بڑا عرصہ ہوا سکینڈلز میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے۔ اللہ بھلا کرے زرداری اور گیلانی صاحبان کا‘ جن کی حکومت میں یہ درد سر بھی ختم ہوا کہ کسی خبر یا سکینڈل پر کوئی ردعمل دینا ہوتا ہے۔ڈاکٹر ظفر الطاف بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو جب بھی کابینہ کے اجلاس میں آتیں تو اخبارات کی فائل ساتھ ہوتی اور وہ ہر سیکرٹری کو رگڑ کر رکھ دیتی تھیں کہ آپ کی وزارت میں یہ کرپشن کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ سب خوف سے کانپ رہے ہوتے تھے۔ نواز شریف آئے تو وہ الٹا سکینڈلز فائل کرنے والوں کو فکس اپ کرنے لگ گئے نہ کہ اپنے قریبی عزیزوں اور وزراء کو‘ جن پر الزامات لگتے تھے۔ جنرل مشرف اور شوکت عزیز آئے تو انہوں نے ایک اور کام کیا ۔ جھوٹی ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ اداکاری کرنی پڑتی تھی تاکہ میڈیا اور عوام یہ نہ سمجھیں کہ سیاسی اور فوجی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ لوٹ مار جنرل مشرف دور میں بھی تھی لیکن جنرل مشرف کو دو فائدے تھے۔ شوکت عزیز کے ایک فون پر خبر رک جاتی اور جنرل مشرف کی دہشت کی وجہ سے میڈیا مالکان سکینڈلز چھپنے ہی نہیں دیتے تھے۔ رپورٹرز اگر لاتے بھی تو بہانے بنا کر یا ڈانٹ ڈپٹ کر کے سکینڈل روک دیے جاتے۔ رپورٹر ہی شرمندہ ہوجاتا ۔ اگر چھوٹے موٹے سکینڈلز چھپ بھی جاتے تو ایسے اداکاری کی جاتی جیسے ابھی قیامت آجائے گی۔ بیوروکریٹس نے بھی کچی گولیاں نہیں کھائی تھیں۔ جیسے ہی خبر چھپتی، وہ سارے کام چھوڑ کر خبر کی تردید کر کے صاحب کو اطلاع کر دیتے۔ کسی نے نہ پوچھا خبر سچی تھی یا جھوٹی۔ یہی کہا جاتا‘ پوری فائل لائو ہم خود دیکھیں گے کہ تردید جانی چاہیے یا سکینڈل کے کردار کو جیل۔ ہر خبر اور سکینڈل کی تردید کر کے ہی جان چھڑا لی گئی ۔
زرداری اور گیلانی دور میں یہ اہتمام بھی نہ رہا ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو کھل کر لکھنے دو۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ایک دفعہ وزیراعظم گیلانی کے خلاف ایک سکینڈل چھپا ۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے‘ اس میں سچائی نہیں ہے۔ انہوں نے جو بتایا اس میں کچھ وزن تھا۔ میں نے کہا‘ آپ اخبار کو اپنی وضاحت کیوں نہیں بھیج دیتے۔ ایک شان بے نیازی سے بولے۔ کس کس کو وضاحت کرتے پھریں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ میں نے کہا اگر آپ نے وہ غلط کام نہیں کیا تو پھر خاموش رہنے سے فرق پڑتا ہے۔ پھر بولے۔ کیا فرق پڑتا ہے!
پیپلز پارٹی دور میں سکینڈلز اور خبروں کی اہمیت پر ردعمل نہ دے کر سکینڈلز کو ختم کیا گیا۔ روزانہ سکینڈل نے جہاں لوگوں میں مایوسی پھیلائی وہاں سیاستدانوں نے بھی کمر کس لی اور پھر فری فار آل ہوگیا۔ ہاں ایک اہتمام ضرور کیا گیا کہ نیب اور ایف آئی اے میں چن چن کر ایسے افسران کو لگایا گیا جن سے کوئی باضمیر سوال و جواب کر ہی نہ سکے۔ سو‘ ڈاکٹر عاصم حسین جیسوں کی قسمت کھل گئی۔ کسی کے اکائونٹس سے کروڑوں ملے تو کسی نے حج سکینڈل سے مرسیڈیز خرید لیں۔ زرداری صاحب نے اسے میڈیا کی آزادی کا نام دے کر الٹا ہم سب سے داد سمیٹی ۔ اب جو کرپشن کی دیومالائی کہانیاں سندھ سے سننے کو مل رہی ہیں اس کے بعد تو پیپلز پارٹی جو اسلام آباد پر حکومت کرتی تھی‘ فرشتہ لگتی ہے۔
نواز شریف کے بارے میں خطرہ تھا کہ شاید وہ میڈیا سے پنگا لیں گے؛ تاہم انہوں نے سوچا کہ میڈیا نے پیپلز پارٹی کی کرپشن پر کیا بگاڑ لیا تھا۔ انہیں بھی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ میڈیا کو رپورٹ کرنے دیں۔ الٹا سب پر احسان کریں گے کہ دیکھو آپ ہماری کرپشن بے نقاب کرتے ہو اور ہم کچھ نہیں کہتے۔ جیسے یہ حکمران میڈیا کو کرپشن بے نقاب کرنے پر کچھ نہیں کہتے‘ ویسے ہی نیب‘ ایف آئی اے اور عدالتیں انہیں کچھ نہیں کہتیں۔ سب کا کام چل رہا ہے۔ نیب اور ایف آئی اے نے ان سیاستدانوں کو بہادر بنا دیا ہے۔ اب وہ سینہ تان کر ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھتے ہیں اور چہرے پر ایک فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ اگر وہ کرپٹ ہیں تو کیا ان سے پہلے والے فرشتے تھے؟ اور اس جملے پر قوم سمیت ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے سب ہنس پڑتے ہیں ۔
ایک تازہ تازہ سکینڈل آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
پاکستان میں پچھلے سال بمپر گندم فصل کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے پاس بارہ لاکھ ٹن کا سٹاک موجود تھا ۔ سیکرٹری زراعت سیرت اصغر نے ای سی سی کو سمری میں انکشاف کیا کہ فلور ملز اور پرائیویٹ سیکٹر نے خاموشی سے روس اور یوکرائن سے زیرو ڈیوٹی پر سات لاکھ ٹن گندم پاکستان منگوا لی تھی۔ پتہ چلا کہ وہ گندم ناکارہ اور خراب تھی جسے آٹا بنا کر پوری قوم کو کھلایا جارہا تھا جبکہ حکومت اور اس کے ادارے سوئے رہے۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ کیسے زیرو ڈیوٹی پر گندم امپورٹ کی اجازت دی گئی جب سندھ اور پنجاب کے پاس بارہ لاکھ ٹن گندم سٹاک میں پڑی تھی؟ حکومت کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب فلورز ملز نے حکومت سے گندم نہیں خریدی ۔ پنجاب اور سندھ حکومت نے بینکوں سے اربوں روپے کا کمرشل قرضہ لے کر گندم خریدی تھی جس پر سالانہ تین ارب روپے سود بھی ادا ہو رہا تھا ۔ حکومتیں توقع کر رہی تھیں کہ فلور ملز گندم خریدیں گی تو پھر وہ بینکوں کو ادائیگی کریں گے۔ پتہ چلا کہ فلور ملز نے تو زیرو امپورٹ ڈیوٹی پر سات لاکھ ٹن گندم منگوالی تھی۔ اس پر وزارت زراعت جاگی کہ امپورٹ ڈیوٹی لگائیں‘ مگر اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ سات لاکھ ٹن گندم منگوائی جاچکی تھی جب کہ حکومت کے پاس بارہ لاکھ ٹن گوداموں میں پڑی تھی اور اب مارچ اپریل میں نئی فصل بھی تیارہونے والی ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ شہباز شریف اور قائم علی شاہ نے دو خطوط اسحاق ڈار کو لکھے کہ وہ انہیں ٹی سی پی کے ذریعے گندم ایکسپورٹ کرنے کے لیے ستر ڈالر فی ٹن سبسڈی دیں تاکہ وہ گندم کے سٹاک باہر بھیج کر نئی فصل خریدنے کی تیاری کریں۔ اس خط میں پنجاب اور سندھ نے باقاعدہ لکھ کر بتایا کہ فلور ملز اور پرائیویٹ سیکٹر نے گھٹیا گندم منگوا کر ملک کو نقصان پہنچایا تھا اور اب پاکستانی کسانوں کی اپنی گندم ضائع ہورہی ہے۔ اسحاق ڈار نے 23 جنوری 2015ء کو ای سی سی کے اجلاس میں پنجاب اور سندھ کو 55 اور 45 ڈالرز فی ٹن کی سبسڈی دے دی۔
اصل کھیل اس وقت شروع ہوا جب دو ہفتے بعد پنجاب اور سندھ نے یوٹرن لیا اورنئی ''حیران کن سفارش‘‘ کی کہ یہ کروڑوں ڈالرز ٹی سی پی کی بجائے انہی فلور ملز اور پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیںجنہوں نے پاکستانی کسانوں کی گندم نہیں خریدی تھی بلکہ روس سے منگوائی تھی۔ اسحاق ڈار نے ذرا دیر نہیں لگائی۔ فیصلہ ہوا کہ اب یہ ڈالرز انہی کو ملیں گے اور اب وہ روس کی گندم سے بنایا گیا آٹا ایکسپورٹ کریں گے۔ یوں اب عوام کی جیب سے کروڑوں روپے ارب پتی اور ملک کو نقصان پہنچانے والے فلور ملز مالکان اس آٹے کی ایکسپورٹ پر لگائیں گے اور الگ سے نفع کمائیں گے۔
اندازہ کریں اس ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ پہلے تو اسحاق ڈار کو اس پر انکوائری کرنی چاہیے تھی کہ پاکستان میں بارہ لاکھ ٹن گندم کی سٹاک میں موجودگی کے باوجود کیسے پرائیویٹ سیکٹر نے روس اور یوکرائن سے زیرو ڈیوٹی پر سات لاکھ ٹن گھٹیا کوالٹی گندم منگوا لی تھی اور پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے بعد ان اداروں کے خلاف کارروائی ہوتی جن کا کام ایئرپورٹ پر گندم کی کوالٹی چیک کرنا تھا۔
حیرت اور دکھ ہے کہ جنہیں اس وقت نیب اور ایف آئی اے کی تحویل میں ہونا چاہیے تھا‘ انہیں الٹا کروڑوں ڈالر کی سبسڈی دی گئی ہے‘ تاکہ روسی گندم کے آٹے کو ایکسپورٹ کرنے میں انہیں تکلیف نہ ہو۔ پرائیویٹ سیکٹر والے پہلے بھی فائدے میں رہے جب روس سے گھٹیا کوالٹی کی سستی گندم خریدی اور اس کا آٹا پاکستان میں بیچا۔ اب اسحاق ڈار اور پنجاب اور سندھ حکومت کی مدد سے چپکے سے پاکستانیوں کی کمائی سے سبسڈی بھی لے لی اور اب اسی گندم کے آٹا کو دنیا بھر میں بیچیں گے۔ کوئی بتائے گا کہ ہمیں کوئلوں کی اس دلالی میں کیا ملا ہے؟ پاکستانی عوام کا پیسہ روس اور یوکرائن کے کسانوں کی گندم اور آٹا بیچنے کے کام آرہا ہے۔ جب کہ اپنے کسانوںکی بارہ لاکھ ٹن گندم گوداموں میں ضائع ہورہی ہے اور ابھی اربوں روپے بینکوں کو بھی ادا کرنے ہیں؟
داد دیں اس اجلاس کے شرکاء کو جن میں تیس کے قریب وفاقی وزراء اور سیکرٹریز شامل تھے، جن کی موجودگی میں قوم کو اربوں روپے کا نقصان دینے والوں کو الٹا ڈالروں سے نوازا گیا۔ مجال ہے ان میں سے ایک بھی بولا ہو کہ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ ان سب کی خاموشی جرم نہیں بلکہ اب پاکستان کے پاورفل لوگوں کے نزدیک ایک رواج اور پاکستان میں زندہ رہنے کا فن ہے۔
چلیں چھوڑیں‘ پہلے کون سا آسمان گرا ہے کہ اب گرے گا ۔ دل چھوٹا نہ کریں ۔ کون سا یہ پہلا اور آخری سکینڈل ہے۔ ہر دور کے حکمرانوں اور ان کے کاروباری دوستوں کا کام اس ملک اور قوم کو لوٹنا ، میرا کام اس لوٹ مار کے بارے میں لکھنا اور آپ کا کام پڑھنا ہے۔ وہ لوٹتے رہیں گے‘ میں لکھتا رہوں گا اور آپ پڑھتے رہیں گے۔ اچھی اور مثبت بات یہ ہے ہم تینوں اپنا اپنا کام پوری کمٹمنٹ، محبت اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کر رہے ہیں!