معزز حضرات!
جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ جملہ پارٹی لیڈر صاحبان کو اس لیے زحمت دی گئی ہے کہ یمن کے مسئلے اور سعودی حکومت کے مطالبات پر کھل کر بات ہو سکے۔ اگرچہ خواجہ آصف صاحب ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کر آئے ہیں‘ یعنی اس برادر اسلامی ملک کو جس قدر فوج‘ لڑاکا طیارے اور بحری جنگی جہاز وغیرہ درکار ہوں‘ اسلامی اخوت اور ان کے احسانات کا بدلہ چکانے کی خاطر ارسال کر دیئے جائیں‘ اور ظاہر ہے کہ ایسا انہوں نے آپ کی منظوری کی توقع پر ہی کیا ہے جس کے لیے آج آپ نے زحمت فرمائی ہے۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے فوجی جوان وہاں جا کر انتہائی خوش و خرم رہیں گے کیونکہ وہ خاطر و مدارت ہی اس طرح سے دل کھول کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے آدمی وہیں کا ہو کر رہ جائے۔ آپ یقین فرمائیں کہ ہماری فیملی نے دوران معزولی جو آٹھ نو سال وہاں گزارے ہیں‘ جی چاہتا ہے کہ وہی شب و روز پھر لوٹ آئیں چاہے ایک بار پھر معزول ہونا پڑے۔ اُن کا دستر خوان ہی لذائذ اور مقویات سے اس قدر بھرپور ہوا کرتا تھا کہ کیا بیان کیا جائے۔ ہر کھانے کے ساتھ معجونوں اور پھکیوں کی ایک اچھی خاصی مقدار پیش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کھانے کے بعد ابھی ہاتھ ہی دھونا شروع کرتے تھے کہ پھر بھوک بھڑک اٹھتی تھی؛ چنانچہ صبح کے ناشتے سے لے کر رات گئے تک کے اوقات اسی مصروفیت میں گزر جاتے؛ البتہ رات کے آخری کھانے کے ساتھ چورن وغیرہ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ آرام سے سوتے رہیں اور کھانے کے لیے بار بار اٹھنا نہ پڑے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر یقین مزید پختہ ہو گیا کہ آخر تم میری کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے‘ ہیں جی؟
چنانچہ ظاہر ہے کہ ہمارے ارسال کردہ دستے بھی وہاں شاہی مہمانوں ہی کی حیثیت سے قیام کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ان آسائشوں کی وجہ سے شاید وہ واپس آنے کا نام ہی نہ لیں اور ہمیں ایک نئی فوج کھڑی کرنا پڑے جس سے ہزاروں‘ لاکھوں نوجوانوں کو روزگار میسر ہوگا۔ کیا آپ ملک سے بے روزگاری ختم کرنا نہیں چاہتے؟ علاوہ ازیں‘ ہماری جو افواج ضربِ عضب میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں‘ ان کی بات نہیں کرتا‘ البتہ باقی سارے جوانوں کو کوئی کام نہیں اور آپ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جو فوج لڑائی میں مصروف نہ ہو اور فارغ بیٹھی رہے‘ وہ ویسے بھی آئوٹ آف پریکٹس ہو جاتی ہے اور لڑنے کے قابل ہی نہیں رہتی۔ پھر خاکسار پر شاہی مہمانی کے علاوہ بھی بے شمار احسانات ہیں مثلاً ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے کو تو ابھی زیادہ دن بھی نہیں گزرے جس کا کوئی آڈٹ یا حساب کتاب بھی نہیں رکھا گیا۔ بلکہ یہ خصوصی سوغات حصہ رسدی بڑے ادب و ا حترام سے تقسیم کر لیا گیا۔ کیونکہ آپ بھی جانتے ہیں کہ منہ کھاتا ہے اور آنکھیں شرماتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ہیچمدان کو وقتاً فوقتاً جن شاہی تحائف سے سرفراز کیا جاتا رہا اور جن میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے‘ قیمتی گاڑیاں‘ بیش قیمت گھڑیاں‘ عمدہ قالین‘ ہیرے جواہرات اور دیگر حیرت انگیز آئٹم شامل ہیں اور جو اصولی اور قانونی طور پر مجھے سرکاری مال خانے میں جمع کرا دینا چاہیے تھے لیکن محض اس وجہ سے رکھ لیے ہیں کہ ان مقدس تحائف کو حرزِ جاں ہی بنا کر رکھا جا سکتا ہے‘ بصورت دیگر یہ ان کی توہین متصور ہوگی۔
اسی پر بس نہیں‘ سعودی حکومت کے ایک ذمہ دار افسر نے بتایا ہے کہ آپ حضرات کے لیے بھی ایک ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا اور ایک ایک خاندانی اونٹ ارسال کیا جا رہا ہے جس پر مولانا فضل الرحمن صاحب نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں گھوڑے کی بجائے بھی اونٹ ہی سے دلچسپی ہے کہ اسلامی جانور ہے‘ نیز گھوڑے کا کیا پتا‘ کسی وقت کوئی دولتی وغیرہ ہی جھاڑ دے اور چونکہ وہ شاہی خاندان کی طرف سے بھیجا گیا ہوگا اس لیے ایسی کسی حرکت پر اسے کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔ چنانچہ یہی سوچا گیا کہ ان جانوروں کے پاکستان پہنچنے پر مولانا والا گھوڑا زرداری صاحب کو پیش کردیا جائے اور زرداری صاحب والا اونٹ مولانا صاحب کی نذر کردیا جائے۔ زرداری صاحب نے اونٹ کی بجائے گھوڑے میں دلچسپی ظاہر کی ہے تاکہ ان کے اصطبل کی رونق دوبالا ہو سکے۔
مزیدبرآں‘ آپ کو یہ بتاتے ہوئے مجھے کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی کہ مجھ پر سخت دبائو ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض سرکردہ معززین کے خلاف جو فائلیں کھلی ہوئی ہیں‘ ان پر کارروائی مکمل کی جائے۔ اس کے علاوہ عزیزی عمر شاہد کا بیان آپ نے سن لیا ہوگا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے والد کے قتل میں صولت مرزا سمیت الطاف بھائی اور دیگر متعدد شرفاء‘ جن کا چالان کیا گیا تھا‘ اُن کے خلاف بھی تفتیش کے سلسلے کو آگے بڑھا کر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے؛ تاہم میں نے سرِدست یہ دبائو قبول کرنے سے معذرت کر رکھی ہے۔ کم و بیش یہی احوال دوسری جماعتوں کا بھی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں یہ دبائو آخر کب تک برداشت کر سکتا ہوں‘ ہیں جی؟
ان حالات میں آپ سے درخواست ہے کہ جو وعدے خواجہ صاحب سعودی حکومت کے ساتھ کر آئے ہیں ان کے پیشِ نظر مطلوبہ فوجی جوان‘ لڑاکا طیارے اور پاکستان نیوی کے چند جہاز بھیجنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اگر انہیں ضرورت ہو تو انہیں ایک آدھ دانہ آبدوزوں کا بھی بھیجا جا سکتا ہے کہ چین سے آبدوزوں کی تازہ کھیپ آنے ہی والی ہے۔ یقینا ہم انہیں یہ تاثر دینا نہیں چاہیں گے کہ ہم وعدہ شکن اور احسان فراموش قوم ہیں‘ جبکہ ابھی مزید احسان مند ہونے کے بھی طلبگار ہیں‘ اس لیے براہِ کرم اس سلسلے میں مطلوبہ تعاون فرمائیں اور خواجہ صاحب کے نہیں‘ کم از کم میرے منہ کی طرف ہی دیکھیں‘ پیشگی شکریہ!
آج کا مقطع
ہم اُن کی بزم کا احوال کیا بتائیں‘ ظفرؔ
جو اجنبی ہے وہی آشنا سے آگے ہے