تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-04-2015

ملتان کا کلاک‘ انکوائری اور نشئی

آج صبح کارڈف میں ہوئی۔ برطانیہ کا یہ شہر ویلز کا دارالحکومت ہے۔ سلطنت برطانیہ یعنی یونائیٹڈ کنگڈم یا گریٹ بریٹن چار اکائیوں پر مشتمل ہے۔ انگلینڈ‘ سکاٹ لینڈ‘ شمالی آئرلینڈ اور ویلز۔ کارڈف بندرگاہ ہے۔ ہمارا قیام کارڈف کی ہائی سٹریٹ کے ایک سرے پر تھا۔ ہائی سٹریٹ شہر کی وہ مرکزی سڑک ہوتی ہے جس پر خریداری کی دکانیں‘ ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہوتے ہیں۔ یہاں ہمہ وقت چہل پہل رہتی ہے مگر یہ سڑک عام سڑکوں سے ممتاز اس طرح ہوتی ہے کہ اس پر صرف پیدل چلا جا سکتا ہے۔ کوئی مشینی سواری اس میں داخل نہیں ہو سکتی۔ صرف پیدل اور سائیکل سوار۔ ہائی سٹریٹ برطانیہ کے ہر شہر اور قصبے میں موجود ہے اور ہر خاص و عام کے لیے باعث کشش ہوتی ہے۔ پانچ اپریل کو ایسٹر کی چھٹی تھی‘ چھ اپریل کو بینک ہالینڈے تھا۔ دن کو بازار وغیرہ بند تھے۔ ہائی سٹریٹ بری طرح ویران تھی۔ فٹ پاتھ پر ''سی گل‘‘ ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے۔ رات گئے جب مشاعرے سے واپس پہنچے اور ہوٹل کے پیچھے سٹی کونسل کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ہوٹل آ رہے تھے تو آس پاس کے سارے پب آباد ہو چکے تھے۔ نوجوانوں کی ٹولیاں آ جا رہی تھیں اور اس دوران مدہوشی کی آڑ میں ہوش سے دوچار قدم آگے والے کئی نوجوان جوڑے باقاعدہ معاملات من و تو طے کرنے پر اتر آئے تھے۔ میں نے انور صاحب کو کہا کہ جلدی ہوٹل چلیں۔ ایمان کو خطرہ لاحق ہے کہ کہیں پنکچر نہ ہو جائے۔ انور صاحب نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ معاملہ ایمان کے فیوز ہونے کی حد تک خطرناک ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہوٹل آ گیا ہے‘ یہ کہہ کر وہ جس پھرتی سے ہوٹل میں داخل ہوئے وہ دیدنی تھی۔
صبح اٹھ کر حسب معمول میں اور انور صاحب عامر محمود کے کمرے میں آ گئے‘ جہاں ناشتہ تیار رکھا تھا۔ ناشتہ کرتے ہوئے میں نے عامر کو کہا کہ میری چھٹی حس کہتی ہے کہ آج کا دن میرے لیے اچھا ہوگا۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ صبح دن کے اچھے ہونے کی لہر اندر سے اٹھی ہو اور دن واقعی اچھا نہ ہو۔ میری چھٹی حس اس سلسلے میں
مجھے کم ہی دھوکہ دیتی ہے۔ میں نے انور مسعود صاحب کو مخاطب کر کے کہا‘ اگر یہ دن سعد اور اچھا ہے تو مجھے گمان ہے کہ آج میرے عرصہ سے واجب الادا چارجر کے کرائے والے پیسے وصول ہو جائیں گے۔ انور صاحب کہنے لگے‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دن میرے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لا رہا۔ ناشتے کے بعد انور صاحب نے اپنے پرس میں سے ایک سو ڈالر کا نوٹ نکالا اور فیصل کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ وہ اس کو برطانوی پونڈوں میں تبدیل کروا لائے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ میری چھٹی حس بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔ ہم سو ڈالر کے اس نوٹ کا گزشتہ دو تین دن سے بڑا مذاق اڑا رہے تھے جو پرانا تھا۔ پرانے سے مراد یہ ہے کہ اب سو ڈالر کا نیا نوٹ بازار میں آ گیا ہے اور آہستہ آہستہ پرانا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ یہ بڑی خستہ حالت میں تھا۔ کنارے بھربھرے ہو کر ختم ہو چکے تھے۔ درمیان سے لگتا تھا کہ کسی وقت بھی دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ میں نے انور صاحب کو کہا کہ وہ یہ نوٹ مجھے عنایت کر دیں‘ میں اسد کو دے دوں گا۔ وہ سکے اور نوٹ جمع کرتا ہے وہ اس نوٹ کو اپنی پلاسٹک والی نوٹ البم میں رکھ کر محفوظ کر لے گا۔ انور صاحب کہنے لگے یہ اب آثار قدیمہ میں شمار ہو چکا ہے لہٰذا اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ گمان تو یہ ہے کہ یہ نوٹ اب کئی ہزار ڈالر میں نیلام ہو سکتا ہے مگر وہ مجھے خاص رعایتی نرخوں پر پانچ سو ڈالر میں دے سکتے ہیں۔ یوں ہمارا سودا طے نہ پا سکا۔ ہم نے انتقاماً اس نوٹ کو کئی القابات سے نوازا۔ میں نے کہا انور صاحب یہ نوٹ اب بند ہو چکا ہے لہٰذا یہ اب ''الکرنسی المتروک‘‘ میں شامل ہو چکا ہے۔ آپ اسے نوٹ ہائے زائد المیعاد بھی کہہ سکتے ہیں۔ عامر کہنے لگا یہ نوٹ پیرانہ سالی اور عمر رسیدگی کی اس منزل پر آ چکا ہے کہ مکمل آرام چاہتا ہے۔ انور صاحب خود بڑھ چڑھ کر اس نوٹ کی مذمت میں لگ گئے اور
کہنے لگے یہ باقاعدہ خوار و خستہ نوٹ ہے‘ پھر کہنے لگے یہ نوٹ ہر طرف سے گھسا پٹا‘ بودا اور فرسودہ نوٹ ہے۔ اگر یہ انسان ہوتا تو گرگ باراں دیدہ کہلا سکتا تھا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اگر یہ انسان ہوتا تو اپنی کہن سالی اور پیری و ضعیفی کے باعث پڑپوتوں سے پائوں دبوا رہا ہوتا۔ غرض گزشتہ تین دن سے یہ نوٹ کئی بار زیر بحث آیا اور تفنن طبع کا باعث بنا‘ اب یہ فیصل کے پاس تھا۔
میں‘ عامر اور فیصل دوبارہ کارڈف کیسل کی طرف چل پڑے۔ چھ سات سو میٹر لمبی ہائی سٹریٹ کے ایک سرے پر ہمارا ہوٹل تھا اور دوسرے سرے پر شاہراہ کے پار کارڈف کیسل تھا۔ گزشتہ شام بھی یہ قلعہ دیکھا مگر مشاعرے میں شرکت کے باعث اچھی طرح نہ دیکھ سکے تھے۔ قلعے سے واپسی پر ہم ایک منی چینجر کے پاس رک گئے۔ اسے سو ڈالر کا نوٹ دے کر برطانوی پونڈ مانگے۔ اس نے نوٹ دیکھا اور واپس کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے پوچھا کہ کیوں تبدیل نہیں ہو سکتا؟ اس نے کہا کہ یہ نوٹ اپنی ابتر حالت کے باعث ناقابل تبدیل ہے۔ ہم نے انور صاحب کو صورتحال بتائی اور نوٹ واپس انہیں دے دیا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ اس طرح تو معاملہ ختم ہو جائے گا لہٰذا میں نے انور مسعود صاحب کو کہا کہ وہ یہ نوٹ مجھے دے دیں میں اسے کسی نہ کسی طرح سکاٹ لینڈ میں چلانے کی کوشش کروں گا۔ اتنا کہہ کر میں نے انور صاحب کے ہاتھ سے نوٹ پکڑ لیا۔ نوٹ اپنے پرس میں رکھ کر میں نے فقرہ مکمل کیا کہ میں اسے تبدیل کر کے نہایت ہی ایمانداری سے اپنے اٹھارہ پونڈ کاٹ کر بقیہ رقم آپ کو دے دوں گا۔ انور صاحب زور سے ہنسے اور کہنے لگے ''اوئے میں لٹیا گیا جے‘‘ (اوئے میں لٹ گیا ہوں)۔
قلعہ دیکھ کر واپس آ رہے تھے‘ سینٹ میری سٹریٹ کی فٹ پاتھ پر ایک شیشے کا بہت بڑا شوکیس لگا ہوا تھا۔ اس شیشے کے شوکیس میں پینڈولم ہل رہا تھا۔ نیچے مشینری تھی۔ بے شمار گراریاں چل رہی تھیں۔ اوپر شوکیس کے چاروں طرف گھڑیال نما ڈائل لگے ہوئے تھے۔ یہ 1897ء کا بنا ہوا کلاک تھا۔ شیشے کے اندر ایک پیتل کی چھوٹی سی تختی لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا "W.POTTS & SONS.LEEDS.1897"۔ یہ ایک سو اٹھارہ سال پرانا کلاک ہے۔ اس کا نام H.SAMUEL CLOCK ہے۔ برطانوی شہر لیڈز میں بنا ہوا یہ کلاک ہائی سٹریٹ اور سینٹ میری سٹریٹ کے سنگم پر 1910ء میں لگایا گیا اور تریپن سال یہ اسی جگہ پر لگا رہا۔ پھر اسے ڈربی میں بنے سمتھ کلاک سے تبدیل کر کے موجودہ جگہ پر لگا دیا گیا۔ 2005ء میں یہ کلاک چلنا بند ہو گیا‘ سٹی کونسل نے 2008ء میں اسے پچیس ہزار برطانوی پونڈ سے یعنی تقریباً چالیس لاکھ روپے لگا کر مرمت کروایا اور موجودہ شوکیس میں لگا دیا۔ اب یہ کلاک چل رہا ہے اور سینٹ میری سٹریٹ کارڈف کالینڈ مارک تصور کیا جاتا ہے۔
قارئین! میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ آپ سے کارڈف کے کلاک کا قصہ لے بیٹھا۔ دراصل میں جب بھی کوئی پرانا کلاک دیکھتا ہوں‘ اس کی عزت و تکریم ملاحظہ کرتا ہوں‘ شہر کے لوگوں کی اس سے وابستگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے ملتان کا گمشدہ کلاک یاد آ جاتا ہے۔ ملتان کا یہ گمشدہ کلاک مجھے امریکی شہر گرینڈ ریپڈز کے عجائب گھر میں پڑے ہوئے اس کے ہم عمر کلاک کو دیکھ کر یاد آیا اور آج اس سے نو سال کم عمر کلاک کو دیکھ کر پھر یاد آئی۔ ملتان کے نارتھ بروک ٹاور پر لگا ہوا کلاک 1888ء میں بنا اور 1985ء تک وقفوں وقفوں سے بہرحال چلتا رہا۔ آخری بار یہ 1985ء میں چلنا بند ہوا۔ 2011ء میں پرانے کلاک کی جگہ نیا الیکٹرانک کلاک لگا دیا گیا۔ پرانے ڈائل پر نئی سوئیاں لگا دی گئیں اور ایک مشہور کمپنی کا نام چسپاں کردیا۔ مجھے پتہ چلا کہ ایک سو ستائیس سالہ قدیم کلاک جو نہ صرف یہ کہ شہر کا تاریخی ورثہ تھا بلکہ ایک نادر و نایاب چیز تھی‘ غائب ہو گئی ہے۔ کم از کم دس بارہ من وزنی مشینری والا یہ کلاک ملتان کے گھنٹہ گھر کے اوپر لگا ہوا تھا۔ کم ا ز کم پانچویں چھٹی منزل برابر اونچائی پر۔ میں نے تقریباً دو ماہ پہلے اس گمشدگی پر کالم لکھا اور خادم اعلیٰ کو اس تاریخی کلاک کی برآمدگی کی درخواست پیش کی۔ اس کالم کے نتیجے میں ملتان کی انتظامیہ کو لاہور سے ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط غالباً حمزہ شہباز کی طرف سے دی گئی ہدایات کی روشنی میں لکھا گیا تھا۔ اس طرح یہ کیس پہلے دن سے ہی ڈائون گریڈ ہو گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے اس پر خانہ پری ٹائپ انکوائری شروع کی۔ متعلقہ انکوائری میں نیچے سے جو جواب آیا وہ بڑا دلچسپ تھا۔ اتنے بڑے تاریخی ورثے کی چوری اور گمشدگی پر بڑا مختصر اور جامع جواب موصول ہوا۔ لکھا گیا کہ یہ کلاک 2008ء کو غائب ہوا تھا اور گمان غالب ہے کہ اسے نشئی اتار کر لے گئے ہوں گے۔ انکوائری مکمل ہوئی۔ کیس دوبارہ داخل دفتر ہو گیا۔ اللہ اللہ خیر سلا!
سچ تو یہ ہے کہ کلاک نشئی اتار کر نہیں لے گئے بلکہ حکمران اور انتظامیہ نشے میں مدہوش ہے اس لیے جس کا جی چاہتا ہے سرکار کی چیز اٹھا کر گھر لے جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ کلاک ماڈل ٹائون سے چوری ہوا ہوتا تو میں دیکھتا کہ یہ انکوائری ایسے جواب پر کیسے ٹھپ کی جاتی ہے؟ اس کالم کے ذریعے میں مست حکمرانوں کو ایک بار پھر متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر مسئلہ نشیؤں کا آن پڑا ہے اللہ جانے میں کسی کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved