اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اگر تم نے رسول کی مدد نہیں کی تو اللہ اُن کی مدد کرچکا ہے، جب کافروں نے ان کو جلاوطن کردیا تھا، دراں حالیکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں نماز میں تھے، جب وہ اپنے صاحب سے فرما رہے تھے: غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، سو اللہ نے ان پر اپنی سکینہ (قلبی قرار واطمینان) نازل فرما دی اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد فرمائی جن کو تم نے نہیں دیکھا اور (اللہ نے) کافروں کی بات کو نیچا کردیا اور اللہ کا دین ہی (درحقیقت) بلند وبالا ہے اور اللہ بہت غلبے والا، بڑی حکمت والا ہے‘‘(توبہ:40)۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے سفرِ ہجرت اور غارِ ثور کا منظر بیان فرمایا ہے۔ اس آیت میںرسول اللہﷺ کے خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر سات مرتبہ آیا ہے۔ (1)''ثَانِیْ‘‘ ،دوسرا، کیونکہ اوّل تویقینا اللہ کے رسول ہیں، (2)''اِثْنَیْنِ‘‘،دو، اس کلمے میں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق دونوں کاایک ساتھ ذکر ہے، (3)''ھُمَا‘‘ دونوںا ور دوسرے یقینا صدیق اکبر ہیں، (4) ''صَاحِب‘‘ ساتھی اور غارِ ثور میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک ہی ساتھی ابوبکر صدیق تھے، (5)''لاتَحْزَنْ‘‘، تم غم نہ کرو، اس کا مصداق بھی صرف اور صرف صدیقِ اکبر ہیں، (6)''مَعَنَا‘‘ ،ہمارے ساتھ، رسول اللہﷺ کے ہمراہ یقینا صرف ابو بکرصدیق تھے، (7)''فَاَنزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ‘‘ اللہ نے اُس پر سکینہ اور طمانیت نازل فرمائی۔ ایک آیت میں سات بار مدح کے انداز میں ذکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کی دلیل ہے۔اِس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت قطعی ہے اور مُفسّرین نے لکھاہے کہ آپ کی صحابیت کا انکار کفر ہے،کیونکہ غارِ ثور میں رسول اللہﷺ کے ساتھ اُن کے علاوہ اور کوئی تھاہی نہیں کہ اس کے مصداق پر کسی اختلاف یا تاویل یا ترجیح کی گنجائش ہوتی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نہ صرف غارِ ثور میں آپ کے ساتھ ''ثانی‘‘ تھے، بلکہ آپ اسلام قبول کرنے کے بعد تبلیغِ اسلام میں بھی ثانی ہیںاور آپ ہی کی تبلیغ سے سابقینِ اوّلین میں سے حضرت طلحہ، حضرت زبیراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ نے رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارَکہ میںآپ کے حکم پر امامت فرمائی اور اس منصب پر بھی ثانی قرار پائے۔ آپﷺ کے خلیفہ بلا فصل ہونے میں بھی آپ کے ثانی بنے، اسی طرح روضۂ انور میں بھی آپ ثانی ہیںاور حشر اور دخولِ جنت میں بھی آپ کے ثانی ہوں گے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت مُرّہ بن کعب پر رسول اللہﷺ سے جاملتا ہے۔
سفرِ ہجرت کے موقع پر رسول اللہﷺ نے اہلِ مکہ کی امانتیں لوٹانے کے لیے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہجرت کی شب اپنے بستر پر لٹایا اور سفرِ ہجرت کی تیاری اور دیگر مراحل کے لیے نہ صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا مَحرمِ راز بنایا بلکہ آپ کی اہلیہ محترمہ ، آپ کی صاحبزادی، آپ کے صاحبزادے، آپ کے غلام سب اس راز کے امین تھے۔ تاج دارِ نبوت کے لیے سواری، زادِ راہ اور دیگر ضروریات کا اہتمام آپ اور آپ کے اہلِ خانہ نے کیا۔ جب آپ غارِ ثور کی طرف گئے تو آپ کے غلام نشاناتِ قدم پر بکریاں لے جاتے تاکہ کفارِ مکہ نشاناتِ قدم پر تعاقب کرتے ہوئے آپ کا سراغ نہ لگاسکیں۔ آپ کے غلام اور آپ کے صاحبزادے بکریوں کا دودھ لے کر آتے اور رات کو کفارِ مکہ کی چالوں اور اقدامات کے بارے معلومات فراہم کرتے۔ الغرض اگر ایک طرف تاج دارِ کائناتﷺ نے کفارِ مکہ کی امانتیں لوٹانے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امین بنایا تو دوسری جانب امانتِ رسول‘ نبوت کی حفاظت نہ صرف ذاتِ ابوبکر صدیق بلکہ آپ کے پورے خانوادے کو امین اور مَحرمِ رازبنایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نگاہِ نبوت میں اگر کوئی شخصیت اور خانوادہ سب سے زیادہ قابلِ اعتماد تھا ، تو وہ حضرت ابو بکر صدیق کی شخصیت اور آپ کا خانوادہ تھا، یہ ایسا اعزاز ہے کہ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے، کم ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق کی رسول اللہﷺ سے فطری مناسبت کا عالَم یہ تھا کہ جب آپ غارِ حرا سے پہلی وحیِ ربّانی لے کر اپنے گھر آئے اور بشری تقاضے کے تحت آپ پر نبوت کی بھاری ذمّے داری کے احساس سے گھبراہٹ طاری تھی تو آپ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:''اللہ کبھی بھی آپ کو رسوائی سے دوچار نہیں فرمائے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں ، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔اسی طرح جب حضرت ابوبکر صدیق اہلِ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے نکلے تو راستے میں مکے کے ایک رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی ، اُس نے کہا: '' (اے ابو بکر!) آپ جیسے بلند کردار کے حامل شخص کو نہ تو اپنا وطن چھوڑ کرجانا چاہیے اور نہ ہی ایسے شخص کوجلاوطن کرنا چاہیے، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کابوجھ اٹھاتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی خاطر مصیبت میں مبتلالوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔
آپ اِن الفاظ پر غور فرمائیںتو پتا چلے گا کہ ابوبکر صدیق کا کردار اور آپ کے اَخلاقِ عالیہ سیدالمرسلینﷺ کے اَخلاق کاعکسِ کامل تھے اور آپ صفاتِ مصطفیﷺ کے مظہرِ کامل تھے۔ اسی طرح آپ کا مزاج اور آپ کی فکر مزاجِ مصطفیﷺ میں ڈھلی ہوئی تھی، چنانچہ جب صلح حدیبیہ کی شرائط کو بظاہر مسلمانوں کے خلاف دیکھ کر حضرت عمر ؓ نے رسول اللہﷺ سے یہ سوالات کیے:''یارسول اللہ! کیا آپ نبیِ برحق نہیں ؟، آپ نے فرمایا: ''کیوں نہیں ‘‘، انہوں نے عرض کی: کیاہم حق پر اور کفارِ مکہ باطل پر نہیں؟، آپ نے فرمایا:''کیوں نہیں‘‘، انہوں نے کہا :پھر ہم دب کر کیوں صلح کریں؟، آپ نے فرمایا:''میں اللہ کا رسول ہوں اور کسی حال میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتا، وہ میری مدد فرمائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا:کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ: ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟،آپ نے فرمایا: ''میری خبر سچی ہے اور ہم یقینا کسی نہ کسی سال بیت اللہ کا طواف کریں گے‘‘۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اضطراب پھر بھی دور نہ ہوا اور آپ اسی کیفیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کے ساتھ بھی یہ مکالمہ کیا اور لفظ بہ لفظ یہی سوالات دہرائے اور انہوں نے ہر سوال کا بالکل لفظ بہ لفظ وہی جواب دیا، جو رسول اللہﷺ نے دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا فطری سانچہ نبوت کے مطابق ڈھلا ہوا تھا ، اُن کی سوچ اور رسالتِ مآبﷺ کی سوچ میں بال برابر بھی فرق نہیں تھا۔ عالَم بشریت میں اتنی صائب فکر اور پاکیزہ ذہن کا حامل ہوناآپ کی عظیم سعادت اور رسول اللہﷺ کا معجزہ ہے کہ آپ کی تربیت میں کیسے کیسے، انسانیت کے شاہکار اور جوہرِ کامل تیار ہوتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کا یہ امتیاز بھی ہے کہ آپ کی چارپشتوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا ہے، یعنی آپ کے والدین، آپ خود، آپ کی ساری اولاد اور اولاد کی اولاد، جیسے حضرت یوسف ؑ کی چارپشتوں کو تسلسل کے ساتھ نبوت کا شرف حاصل ہوا ہے۔آپ کے امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنا سارا مال اللہ کی بارگاہ اور اُس کے رسولﷺ کے قدموں میں دین کی سربلندی کے لیے نچھاور کردیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں مال صدقہ کرنے کا حکم دیا،(ِاس موقع پر )میرے پاس کثیر مال موجود تھا ،تومیں نے دل میں کہا :'' اگر میں کبھی ابوبکر پر سبقت لے جاسکتاہوں تو وہ آج ہی کا دن ہے ۔حضرت عمر کہتے ہیں : میں (گھر )آیا اور آدھا مال لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: گھر والوں کے لیے کیاچھوڑا ہے؟،میں نے کہا:بقیہ نصف مال گھر والوں کے لیے چھوڑاہے ۔اتنے میں حضرت ابوبکر اپناسارامال لے کر حاضر ہوئے ،آپﷺ نے فرمایا:اپنے گھروالوں کے لیے کیاچھوڑاہے ؟،حضرت ابوبکر نے عرض کیا :گھروالوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول کانام باقی چھوڑاہے۔ حضرت عمر بیان کرتے ہیںکہ میں نے دل میں کہا :میں کبھی بھی حضرت ابوبکر سے سبقت نہیں لے سکتا‘‘ (ترمذی:3675)۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ہم نے ابوبکر کے سواہرایک کے احسان کا بدلہ دنیا میں چکادیا ہے ،مگر ابوبکر کے ہم ( یعنی اسلام) پراتنے احسانات ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود قیامت میں انہیں جزا عطافرمائے گا اور مجھے کبھی بھی کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا، جتنا ابوبکر کے مال نے دیا‘‘(ترمذی:3661)۔