عمان کے دارالحکومت مسقط میں وزارت اوقاف کے تحت منعقد ہونے والی بین الاقوامی فقہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت امیر حمزہ نے اس تسلسل اور اصرار سے پہنچائی کہ انکار ممکن نہ رہا۔ امیر حمزہ اس وزارت میں ایک اہم منصب پر فائز پاکستانی نوجوان ہیں۔ انہوں نے مسقط کے کلیہ علوم شریعہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ان کے والد ابوبکر حمزہ کے ویژن کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے مسقط کے مذکورہ ادارے کا انتخاب کیا۔ ابوبکر سیاست سے شدید دلچسپی رکھنے والے پاکستان کے ایک ممتاز عالم دین ہیں۔ صحافت سے یوں تعلق ہے کہ اسلامک سالیڈیریٹی کے نام سے ایک بین الاقوامی مجلہ شائع کرتے ہیں۔ جب ایم حمزہ کا طوطی بولتا تھا، ان کی گفتار اور کردار نے ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا تھا تو ابوبکر ان کے حلقہء رفاقت میں تھے، انہی سے متاثر ہو کر اپنے نام کے ساتھ حمزہ کا لاحقہ لگا لیا۔ اب ایم حمزہ کے قویٰ تو مضمحل ہیں لیکن ابوبکر حمزہ کا جوش و خروش ماند نہیں پڑا۔ وہ برادر عزیز اعجازالحق کی مسلم لیگ (زیڈ) کو توجہ کا مرکز بنا چکے ہیں اور ان کا ایم حمزہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ یاد رہے ایم حمزہ کی بے قراریوں کو مسلم لیگ (ن) میں پہنچ کر قرار آ گیا تھا۔ ابوبکر عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمدالخلیلی کی کتاب ''استبداد‘‘ کا اردو ترجمہ کر کے عمانی حلقوں میں بھی معروف ہو چکے ہیں۔ وہ پاکستان سے یہاں آنے والے چار افراد میں شامل تھے۔ اسلام آباد کی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈین اور فیصل مسجد کے خطیب ڈاکٹر طاہر حکیم اور قاضی حسین احمد مرحوم کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی کو دوسرا اور تیسرا، جبکہ راقم الحروف کو چوتھا سمجھ لیجئے۔
عمان کی وزارت اوقاف پندرہ سال سے سالانہ فقہ کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ اس میں دنیا بھر سے علمائے کرام مدعو ہوتے ہیں۔ اسلامی فقہ کو درپیش عصری چیلنجوں اور مختلف ممالک میں ہونے والے اجتہادات کا جائزہ لیتے، ایک دوسرے سے تبادلہء خیال کرتے اور واپس روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہر مسلمان ملک کی اپنی تاریخ‘ اپنی سیاست اور اپنی مصلحتیں ہیں‘ علماء کی سوچ پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم مختلف فقہی مسالک کے درمیان رواداری کا فروغ سب کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ کئی مسلمان ملک فرقہ بازی کی زد میں ہیں، وہاں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے ہی پر اکتفا نہیں کی جا رہی، ایک دوسرے کا خون بہانا بھی کار ثواب سمجھا جا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی ایک بڑے خطرے کا روپ دھار چکی ہے۔
عمانیوں کی بڑی تعداد اگرچہ اباضی فقہ کی پیروکار ہے، لیکن یہاں کوئی فرقہ وارانہ چپقلش دیکھنے میں نہیں آتی۔ قریباً 40 لاکھ آبادی کے اس ملک میں آدھے غیر ملکی ہیں۔ 16 ہزار مساجد میں عام طور پر امام، موذن اور خطیب سرکاری طور پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں اور مراعات اعلیٰ سرکاری افسروں کے برابر ہیں۔ مفتی اعظم کو وزیر کا درجہ حاصل ہے۔ کسی مسجد کا امام کسی بھی فقہ سے تعلق رکھتا ہو، مسجد سب کے لئے کھلی رہتی ہے۔ ایک نماز کی صرف ایک جماعت نہیں ہوتی، بلکہ مسلسل نماز باجماعت ادا ہوتی رہتی ہے۔ نماز کے اوقات میں ایک سے زائد افراد جب بھی اکٹھے ہوں، وہ باجماعت ادائیگی کے لئے صف بستہ ہو جاتے ہیں۔ اباضی فقہ اہل سنت کے چاروں مسالک اور فقہ جعفریہ سے الگ ہے۔ اس کے ناقد اس کا شجرئہ نسب خوارج سے جوڑتے ہیں، لیکن یہاں کے اہل علم اسے طعنہ سمجھتے ہیں، خفا ہو جاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے مکتبِ فکر کی بنیاد 20 ہجری میں رکھ دی گئی تھی، بہرحال ان کا باقاعدہ نسب ایک تابعی عبداللہ بن اباض سے ملتا ہے۔ اباضی حضرات ہاتھ کھول کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن پڑھنے کا طریقہ اہل سنت جیسا ہے۔ کلیہ علوم الشریعہ میں بتایا گیا کہ یہاں کے سند یافتہ خطیب، امام اور جج مقرر کئے جاتے ہیں، انہیں کسی ایک فرقہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے معروف آٹھ فقہی مسالک کے نقطہء ہائے نظر سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ حنفی، شافعی، مالکی،حنبلی، اباضی، زیدی، ظواہری اور جعفری... نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی طرح یہ اپنا ''حق‘‘ اور دوسروں کا ''باطل‘‘ لے کر درس گاہ سے نہیں نکلتے۔
وزیر اوقاف عبداللہ اسالمی، نائب وزیر اوقاف حارب ابو سعیدی اور مفتی اعظم احمد بن حمدالخلیلی کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں فرقہ واریت خاص طور پر زیر بحث رہی۔ پاکستان کے مدارس میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کے لئے یہاں کے نصاب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی خطیبوں اور اماموں کو یہاں کے ماحول میں کچھ عرصہ گزارنے کے لئے بھیجا جانا بھی مفید اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
سفیر پاکستان جناب ایاز حسین نے اپنی اقامت گاہ پر ایک پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا، جس میں ممتاز تر ''پاکستانی عمانی‘‘ بھی مدعو تھے۔ اس سے پہلے سفارت خانے کے جملہ افسران سے تبادلہء خیال کا موقع ملا۔ پاکستان سکول میں بھی ایک خصوصی نشست میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ پرنسپل عطاء اللہ نیازی، سکول انتظامیہ کے سربراہ عدنان شہزاد اور محترمہ عطیہ غنی کے الفاظ نے دل کا دامن محبتوں سے بھر دیا۔ پاکستان سکول کی کئی برانچیں پورے ملک میں کام کر رہی ہیں، چھ ہزار سے زائد بچے زیور تعلیم سے آراستہ کئے جا رہے ہیں۔ عطاء اللہ نیازی صاحب کی خواہش تھی کہ پاکستان کے اہل ثروت اس سکول سے بھی تعاون کریں کہ یہ عمان کے اندر ایک چھوٹا پاکستان ہے۔ اس کی وسعت میں اضافہ پاکستان کی حدود میں اضافے کے مترادف ہے۔
مسقط میں پاکستانی سفارت خانہ ابھی تک کرائے کی عمارت میں ہے۔ یہاں غیر ملکی سفارت خانوں کے لئے جو علاقہ مخصوص کیا گیا تھا، اس میں صرف پاکستانی سفارت خانے کا قطعہ زمین برسوں سے ویران پڑا ہے۔ اردگرد تعمیر ہونے والی سربفلک عمارتیں اس کا مذاق اڑاتی ہیں اور جب پاکستانی یہاں سے گزرتے ہیں تو ان کا سر (شرم سے) جھک جاتا ہے۔ ایاز حسین صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزارت خارجہ کی توجہ اس طرف شدت سے مبذول کرائی ہے اور نقشہ سازی شروع ہو چکی ہے، لیکن عمان کے پاکستانیوں کو اطمینان دلانا آسان نہیں ہے۔
عمان میں سفیر پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایک عوامی سفیر بھی رہتے ہیں۔ جاوید نواز کو اب یہاں تین عشروں سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہاں آ کر انہوں نے ایک بڑے بزنس گروپ کی بنیاد رکھی تھی وہ اور ان کے ہونہار صاحبزادے سلمان یہاں پاکستان کا نشان ہیں۔ جاوید یہاں پہنچے تھے تو ہر طرف پہاڑ اور ریت تھی، اب بلند و بالا عمارتیں، پھیلے ہوئے تجارتی مراکز اور بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہیں تو انہیں کراچی یاد آ جاتا ہے، جہاں برسوں پہلے بہت کچھ تھا، لیکن اب اس کا نام آنے سے پہلے آہِ سرد ہونٹوں پر آ جاتی ہے۔ عمان کی معیشت جلد ہی ایک ٹریلین ڈالر کو چھو لے گی۔ یہاں کی بزنس فرینڈلی پالیسیوں نے سلطان قابوس کی فراست پر مہر تصدیق ثبت کر رکھی ہے۔ وہ سلطان جس سے سب محبت کرتے اور جس کو اپنی ترقی کا سبب گردانتے ہیں۔ عرب و عجم کے جھگڑوں سے الگ سعودی عرب اور ایران کے درمیان غیر جانبداری کا جھنڈا تھامے سلطان قابوس آج بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی ''جنت‘‘ کو اندر اور باہر کے جھگڑوں سے دور رہنا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)