بھارتی نیول چیف نے انڈین کوسٹ گارڈز کو خط لکھا ہے کہ 31 دسمبر 2014ء کی رات ان کی جانب سے ایک پاکستانی کشتی کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا‘ اس کی تحقیقات کے لیے نیوی کے کموڈور کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے‘ اس لیے کوسٹ گارڈز کے اس جہاز کے عملے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ نیوی کی انکوائری کمیٹی سے اس شپ کا مکمل ریکارڈ ملاحظہ کرنے اور عملے کے متعلقہ اراکین سے انٹرویو کے سلسلے میں تعاون کرے‘ لیکن بھارتی کوسٹ گارڈز نے انڈین نیوی سے تعاون تو دور کی بات‘ ان کی درخواست کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ بھارت کا میڈیا اور بھارت کے کوسٹ گارڈز‘ جنہوں نے نئے سال کی آخری رات پاکستانی ''دہشت گردوں‘‘ کی کشتی تباہ کرنے کے بعد دنیا بھر میں واویلا مچایا تھا‘ اگر اپنے اس دعوے میں واقعی سچے ہیں تو پھر اپنی ہی نیوی کمیٹی سے تعاون پر آمادہ کیوں نہیں؟ بھارتی میڈیا سے بھی سوال ہے کہ کل تک وہ جس واقعہ پر ہر دس منٹ بعد بریکنگ نیوز دیتے ہوئے نئے نئے دعوے کر رہا تھا‘ اگر اپنے ان دعووں اور خبروں میں سچا ہے کہ پاکستان سے آنے والی اس کشتی میں دہشت گرد ہی سوار تھے‘ تو پھر آپ کے کوسٹ گارڈز اپنے اس شپ کے عملے کو اپنے ہی ملک کی نیوی سے تعاون کرنے سے کیوں روک رہے ہیں؟ وہ کون سا ڈر اور خوف ہے جو آپ کو اپنے ہی ملک کی سمندری حدود کی رکھوالی کرنے والے سب سے بڑے دفاعی ادارے سے لاحق ہو رہا ہے؟ بھارتی کوسٹ گارڈز کے انسپکٹر جنرل آپریشنز آرنوتیال نے یکم جنوری کو پریس کانفرنس میں خوشی سے جھومتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پور بندر گجرات سے لگ بھگ 365 کلومیٹر دور تیز رفتاری سے بھارت کی جانب بڑھنے والی ایک کشتی‘ جس کے بارے میں انہیں بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پہلے ہی خبر ہو چکی تھی‘کو بار بار رکنے کی وارننگ دی گئی لیکن ہماری وارننگ پر جب کشتی نہ رکی تو کوسٹ گارڈز نے اس کا تعاقب کرکے اسے تباہ کر دیا۔ اگر آئی جی آپریشنز بھارتی کوسٹ گارڈز اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ واقعی پاکستانی دہشت گردوں کی کشتی کو ہی ان کے عملے نے تباہ کیا تھا تو پھر بھارت کی ہی نیوی کے کموڈور کے سامنے یہی بیان دینے میں ہچکچاہٹ کیوں؟
اس ڈرامے میں دو تین انتہائی دلچسپ موڑ آتے ہیں‘ جنہوں نے بھارت کو دنیا بھر کے دفاعی، سفارتی اور صحافتی حلقوں میں تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ سب سے پہلے آئی جی کوسٹ گارڈز نوتیال نے دعویٰ کیا کہ جونہی مبینہ کشتی‘ جس میں چار افراد سوار تھے‘ کو رکنے اور خود کو کوسٹ گارڈز کے حوالے کرنے کی وارننگ دی گئی تو کشتی میں سوار دہشت گردوں نے گھبرا کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ بیان بھارت کی وزارت دفاع کے بعد بھارت کے وزیر دفاع منوہر پالیکر اور پھر کوسٹ گارڈز کی جانب سے میڈیا کو بھی جاری کیا گیا... لیکن اس واقعہ کی شام کو بھارت کی کوسٹ گارڈز کی شمال مغربی ریجن کی سمندری حدود کے چیف آف سٹاف لوشالی نے ایک تقریب میں شرکت کے دوران میڈیا کو بتایا کہ رات گئے‘ وہ اس وقت گاندھی نگر میں موجود تھے اور جیسے ہی پتہ چلا کہ دہشت گرد خود کو کوسٹ گارڈز کے حوالے نہیں کر رہے‘ میں نے انہیں حکم جاری کر دیا کہ کشتی کو اس کے سواروں
سمیت اڑا دو۔ بھارت کا مشہور ٹی وی چینل زی نیوز مذکورہ کشتی‘ جس کا نمبر ICGS C-421 ہے‘ کے بارے میں دعویٰ کر رہا تھا کہ بھارت کے خفیہ اداروں کو اطلاع مل چکی تھی کہ یہ کشتی کراچی کیٹی بندر سے دہشت گردوں کو لے کر بھارتی گجرات میں داخل ہو گی۔ زی نیوز اس کشتی کی تباہی پر وزارت دفاع کی جانب سے کہا جانے والا یہ فقرہ بار بار نشر کرتا رہا کہ ''ہم نے انہیں بھارتی حدود میں داخل ہونے کی خوشی میں بریانی تو پیش نہیں کرنی تھی‘‘۔ بھارت کے میڈیا اور وزارت دفاع کا دعویٰ تو یہ تھا کہ نیشنل ٹیکنالوجی ریسرچ آرگنائزیشن کو سب سے پہلے 9 بجے صبح یہ اطلاع ملی کہ دہشت گردوں کی ایک کشتی کیٹی بندر سے روانہ ہو رہی ہے۔ اسی وقت NATRO نے ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو اس کی اطلاع کر دی۔ اس کے بعد رات گیارہ بجے اس کشتی کو بھارتی حدود میں دیکھے جانے کی اطلاع ملی اور اسی دوران کشتی میں سوار افراد اور ان کے ہینڈلر کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ کر لی گئی۔ اس کشتی کی نگرانی کیلئے ڈرون طیارہ بھی بھیجا گیا اور پھر اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات 2 بجے اس کے خلاف بھارت کی کوسٹ گارڈز حرکت میں آ گئی اور بار بار وارننگ دینے کے بعد بھی جب یہ کشتی نہ رکی تو اسے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔
اب بھارتی وزیر دفاع اور وزارت دفاع کی بات پر یقین کیا جائے یا ڈی آئی جی لوشالی کی بات پر جو بھارتی کوسٹ کے شمال مغربی ریجن کے سٹاف آفیسر ہیں۔ ان کے اعتراف پر بھارت کے ایک اخبار نے بھارت کی کوسٹ گارڈز کے ڈی آئی جی لوشالی کے انکشافات پر خوبصورت جملہ لکھا ''Left the Indian Govt. Red Faced'' ۔۔۔۔آخر کیا وجہ ہے کہ لوشالی کے خلاف بھارتی نیوی کی جانب سے انکوائری ابھی شروع بھی نہیں ہوئی لیکن ان کے کورٹ مارشل کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں ۔ لوشالی نے ایک نہیں ان گنت میڈیا افراد کے سامنے دعویٰ کیا تھاکہ وہ کشتی ہماری کوسٹ گارڈز نے تباہ کی ہے نہ کہ دہشت گردوں نے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول اس سارے آپریشن کے نگران تھے اور انہیں صبح نو بجے اس کشتی کے روانہ ہونے اور اس کشتی کے عملے اور اس کے ماسٹر مائینڈ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا بھی علم ہو چکا تھا‘ تو اس اہم ترین ادارے نے بھارت کی نیوی کو اس سے بے خبر کیوں رکھا؟۔26/11 ممبئی حملہ کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ بھارت کو اس کی اطلاع تھی لیکن بھارت کے نیول چیف کا بیان دنیا بھر کے ریکارڈ پر ہے کہ ہمیں کسی بھی جانب سے اس کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کے نیول چیف کے سخت احتجاج پر انہیں اس آپریشن کے حقائق جاننے کیلئے انکوائری کمیٹی بنانے کی اجا زت تو دے دی گئی لیکن ساتھ ہی دوسرے اداروں کو ان سے تعاون نہ کرنے کا اشارہ بھی کردیا گیا۔
کیا یہ سب اجیت ڈوول کیNATRO کا پاکستان کے خلاف کوئی نیا کھیل تھا؟۔ بھارتی وزارت دفاع کی اس یقین دہانی اور وعدے کے پورے ہونے کا سبھی بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں جو وزیر دفاع نے یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ تمام حقائق سامنے لائے جائیں گے۔ اب تو کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے بھی کشتی آپریشن پر بھارتی حکومت کی قلا بازیوں کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا ہے اور اجیٹ ڈوول کی کارروائیوں کو ڈراموں سے تشبیہ دینا شروع کر دی ہے۔یمن سے پاکستانی نیوی کی مدد سے ریسکیو کیے جانے والے گیارہ بھارتی باشندوں کو بھارت پہنچانے کیلئے وزیر اعظم نواز شریف کی خصوصی مہربانی سے پاکستان کی ایئرفورس کا ایک طیارہ بھارت گیا لیکن جناب وزیراعظم! کیا آپ کے علم میں ہے کہ بھارتی دہشت گردوں کی جانب سے سمجھوتہ ایکسپریس کی دھماکے سے جلائے جانے والی بوگی میں شہید ہونے والے رائو شوکت کے پانچ بچے بھی شامل تھے اوررائو صاحب اور ان کی بیگم رخسانہ اپنے پانچ بچوں کی قبریں دیکھنے کیلئے بھارت پانی پت جانا چاہتے ہیں لیکن ان بوڑھے ماں باپ کو‘ جو اپنے جگر گوشوں کی قبر کی مٹی کو چومنا چاہتے ہیں‘ ان کی قبروں کو اپنے سینے سے لگانا چاہتے ہیں‘ انہیں بھارتی حکومت نے پانی پت‘ جہاں ان کے بچوں کی قبریں ہیں‘ کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔۔۔۔جناب وزیر اعظم آپ کو مودی کی دوستی اور خوشنودی مبارک ہو!!