فی زمانہ مزاح لکھنا بیک وقت انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی۔ معاشرے میں ہر طرف ہر معاملے میں اِس قدر مزاح پایا جاتا ہے کہ اب الگ سے، رسمی نوعیت کا یعنی ''باضابطہ‘‘ مزاح پیدا کرنا جُوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
بہت سے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ اب اخبارات اور جرائد کے مُدیروں کے لیے بھی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔ اب کسی بھی فکاہیہ تحریر کو باضابطہ فکاہیہ قرار دینا پڑتا ہے۔ کئی مضامین کے ماتھے پر ہم نے ''... کی پُرمزاح تحریر‘‘ لکھا دیکھا ہے۔ یعنی لوگ اِس تحریر کو مزاح کے کھاتے میں رکھیں، کچھ اور سمجھ کر نہ پڑھیں! یہ وضاحت لکھنے والوں کو بہت سے اَن چاہے کمنٹس سے بچالیتی ہے۔ مثلاً کوئی لکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے حالات کا تجزیہ کرکے اُس نے کوئی بہت بڑا تیر مارا ہے مگر پڑھنے والے کمنٹس میں صاحبِ تحریر کی غیر معمولی حسِ مزاح پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں! ایسے کمنٹس لکھنے والوں کو ع
گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل
جیسی کیفیت سے دوچار کرکے دم لیتے ہیں!
معاشرے میں چونکہ سبھی کچھ اُلٹ پَلٹ کر رہ گیا ہے اِس لیے کسی کو کسی بھی بات کے لیے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم بھی کئی بار ع
ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
والی کیفیت سے دوچار ہوئے ہیں۔ کسی تقریب میں ایک صاحب نے ہم سے کہا: ''ہم نے آپ کو بہت پڑھا ہے۔ آپ ماشاء اللہ بہت مزاحیہ (!) کالم لکھتے ہیں۔‘‘ ہم نے وضاحتاً عرض کیا کہ ہم مزاحیہ نہیں، فکاہیہ کالم لکھتے ہیں! حیرت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں جواب ملا: ''اچھا؟ مگر ہم تو مزاحیہ سمجھ کر پڑھتے آئے ہیں۔‘‘ ہم نے جواباً عرض کیا آپ ہمارا کالم پڑھتے ہیں یہ آپ کا ذوق ہے اور مزاحیہ سمجھ کر پڑھتے ہیں یہ ہمارا نصیب!
سیاست دانوں نے مزاح لکھنے والوں کی مشکلات کئی گنا کردی ہیں۔ اُن کے بیانات اور تقریروں کے بعد لوگوں کے لیے مزید یعنی باضابطہ مزاح برداشت یا ہضم کرنا انتہائی دُشوار ہوجاتا ہے! ویسے بھی اب پوری سیاست ہی کامیڈی سرکس میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایسے میں مزاح لکھنے کے نام پر یومیہ قلم مزدوری کرنے والوں کے لیے پنپنے کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے۔
حال ہی میں کرکٹ کا ورلڈ کپ ختم ہوا ہے۔ اِس ٹورنامنٹ کے دوران میچ کے نام پر جو ڈرامے ہوئے کیا وہ مزاح کے سِوا کسی درجے میں رکھے جاسکتے ہیں؟ وہ زمانہ گیا جب ایک آدھ کھلاڑی اپنی کسی حرکت سے مزاح پیدا کیا کرتا تھا۔ اب تو خیر سے پورا کا پورا میچ ہی کامیڈی تھیٹر کا سماں پیدا کردیتا ہے!
ٹی وی چینلز پر چلائے جانے والے ٹِکرز نے جو اُردو متعارف کرائی ہے وہ اب اخباری کالموں اور کھٹّے میٹھے سیاسی تجزیوں میں بھی در آئی ہے۔ زبان کے ''بھنڈ‘‘ کبھی کبھی تحریر کا حُسن دوبالا کرتے ہوئے اُس میں ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ذرا ''وفاقی وزیر دفاع‘‘ کی اصطلاح پر غور فرمائیے۔ ٹی وی کے ٹِکرز ہی میں ''وفاقی وزارت‘‘ کی اصطلاح بھی دکھائی دیتی ہے۔ یا پھر ''آسٹریلیا نے سیمی فائنل میں بھارت کو شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا‘‘ کا لُطف لیجیے۔ بات اِس قدر گھما، پھراکر کہنے کی ضرورت ہے؟ سیدھا سا جملہ تھا کہ بھارت کو ہراکر آسٹریلیا فائنل میں پہنچ گیا۔ ''سیمی فائنل‘‘ اور ''کوالیفائی‘‘ کا تذکرہ انتہائی غیر ضروری ہے۔
ایک زمانے سے ہماری فلم انڈسٹری میں یہ ہو رہا ہے کہ کوئی بھی فلم جس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے اُس کے سِوا تمام مقاصد حاصل کرکے دم لیتی ہے! مثلاً اگر کوئی ایکشن فلم بناتا ہے تو لوگ اُسے مزاحیہ فلم سمجھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں! اگر کوئی فلم بناتے وقت دعوٰی کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہنسانا چاہتا ہے تو فلم دیکھنے والوں کے آنسو نکل آتے ہیں! کئی اداکارائیں جب بھرپور جذباتی اداکاری کرتی ہیں تو لوگ ایکشن فلم کا مزا لیتے پائے گئے ہیں! اگر کوئی ہارر فلم بنائے تو لوگ فیملی ڈراما سمجھ کر انوکھا مزاپاتے ہیں! بس کچھ ایسا ہی حال اب لکھنے والوں کا بھی ہے۔ اگر کوئی سیاست دانوں کی حماقتوں پر کچھ لکھے تو لوگ ڈرتے ہوئے پڑھتے ہیں کیونکہ قدم قدم پر مافوق الفطرت قسم کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں! کوئی اگر سیاسی قیادت کی ''کامیابیوں‘‘ پر قلم اٹھائے تو لوگ بھرپور مزاح کا لطف لے رہے ہوتے ہیں!
لکھنے والوں کا ایک بڑا دردِ سر یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ کمنٹس کے ذریعے اچھی خاصی مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔ ہم نے کئی لکھنے والوں کو کمنٹس کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ طلعت عمران ہمارے دوستوں میں سے ہیں۔ ایک معاصر کے میگزین سیکشن میں ہیں۔ ہمارے کالموں پر ایس ایم ایس کی شکل میں رائے سے نوازتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک کالم پڑھ کر جذباتی ہوگئے اور ایم ایس ایم کے ذریعے کہا: ''آپ کی تحریر میں اب (مشتاق احمد) یوسفی صاحب کا رنگ جھلکنے لگا ہے۔‘‘ ہم یہ رائے پڑھ کر سہم گئے! ہم نے انتہائے احترام کے ساتھ جوابی ایس ایم ایس بھیجا کہ بھائی ع
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ ''دم نکل آئے‘‘!
یعنی ستائش کے کھاتے میں رکھ کر ایسی رائے نہ دو کہ لِکھنے والے کی جان پر بن آئے۔ اور ذرا یہ بھی سوچیے کہ یہ رائے پڑھ کر اِس عمر میں یوسفی صاحب پر کیا گزرے گی! جس نے زبان و ادب کی خدمت کی ہو اُسے عمر کے آخری حصے میں تکلیف دینا کسی بھی معیار کی رُو سے اعلیٰ ظرفی نہیں! ہم کہاں اور یوسفی صاحب کہاں؟ ویسے بھی لوگوں کو کسی بھی طرح کے مغالطے سے بچانے کے لیے ہم تو ''باقاعدگی‘‘ سے لکھتے رہتے ہیں!
ہمارے عاجزانہ و خاکسارانہ ایس ایم ایس کو پڑھ کر طلعت عمران مزید جذباتی ہوگئے اور ایس ایم ایس کیا: ''خدا جھوٹ نہ بُلوائے، ہم سنجیدہ ہیں۔ ویسے بھی ہمیں چاپلوسی آتی نہیں۔‘‘
ہم نے جواباً عرض کیا کہ بھائی! آپ کی ''سنجیدگی‘‘ ہماری جان لے کر دم لے گی۔ ہم مانتے ہیں کہ آپ کو چاپلوسی نہیں آتی۔ مگر یہی تو آپ کا مسئلہ ہے۔ تھوڑی سی محنت سے چاپلوسی سیکھ لیجیے۔ نہ سیکھی تو یہ تماشا ہوتا رہے گا کہ آپ کی ''سنجیدہ‘‘ رائے ہم جیسوں کو بلندی پر پہنچاکر سیڑھی ہٹالیا کرے گی!
پنجاب میں صفدر آباد (کیڑا منڈی) کے سمران وڑائچ بھی ہمارے کالم پڑھ کر ایسے ہی جذباتی ہوگئے تھے۔ اور پھر اُنہوں نے ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے جن توصیفی کلمات سے نوازا وہ کچھ اِس قسم کے تھے کہ اُنہیں پڑھ کر ہم ایک ہی پل میں ساتویں آسمان پر پہنچ گئے تھے! کچھ دیر بعد جب نشا اُترا تو ہم نے سمران کو ڈانٹ پر مبنی ای میل بھیجی کہ بھائی! اگر یوں بے لگام انداز کی تعریف کروگے تو ہم تاریک راہوں میں مارے جائیں گے! یعنی سراہنے کے معاملے میں ہاتھ ذرا ہلکا رکھو! ع
عزیز اِتنا ہی رَکّھو کہ جی بہل جائے
طلعت عمران اور سمران وڑائچ کو ہم نے بہت مشکل سے کنٹرول کیا ہے۔ بہت سے لکھنے والوں کو ایسے ہی پڑھنے والے اپنے کمنٹس کے ذریعے ''محبوس‘‘ کرکے دم لیتے ہیں!
ہمیں اُمیّد ہے کہ ہم نے زیر نظر کالم میں اپنی بے بضاعتی کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے اُسے آپ سنجیدگی سے لیں گے اور اِس تحریر کو محض ''مزاحیہ‘‘ سمجھ کر پڑھتے ہوئے (ہماری) جاں سے گزر نہیں جائیں گے!