تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     09-04-2015

یمن کی صورتحال اور تھر صحت میلہ

گزشتہ برس نئے پاکستان کے نام پر شروع ہونے والے دھرنے‘ جعلی پارلیمنٹ کے نعرے‘ تبدیلی کے بلند بانگ دعوے‘ اب ایک بالکل تبدیل شدہ شکل میں‘ جھینپے جھینپے‘ شرمائے شرمائے سے‘ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ کی سرکاری میز پر ایک مطالبے کی صورت‘ پڑے ہیں؛ یعنی پی ٹی آئی کے ''انقلابیوں‘‘ نے اسمبلی میں واپس آ کر‘گزشتہ 7مہینوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آج وہ جس پارلیمنٹ سے ''تنخواہ‘‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ سات ماہ تک اسلام آباد کے ریڈ زون میں اس کے خلاف مورچہ زن رہے۔ انقلاب اور تبدیلی کی یہ شکل تو واقعی‘ چکرائے دیتی ہے ؎
اب تو پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گُلِ تر کی صورت!
پارلیمنٹ میں واپسی پی ٹی آئی کے لیے تلخ رہی۔ انہیں اسمبلی میں بہت کچھ سننا پڑا‘ لطف یہ کہ وہی تلخ جملے‘ وہی دشنام طرازی جن کی داغ بیل خود کپتان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر ڈالی تھی۔ اگر اس غبارے سے ہوا‘ اتنی ہی آسانی سے نکل جانا تھی تو پھر ایسے سخت جملے‘ اتنے بلند و بانگ دعوے کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اس وقت اصل اور اہم مسئلہ یمن کی صورتحال ہے جہاں سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ حوثیوں سے برسر پیکار ہے۔ سعودی عرب کی یمن کے ساتھ اٹھارہ سو کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ سرحدی علاقوں میں سعودی افواج اور
حوثیوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا آج کی جھڑپیں نئی بات نہیں۔ سن2009ء کے اگست میں بھی حوثیوں اور سعودی فورسز کی جھڑپیں ہوئیں‘ جو کئی ماہ جاری رہیں۔ اُن دنوں‘ جاری جنگی مہم جوئی دراصل یمن کی سرکاری فوج اور حوثیوں کے درمیان تھی۔ جب یہ لڑائی بڑھ کر سعودی عرب کی حدود میں جبل وفان تک پہنچی تو سعودی افواج دفاع کے لیے اس جنگ کا براہ راست حصہ بنیں۔ چھ ماہ کی زبردست جنگ کے بعد‘ 25جنوری کو امن کا معاہدہ طے پا گیا‘ جو کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوا۔ حوثیوں اور یمن کی سرکاری فوج کے درمیان جھڑپیں‘ معمول کی کارروائی بن گئیں۔ جب بھی حوثی قبائل‘ سرکاری فوج سے برسر پیکار ہوئے سعودی عرب ان کی فوجی مدد کو ضرور آیا۔ سو یمن کے اندر خانہ جنگی میں سعودی عرب کی تھوڑی بہت مداخلت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ یمن کی بدقسمت سرزمین‘ اس وقت دو طاقت ور بلاکس کے درمیان پراکسی وار کے لیے میدان جنگ ہے۔ موجودہ حالات میں عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان اور ایران کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اگر وہ دونوں مل کر کوشش کریں اور اپنے اپنے
حلقہ اثر میں آنے والوں یعنی سعودی عرب اور حوثیوں کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں تو مسلمانوں کی اس سے بڑی خدمت کوئی نہیں ہوگی۔ ارشاد ربانی ہے ''الصلح خیر‘‘ صلح سب سے بہتر ہے۔ موجودہ صورتحال میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہودوہنود کی اسلحہ فیکٹریاں‘ ہم مسلمانوں کے سہارے چل رہی ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ علم و عرفان کے اس دور میں بھی‘ ہم نے اغیار کی سازشوں سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اپنا قیمتی سرمایہ جو اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے‘ مغرب کی تجوریاں بھرنے کے کام آ رہا ہے۔
آج8اپریل ہے۔ اور سندھ حکومت 9,8اور 10اپریل کو تھر کے قحط زدہ باسیوں کے درمیان‘ صحت اور غذائیت میلہ منانے جا رہی ہے۔ سندھ حکومت میں شامل ان شہ دماغوں پر حیرت ہوتی ہے‘جنہیں یہ آئیڈیا سوجھا کہ تھر میں‘ غذائیت اور صحت کے حوالے سے مہم کو میلہ کا نام دیا جائے۔ کیونکہ اس لفظ کے ساتھ خوشی‘ میلہ اور ہلا گلا کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بدقسمت بستی میں کسی میلے ٹھیلے کا کیا کام جہاں ہر روز موت مائوں کی گودوں سے نحیف‘ نزار اور بیمار بچے چھین کر لے جاتی ہے۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب تھر میں بیماری اور بھوک سے مرنے والے ننھے پھولوں کی خبر نہ آتی ہو۔ مرنے والے بچوں کے اعدادو شمار ہر روز پرانے ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر روز اس گنتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔گزشتہ سات برسوں سے سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے وزیر بڑی ڈھٹائی سے یہ بیان دیتے پھرتے ہیں کہ گزشتہ حکومتوں نے تھر کے باسیوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘ اب ہمیں ان کے درد کا مداوا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف تھر میں روزانہ اموات ہو رہی ہیں اور تھریوں کے بھوک سے نڈھال چہرے خود ان کی بے بسی کی کہانی سنا رہے ہیں‘ تو دوسری طرف سندھ حکومت تھر میں اپنی شاندار کارکردگی کے ڈھنڈورے پیٹ رہی ہے۔ اب تین دن اس ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن (صحت اور غذائیت) فیسٹیول پر بھی‘ کروڑوں روپیہ لگا دیا جائے گا۔ فائلوں کا پیٹ بھرا جائے گا اور اس شاندار میلے کے انعقاد پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جائیں گی۔ بے زبان‘ غربت زدہ تھری‘ سرکار کے اس ڈرامے کے بعد بھی‘ روزاپنے بچوں کو قبروں میں اتارتے رہیں گے۔
تھر کے باسیوں کو صحت‘ غذائیت ‘ اور بچوں کی ویکسینیشن بارے آگاہی دینا صرف چند روزہ میلے کے ذریعے ممکن نہیں‘ یہ ایک سنجیدہ کام ہے‘ مسلسل مہم ہے اور اسے اسی طریقے سے انجام پانا چاہیے۔ وقتی واہ واہ سمیٹنے اور صرف فائلوں کا پیٹ بھرنے کی بجائے‘ حکومت سندھ اس پر قومی سطح کا تھنک ٹینک بنائے جو پوری تحقیق کے بعد تھر کے مسائل اور اس کے ممکنہ حل کے لیے اپنی ماہرانہ تجاویز دیں پھر ان کی روشنی میں کام کا خاکہ تیار ہو۔ اس پروجیکٹ میں مخلص‘ حساس اور کمٹڈ افراد شامل ہوں تاکہ تھریوں کی بہتری کے لیے واقعی کچھ کیا جا سکے‘ تھنک ٹینک کی سفارشات پر ہر آنے والی حکومت عمل کرنے کی پابند ہو۔ خدا کے لیے اس بات کو سمجھیے اور محسوس کیجئے کہ ہڈیوں پر منڈھی کھال‘ زرد خدوخال اور بھوک سے نڈھال یہ مخلوق جو پانی کی بوند بوند کو ترستی‘ ہر روز اپنے بچے دفناتی ہے‘ یہ بھی میری اور آپ کی طرح انسان ہیں۔ ان کے مسائل کا اسی طرح ادراک کیجئے۔سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرنے کی بجائے، متاثرہ انسانوں کا پیٹ بھرنے کے اقدامات کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved