گندے انڈے
ہمارے دیرینہ کرم فرما زرداری صاحب نے جو کہا ہے کہ ہمارے سمیت ہر پارٹی میں گندے انڈے موجود ہیں جو باہر نکالے جائیں‘ بہت اچھی بات ہے لیکن یہ گندے انڈے باہر نکالے گا کون؟ پھر یہ کہ کیا لوٹ مار کرنے‘ کمیشن کھانے‘ زراندوزی کرنے اور نوکریاں بیچنے والے اور کرپٹ گندے انڈے نہیں ہیں اور اگر پیپلز پارٹی میں سے ان کو نکال دیا جائے تو اعتزاز احسن‘ رضا ربانی اور قمر زمان کائرہ کے علاوہ پارٹی میں باقی کیا رہ جائے گا۔ اسی طرح اگر نواز لیگ میں سے یہ انڈے نکال دیئے جائیں تو چودھری احسن اقبال اور میاں عطا محمد مانیکا کے علاوہ اگر کوئی باقی رہ جاتا ہو تو ہمیں اس کی اطلاع ضرور دی جائے۔ پھر فرمایا کہ بلاول کو ابھی تربیت کی ضرورت ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ کوئی تین سال پہلے یہ بات پریس میں آ چکی تھی کہ ایک نام نہاد انکل نے زرداری صاحب سے‘ جو اس وقت چین کے دورے پر تھے‘ شکایت کی کہ برخوردار 3 کروڑ کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ کیا کروں؟ جس پر زرداری صاحب نے جواب دیا کہ یہ چچا بھتیجا کا معاملہ ہے‘ میں اس میں کیا کر سکتا ہوں۔ چنانچہ اگر برخوردار نے یہی تربیت حاصل کرنی ہے تو اس فن میں وہ ماشاء اللہ پہلے ہی طاق ہیں‘ اب ان کی مزید تربیت کی کیا ضرورت ہے کہ اسی تربیت پر ہی تو پارٹی کا سارا دارومدار ہے‘ اور یہی اس کی اصل شناخت بھی ہے!
کہاں ہیں؟
محترم میاں نوازشریف نے پوچھا ہے کہ جو ہماری حکومت لپیٹنے آئے تھے وہ اب کہاں ہیں تو عرض ہے کہ جس وقت آپ یہ سوال کر رہے تھے وہ یعنی عمران خان کراچی میں ایم کیو ایم‘ جس کے خلاف وہ الیکشن لڑوا رہے تھے‘ کے لیڈروں سے اپنا استقبال کروا رہے تھے‘ ان سے گلدستے وصول کر رہے تھے اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔ آپ کی پارٹی کے گِٹوں گوڈوں میں اگر پانی ہوتا تو اس نشست سے وہ بھی الیکشن لڑتی۔ پھر پوچھا کہ عمران خان نے نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ تو کیا لیکن خیبر پختونخوا میں کیا کیا ہے‘ جہاں ان کی حکومت ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ وہاں پولیس میں سفارش ختم کردی گئی ہے جس سے اس محکمے میں کرپشن بھی برائے نام رہ گئی ہے۔ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کر کے پٹواری کلچر ختم کردیا گیا ہے‘ کسی حکمران یا بیوروکریٹ کے اپنے یا کسی عزیز کی طرف سے کوئی بزنس کرنے پر پابندی کا قانون نافذ کردیا گیا ہے‘ جس کے بانی اور موجد آپ ہیں۔ اس کے علاوہ پنچایت سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے جس سے عام آدمی کو انصاف اس کی دہلیز ہی پر مہیا ہوگا اور یہ پنچایتیں ہر گلی محلے اور دیہات میں کام کریں گی۔
چھوٹے میاں سبحان اللہ
عدل و انصاف کے گاڈفادر نے جس جوڈیشل کمیشن میں ازخود پیش ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اس کی تشکیل کے خلاف صاحبزادے سپریم کورٹ میں چلے گئے ہیں جن کے بارے میں ان کے ایک انکل نے والد صاحب ہی کی عدالت میں بیان دیا تھا کہ برخوردار پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں‘ جس کی تفصیل بھی عدالت میں بتائی گئی جس میں ایگزیکٹو کلاس میں دوستوں اور بعض رشتہ داروں سمیت ہوائی سفر کی سہولت‘ بیرون ملک مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام اور شاپنگ وغیرہ شامل تھی‘ لیکن اس کے باوجود وہ مقدمہ یوں غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ صاحبِ موصوف نے ایک بیان دیا تھا کہ انہوں نے بیٹے کی شادی قرض لے کر کی تھی لیکن اب اطلاع آئی ہے کہ وہ 8بیڈرومز کا گھر تعمیر کروا رہے ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چھپّر پھاڑا ہے تو اس کی نوعیت کیا ہے اور ابھی یہ کیا کیا رنگ اور بھی دکھائے گا ع
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
دھچکا؟
ایک تجزیہ کار دوست کا کہنا ہے کہ اگر جوڈیشل کمیشن نے عمران خان کے حق میں فیصلہ نہ دیا تو یہ عمران خان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ موصوف کو شاید یہ معلوم نہیں کہ عمران خان نے یہ خطرہ مول لے کر ہی یہ کمیشن بنوایا ہے جو بذات خود اس کی بہت بڑی فتح ہے اور حکومت نے ایک طویل عرصے تک جس کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکائے اور بالآخر اپنی شکست تسلیم کرلی۔ لوگ تو یہ بھی کہتے تھے کہ عمران خان نے دھرنا ختم کر کے سیاسی خودکشی کر لی ہے لیکن اب جو ہر جگہ اس کا والہانہ استقبال ہو رہا ہے وہ اس کی مزید مقبولیت کا مظہر ہے۔ اس کمیشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے‘ عمران خان اس وقت تک ایک ایسی جمہوری فضا بنانے میں ضرور کامیاب ہو چکے ہوں گے جس میں انتخابی اصلاحات سمیت ایسی تبدیلیاں آ چکی ہوں گی کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی کا اندیشہ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ ان کے مطالبہ پر پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر رینجرز کی تعیناتی بھی الیکشن کو صاف و شفاف بنانے میں مدد دے گی‘ پھر یہ بات کون نہیں جانتا کہ ان پر موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے برعکس نہ تو کوئی کرپشن کا الزام ہے اور نہ ہی انہیں آزمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت میں جو تسلیم شدہ کرشمہ ہے وہ ایک مزید پلس پوائنٹ ہے اور عوام آزمائے ہوئے ٹھگوں سے ہر قیمت پر نجات چاہتے ہیں جنہوں نے ہر بدی کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔
آج کامطلع
بہت کچھ ہو تو سکتا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہو گا
مجھے معلوم ہے اس پر اثر کچھ بھی نہیں ہو گا