سماجی بندھن ہے جس کے اہم مقاصد درج ذیل ہیں:
(1)جنسی بے راہ روی اور بدکرداری کا خاتمہ (2) نسلِ انسانی کی بقاء اور نشوونما (3) شریک زندگی کا حصول جس کے ساتھ مل کر حالات کے مدوجزر کا مقابلہ کیا جا سکے ۔ ان تمام اہداف کوجبھی حاصل کیا جاسکتا ہے اگر اس بندھن میں دولہا ،دلہن اور ان کے اہلخانہ کی رضا مندی شامل ہو۔ بہت سے لوگوں کو اس بندھن کے حوالے سے دولہا اور دلہن کی عمر سے بہت دلچسپی ہو تی ہے اور وہ اس بندھن کے لیے عمر کی کم ازکم حد کا تعین بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ اسلام گو کہ نکاح کے حوالے سے توکسی خاص عمر کا قائل نہیں لیکن شادی یا رخصتی کے حوالے سے جسمانی اور فکری بلوغت کو ضروری سمجھتا ہے ۔اسلام کسی بھی بالغ لڑکے یا لڑکی کوولی کی رضامندی کے ساتھ شادی کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ لڑکا ، لڑکی یا ان کے سرپرست شادی کے بعد کی ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہوں ۔
اسلام بنیادی طور ہر طرح کی بے راہ روی اور مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کا مخالف ہے اور صنفی جذبات کے اظہار کو صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی جائز قرار دیتا ہے ۔اسلام بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے کم عمری کی شادی کو بھی درست سمجھتاہے ۔ بااعتماد اور مصدقہ ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں اس حقیقت کو پہچاننا کچھ مشکل نہیں کہ کم عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہے جن میں سے سرفہرست خود لذتی ہے ۔ اس لعنت کی وجہ سے بہت سی جسمانی اور روحانی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جن سے جان چھڑانا کئی مرتبہ بہت مشکل اور بعض صورتوں میں ناممکن ہو جاتا ہے ۔احساسِ جرم ،ندامت اور ذہنی انتشار کی وجہ سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔
یہ اعدادو شمار اور مشاہدات بلوغت کے فوراً بعد ہونے والی شادی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اس امر کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں کہ اگر لڑکا اور لڑکی اپنے اہلخانہ کی مدد یا ان کے تعاون کے بغیر شادی کے بعد کی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہیں تو ان کوفی الفور ایسا کرنا چاہیے۔سورہ نور کی آیت نمبر 32میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور شادیاں کرو اپنے درمیان موجود بغیر نکاح کے رہنے والے لوگوں کی اور اپنے نیکو کار غلاموں اور لونڈیوں کی بھی۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت رکھنے والا با علم ہے ‘‘۔آیت مذکورہ واضح کرتی ہے کہ مردوزن معاشی طور پرمستحکم نہ بھی ہوں تو ان کی شادی کرنی چاہیے۔ گویا کہ اسلام میں کردار کی اہمیت معیشت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔
مشرقی معاشرے عام طور پریورپ کی ترقی سے مرعوب ہیں۔ جب یورپی معاشروں میں شادی کی قانونی عمر کا جائزہ لیا جاتا ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بہت سے یورپی معاشروں میں کم عمری کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ وکی پیڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یونان ،سکاٹ لینڈ ،آسٹریا،بلغاریہ، کروشیا اور چیک ریپبلک سمیت بہت سے ممالک میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16برس جبکہ ڈنمارک، ایستونیا ، جارجیا،لیتھوانیا میں شادی کی کم ازکم عمر 15برس ہے۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے ممالک بولیویا اور پیراگائے میں شادی کی کم ازکم عمر 14برس ہے ۔ ویٹیکن سے شائع ہونے والی کیتھولک چرچ کی معروف قانونی دستاویز'' ڈیری منٹ ایمبیڈیمنٹ‘‘کے مطابق لڑکا 16برس اور لڑکی کی 14برس کی عمر میں شادی کر سکتے ہیں ۔یورپی اور کیتھولک قوانین کے مطالعہ کے بعد مسلمان ممالک کے دانشوروں کو بھی اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اگر سیکولر اورمسیحی معاشرے کم عمری کی شادی کو قبول کرسکتے ہیں تو مسلمان معاشروں میں اس پر تنقید کیوں کی جاتی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ اگرچہ اسلام میں کم عمری کی شادی کی اجازت ہے اور بے راہ روی کے اندیشے کی صورت میں فی الفور شادی کرنا ایک ضروری اور مستحسن عمل ہے لیکن کم عمری کی شادی کرنا واجب نہیں ہے ۔
قرآن وسنت کے مطالعہ کے بعد انسان بآسانی اس بات کو سمجھ سکتاہے کہ اسلام میں شادی کسی عمر میں بھی ہو سکتی ہے ۔اگر کوئی تاخیر سے شادی کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ کم عمری میں شادی کرنے والے لڑکے، لڑکی یا ان کے اہلخانہ کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ اس لیے کہ یہ شادیاں بہت سی صورتوں میں اخلاقی جرائم کی روک تھا م کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved