تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-04-2015

ٹوٹے

نیکوکارا
ایک اخباری اطلاع کے مطابق آئی جی آفس میں اعلیٰ پولیس آفیسرز کا ایک خصوصی اجلاس ہوا ہے جس میں پی ایس پی پولیس آفیسرز سراپا احتجاج بن گئے‘ اور برطرف آفیسر مذکور کے خلاف اس ناروا سلوک پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں 53 پی ایس پی آفیسرز نے حصہ لیا جب کہ 12 افسروں نے ٹیلیفون پر اس میں شرکت کی۔ یہ محض ایک خالی خولی اور پھوکا احتجاج ہے جس کا نتیجہ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ کیا آئی جی حکومت سے کہہ سکیں گے کہ آپ کا یہ فیصلہ غلط تھا‘ اس لیے اسے واپس لیا جائے؟ اگر احتجاج کرنا تھا تو کوئی مؤثر طریقہ اختیار کیا جاتا‘ مثلاً ہڑتال کا نوٹس دیا جاتا یا مظاہرہ کیا جاتا۔ بیشک ہڑتال قانونی طریقہ نہیں ہے لیکن کیا یہ برطرفی قانونی طریقے سے کی گئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے افسروں کو خوشامدی ٹٹّو بنا کر رکھ دیا ہے اور سب کو اپنی اپنی پروموشن وغیرہ کی فکر رہتی ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا‘ اور کل کو کسی اور کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جا سکتا ہے۔ اول تو ان میں ریڑھ کی ہڈی پہلے ہی نہیں ہوتی‘ حالانکہ یہ حضرات مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے ہوتے ہیں‘ کسی سفارش کے ذریعے نہیں‘ اور انہیں حکومت کی پھیلائی ہوئی دہشت کی اس فضا سے باہر نکل کر اپنے معاملات کو دیکھنا چاہیے اور اپنی عزت نفس کا خود خیال کرنا چاہیے کیونکہ حکومت جب انہی کے سہارے اپنا کام چلا رہی ہے تو انہیں اپنے حقوق اور عزت بے عزتی کا بھی ادراک ہونا چاہیے ورنہ نیکوکاروں کی ایک لائن ہی لگتی چلی جائے گی یا سب لوگ جی حضوری بن کر اپنا وقت گزار رہے ہوں گے اور اس سے حاصل کردہ عبرت ہی کو کافی سمجھیں گے۔
کرپشن
چیئرمین نیب چودھری قمر زمان کا کہنا ہے کہ کرپشن کا ناسور پورے انتظامی ڈھانچے میں پھیل چکا ہے جس کی بیخ کنی کے لیے موصوف نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ابھی چند روز ہی پہلے خادم اعلیٰ نے دعویٰ کیا تھا کہ معاشرے کو کرپشن سے پاک کردیا گیا ہے اور حکومت کے خلاف کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ اب آپ ہی بتایئے کہ کس کا اعتبار کیا جائے۔ اگر وزیراعلیٰ کا بیان درست ہے تو انہیں چاہیے کہ پہلی فرصت میں چیئرمین نیب کو نیکوکارہ بنا کر رکھ دیں جنہوں نے اتنی بڑی غلط بیانی سے کام لیا ہے‘ اور جہاں تک سکینڈلز کا تعلق ہے تو وہ منظرعام پر آئیں بھی تو حکومت کی موٹی کھال‘ پر اس کا اثر ہی نہیں ہوتا اور یہ آئے دن کی بات ہے۔ روٹی پلانٹ کے حوالے سے اربوں کی کرپشن کا واویلا اب تک سنائی دیا کرتا ہے۔ میٹرو بس کے دروازوں کی خریداری میں گھپلوں کے بارے میں انہی کالموں میں تحریر کیا جا چکا ہے۔ تازہ ترین شگوفہ یہ پھوٹا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ایک اطلاع کے مطابق راولپنڈی میں اس منصوبے کے کھڑپینچ نے ایک چینی کمپنی سے بس سٹیشنوں کے لیے شیشے کی خریداری کا معاہدہ 60 کروڑ میں کیا جس میں سے 28 کروڑ روپیہ اپنے کمیشن کے طور پر پہلے ہی کھرا کر لیا گیا۔ شیشے کا نمونہ آیا تو ایک ادارے نے اسے انتہائی ناقص قرار دیا کہ یہ قابلِ استعمال ہے ہی نہیں!
درآمدی گندم کا سکینڈل
یہ خبر تو اب اتنی نئی نہیں رہی کہ صوبہ پنجاب اور خصوصاً صوبہ سندھ میں گندم کے 12 لاکھ ٹن سے زائد ذخائر کی موجودگی کے باوجود فلور مل مالکان نے حکومت کی اجازت سے یہ گندم خریدنے کی بجائے انتہائی ناقص گندم روس سے درآمد کر لی۔ حکومت نے کسانوں پر اس ظلم کے باوجود فلور مل مالکان سے کوئی بازپرس نہ کی بلکہ انہیں اجازت دے دی کہ اس کا آٹا بنا کر ڈیوٹی فری برآمد کردیں‘ اور ساتھ ہی انہیں معقول سبسڈی بھی دے دی۔ یہ سکینڈل جب سطح پر آیا اور وزیراعظم کے نوٹس میں لایا گیا تو موصوف نے فرمایا کہ میں خود اپنی نگرانی میں اس کی انکوائری کرائوں گا اور ذمہ داران کو سزا دلائوں گا‘ لیکن اس کے بعد حسبِ معمول اس بارے کوئی خبر نہیں آئی کہ موصوف نے کیا انکوائری کروائی ہے‘ اور ذمہ داران کو کیا سزا دلوائی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے یہ ہمارے ہاں معمول کی بات ہے کہ جب بھی کوئی سکینڈل منظرِ عام پر آتا ہے‘ تھوڑے ہی عرصے میں وہ قصۂ پارینہ بن کر رہ جاتا ہے بلکہ ایسے سکینڈل باہر نکالنے والوں ہی کی زندگی حرام کردی جاتی ہے۔
حبیب بینک کا قصہ
یہ ادارہ جو اچھا بھلا منافع دے رہا تھا‘ اسے نجکاری کی بھینٹ اس طرح چڑھایا جا رہا ہے کہ اس میں حکومت کے 42 فیصد حصوں کی فروخت 90 روپے فی حصہ کی پیشکش کی بجائے انہیں 66 روپے کے حساب سے بیچا جا رہا ہے اور جس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی جا رہی‘ اور وجہ پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اور حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اس کی وجہ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے کرم فرما اسحق ڈار صاحب کے زیر انصرام ہو رہا ہے‘ جبکہ ایک ا خباری اشتہار کے مطابق اس فروخت کا سارا لین دین ایک بینک کے ذریعے ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ ایسے تقریباً جملہ معاملات کا لین دین اس بینک کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اس کی بھی کبھی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی کہ اتنے بینکوں کے ہوتے ہوئے صرف اس ایک بینک ہی کو کیوں اس سعادت کے قابل سمجھا گیا ہے۔ کیا اس لیے کہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں!
اکادمی ادبیات لاہور
ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق اکادمی ادبیات جیسے وقیع ادارے کو 30 سال بعد بھی پنجاب میں کوئی دفتر میسر نہیں آ سکا جبکہ عارضی طور پر اس کا قیام علامہ اقبال ٹائون کی ایک تنگ گلی میں بالائی منزل پر واقع ہے اور بزرگ ادیبوں کے لیے اس کے اجلاس میں شرکت کے لیے اس کی سیڑھیاں چڑھنا اُترنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ نامور فکشن رائٹر اور اس کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر محمد عاصم بٹ نے ایک اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان لاہور میں دفتر قائم کرنے کے لیے حکومت پنجاب کو پلاٹ کی سرکاری ریٹ پر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے اور اس سلسلے میں پنجاب حکومت کو ایک تحریری درخواست بھی دی گئی ہے لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ برادرانِ اسلام عطاء الحق قاسمی اور شعیب بن عزیز اگر اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہوں تو یہ ایک طرح سے ان کی ادبی ذمہ داری بھی ہے اور امید ہے کہ وہ اس کا احساس کریں گے کہ پنجاب آرٹس کونسل کی طرح اکادمی بھی فن و ادب ہی کی ترویج میں مصروف ہے۔
آج کا مطلع
بیکار دل دھڑکتا ہے‘ دنیا کوئی نہیں
آنکھیں ترس گئی ہیں‘ تماشا کوئی نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved