تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-04-2015

لیڈرانِ کرام؟

ان لوگوں کو اپنی ذات سے کبھی فرصت بھی ملے گی؟ کبھی وہ اپنی قوم اور ملک کے بارے میں غوروفکر کی فرصت پا سکیں گے؟
ایک گم کردہ راہ معاشرہ اور اس کے عجیب و غریب لیڈر!
میاں محمد نواز شریف نے فرمایا: انہیں (عمران خان کو) معلوم ہی نہیں کہ کراچی سے خوف ختم کرنے کے لیے انہوں نے کتنی قربانی دی ہے۔ آٹھ دس برس پہلے کا ایک دن یاد آیا۔ لاہور میں تحریک انصاف پنجاب کے مرحوم صدر احسن رشید سے ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا کہ بازار میں بکنے والی چپاتی دو سے تین روپے کی ہو گئی۔ عام لوگ پریشان ہیں۔ زرداری صاحب نے ابھی اقتدار نہ سنبھالا تھا اور گندم کی قیمت 425 روپے فی من تھی۔ حساب کتاب لگا کر بتایا گیا کہ اگر کسی محلے میں لوگ تندور کی جگہ فراہم کرنے پر آمادہ ہوں اور اہلِ خیر تندورچی کی تنخواہ کا بوجھ اٹھا سکیں تو بہت آسانی سے دو روپے میں ایک روٹی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان سے کہا کہ چند ہزار روپے کا بندوبست ابھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے کاموں سے احسن صاحب کو ہمیشہ دلچسپی ہوا کرتی۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے بساط سے بڑھ کر عطیہ انہوں نے دیا تھا‘ ایک نہیں کئی بار۔ بلوچستان کو خشک سالی نے آ لیا تو بے آب و گیاہ زمینوں میں گھومتے پھرے اور جو کچھ جیب میں تھا‘ افتادگانِ خاک پہ لٹا دیا۔ کسی بھی بے روزگار اور محتاج کے لیے ان کا دامن کشادہ رہتا۔ ایک دن مجھ سے کہا: گاہے قرض دینا پڑتا ہے مگر وصول کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ گزارش کی: اس کھکھیڑ میں آپ کیوں پڑتے ہیں۔ اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب موجود ہیں۔ کیسا شاندار نظام انہوں نے وضع کیا ہے‘ روپیہ ان کے حوالے کر دیا کیجیے۔ وہ جانیں اور ان کا کام۔ داد و تحسین سے انہیں غرض ہی نہ تھی؛ چنانچہ ان سے ملے تو انہی کے ہو رہے۔
ایک ایک کر کے‘ لاہور میں پچیس تیس تندور انہوں نے کھول دیئے۔ زیادہ تر خود ہی بوجھ اٹھایا۔ شہباز شریف کہاں تک تاب لاتے۔ انہوں نے ایک سرکاری سکیم کا اعلان کر دیا۔ ''سستی روٹی سکیم‘‘۔ پھر محکمہ مال سے لے کر میونسپل کارپوریشنوں تک‘ ہزاروں افراد اس میں الجھ گئے۔ جیسا کہ اس طرح کے سرکاری منصوبوں میں ہوا کرتا ہے‘ مفلسوں سے زیادہ امرا کو فائدہ پہنچا۔ گندم مہنگی ہوتی چلی گئی۔ درمیانے درجے کے بہت سے ہوٹلوں نے تندور اور تندورچی دونوں سے جان چھڑائی۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے لگے۔ انہی دنوں‘ لاہور سے تعلق رکھنے والے نون لیگ کے ایک رکن اسمبلی نے دوسرے کے بارے میں بتایا کہ اس کی فلور مل سے خریدے گئے ٹرکوں میں تھیلے ہمیشہ کم ہوتے ہیں‘ کبھی کبھی تو آدھے ہی۔ خیر سے‘ اب دونوں وفاقی وزیر ہیں۔ دو انتہائی اہم وزارتوں کے نگران۔ تھیلے والا اب بھی تھیلے بیچتا ہے‘ معلوم نہیں‘ کس کو اور شکایت کنندہ پلاٹ فروخت کرتا ہے۔ نواحِ لاہور کے چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں کو کاشتکاری کی کٹھنائیوں سے نجات دلا کر ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتا ہے۔ کروڑ پتی سے ارب پتی ہو گیا اور آئے دن الیکشن ٹربیونل کے چکر لگایا کرتا ہے۔
سستی روٹی کی لاگت بڑھتی گئی۔ فریاد سے بات لطیفوں تک پہنچی اور ایک ایک زبان پر آ گئی۔ شہباز شریف مگر مان کر نہ دیئے۔ تاآنکہ 2009ء کے سیلاب نے سب کچھ زیر و زیر کر ڈالا اور انہیں جواز مل گیا‘ جس طرح کہ سانحہ پشاور کے بعد عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا... شریف خاندان نے اپنی محروم اور مجروح قوم کے لیے ایسی کتنی ہی قربانیاں دی ہیں۔ تازہ ترین مثال میٹرو بس ہے‘ جس پر سو ڈیڑھ سو ارب روپے برباد ہوں گے اور بالآخر اس کا حال جی ٹی ایس والا ہو گا۔ سرکاری شعبے میں کاروبار کا تجربہ کب کامیاب ہوا ہے کہ اب ہو گا۔
کراچی میں نون لیگ کی قربانیاں بھی اسی قماش کی ہیں۔ رینجرز کے کتنے جوان شہید ہوئے‘ کتنے پولیس والے مگر کارنامہ یہ میاں صاحب کا ہے۔ لاہور کا مفتوح پریس زندہ ہوتا تو کوئی ان سے پوچھتا کہ حضور‘ کراچی میں آپ کے کسی آدمی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔ فیصلے سب کے سب عسکری قیادت نے کیے۔ رات رات بھر‘ جس کے افسر جاگتے ہیں یا پولیس کے چند باضمیر جو ہمیشہ حکومت سندھ کے عتاب کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے سوا میاں صاحب نے کیا کارنامہ انجام دیا کہ سال میں دو تین بار کراچی تشریف لے جاتے ہیں۔ مقتل میں تو جماعت اسلامی کھڑی ہوئی یا اب تحریک انصاف۔ جماعت اسلامی نے ایک ایک دن میں بارہ بارہ شہیدوں کے جنازے اٹھائے۔ آپ سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا کہ سندھ حکومت کی کرپشن کو لگام دینے کی کوشش کریں‘ جہاں ملازمین کیا‘ اخبارات کے اشتہار تک بکتے ہیں۔ سائن بورڈ لگانے کے لیے فٹ پاتھ تک بیچے جاتے ہیں۔ بات حد سے بڑھی تو چیف آف آرمی سٹاف کو اپیکس کمیٹی کے لیے اصرار کرنا پڑا۔ کبھی آپ نے زرداری صاحب سے گزارش کی ہوتی کہ خدا کے لیے بس کیجیے۔ جس ملک کی معیشت زخمی ہو‘ اس کے مستقبل پر کچے دھاگے سے بندھی شمشیر لٹکتی رہتی ہے۔
کبھی ان لیڈران کرام کو یہ توفیق ارزاں ہو گی کہ تھوڑی سی عالی ظرفی کا مظاہرہ کریں‘ کچھ کسر نفسی اور انکسار کا‘ دوسروں کی قربانیوں کے کچھ اعتراف کا؟ رینجرز کا جو سپاہی آدھی رات کو جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کا سامنا کرتا ہے‘ اپنے لیڈر سے کبھی وہ حرفِ تحسین سنے گا؟
زرداری صاحب نے فرمایا: بلاول کی جوانی اور سیاست maturity کو پہنچے گا تو سیاسی ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے گی۔ ان کے جملے کا دوسرا حصہ بھی انگریزی میں تھا اور ناقص انگریزی۔ ہمارے لیڈروں کا خیال یہ ہے کہ انگلش کی اگر روایتی اصطلاحات استعمال کی جائیں تو بات میں کچھ وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ جی نہیں‘ حضور‘ سچائی کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔
مسئلہ اگر پختگی کا ہوتا تو بلاول کو سالِ گزشتہ میدان میں اتارنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ جی ہاں ناپختہ وہ ضرور ہے اور آغاز کار میں سبھی ہوتے ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ مسئلہ کچھ اور ہے۔ سندھ حکومت کے بدعنوان وزیروں سے وہ نالاں ہے‘ جن کی کارکردگی گھٹتی جاتی ہے اور دبئی میں کاروبار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ذرہ ذرہ اپنی متاع وہ لٹتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ شہزادے کو اندیشہ ہے کہ رفتہ رفتہ سب کچھ برباد ہو جائے گا‘ جب تک مسندِ اقتدار کا ا مکان جنم لے گا‘ خاکستر کے سوا کچھ بھی باقی نہ بچے گا۔
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
عجیب شعبدہ بازی ہے‘ عجیب ریاکاری اور عجیب مبالغہ آمیزی۔ ہر روز پیپلز پارٹی کا کوئی لیڈر ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ باپ بیٹے میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ ارے صاحب اختلاف نہیں تو نانا اور ماں کی برسی میں وہ شریک کیوں نہ ہوا؟ کیا ایسا ہی وہ کٹھور ہے۔ لندن میں اس کا کیا رکھا ہے۔ پاکستان وہ کیوں واپس نہیں آتا؟ سکیورٹی کے مسائل؟ باپ کے لیے کیا نہیں ہیں؟ اس کی بہنوں کے لیے کیا نہیں؟ وہی الطاف حسین والی منطق: میں تو آنا چاہتا ہوں‘ پارٹی مجھے آنے نہیں دیتی۔ میں تو مستعفی ہونا چاہتا ہوں‘ پارٹی ہونے نہیں دیتی۔
کراچی میں خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے بہت مایوس کیا۔ الطاف حسین کی ذاتِ گرامی کے سوا کوئی موضوع نہ تھا‘ جس پر بات کی جاتی‘ پانچ لاکھ جیتے جاگتے آدمیوں کا حلقہ ہے۔ دو کروڑ کا شہر ہے۔ ان کے کچھ مسائل ہیں۔ ان مسائل پر بات کی ہوتی۔ نامکمل پل‘ ٹوٹی ہوئی سڑکیں‘ خستہ حال پولیس‘ بھائیں بھائیں کرتے سرکاری دفتر‘ جن کے ملازم دفتر کبھی نہیں آتے۔ مگر مشاہرے کے علاوہ اوورٹائم بھی وصول کرتے ہیں۔ الطاف حسین کے لیے موضوع عمران خان ہیں۔ عمران خان کے لیے الطاف حسین۔
ان لوگوں کو اپنی ذات سے کبھی فرصت بھی ملے گی؟ کبھی وہ اپنی قوم اور ملک کے بارے میں غوروفکر کی فرصت پا سکیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved