تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-04-2015

گڈ گورننس کس چڑیاکا نام ہے؟

خدا وند کریم کا فضل اور مہربانی ہے کہ مجھے دوران سفر دیگر ممالک اور پاکستان میں تقابلی جائزے کے دوران کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہوتا۔ ہاں!افسوس اور ملال اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم بھی یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر کام کی صلاحیت موجود ہے اور وسائل پیدا کرنا بھی ممکن ہے مگر مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ قوم کو درست راہ پر کون لگائے؟ یہ کام لیڈر شپ اور حکمران کرتے ہیں مگر ان کی ترجیحات قومی نہیں بالکل ذاتی ہیں۔ اجتماعی نہیں انفرادی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر آنے والا دن بہتری کے بجائے خرابی لا رہا ہے اور معاملات بہتری کی طرف جانے کے بجائے خرابی کی طرف گامزن ہیں۔
شہروں کو صاف کرنا کیا مسئلہ ہے؟ صفائی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ احساس اور کاوش ۔ یہ دو چھوٹی سی چیزیں ہیں اور اسی پر کامیابی کا سارا دارو مدار ہے۔ شہر صاف ہو سکتے ہیں۔ مٹی سے جان چھڑوائی جا سکتی ہے۔ شہروں کی زمین یا پختہ کر دی جائے یا اس پر سبزہ لگا دیا جائے۔ شہر کی اکثر سڑکوں کے کنارے کچے ہیں۔ کم از کم ملتان میں تو نوے فیصد سڑکوں کے کنارے کچے ہیں ۔ لاہور سپیشل شہر ہے۔ اس سے مقابلہ کرنا دل جلانے کی حمایت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ابھی ملتان میں خانیوال روڈ اللہ اللہ کر کے مکمل ہوئی ہے۔ میپکو ہیڈ کوارٹر ز کے ساتھ دیوار اور سڑک کے درمیان فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں۔ سڑک اور دیوار کے درمیان دو فٹ کی کچی زمین کی لکیر ہے۔ نہ اس پر پیدل چل سکتے ہیں کہ پیچھے سے آنے والی ٹریفک کسی وقت بھی کچل سکتی ہے اور نہ ہی یہ زمین پختہ کی گئی ہے کہ دھول اڑنے کی مصیبت سے جان چھوٹ سکتی۔ سارا شہر ہی تقریباً اسی فارمولے پر قائم ہے اور ملتان پر ہی کیا موقوف پنجاب بھر کے دیگر شہر اور قصبے اسی نقشے پر بنے ہوئے ہیں۔چوک سیدھے نہیں۔ تجاوزات پر کسی کی نظر نہیں۔ جس روز‘ جس روٹ سے خادم اعلیٰ نے گزرناہوتا ہے وہ صاف ہو جاتا ہے۔ دورہ ختم‘معاملہ ختم۔ ملتان شہر کی انتظامیہ سے ایک پلازہ قابو میں نہیں 
آرہا۔ پلازے کی پارکنگ منظور کروا کر تعمیر کی گئی۔ جونہی تعمیر مکمل ہوئی اور تکمیل کا سرٹیفکیٹ لے لیا سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔ پارکنگ کی جگہ پر سپر سٹور بن گیا۔ آٹھ دس گاڑیوں کی پارکنگ چھوڑ کر ساری پارکنگ کمرشل کر دی۔ ایم ڈی اے کے متعلقہ افسروں نے جرمانے کی مد میں تھوڑی بہت رقم لے کر ساری خرابیوں کو ریگولرائز کر دیا۔ اصل رقم جیب میں ڈالی۔ اس اصل سے میری مراد بڑی رقم ہے کہ جو سرکاری خزانے میں بطور جرمانہ جمع کروائی گئی ہو گی‘ وہ اس رقم کے مقابلے میں بڑی معمولی ہو گی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملتان کی معروف ترین سڑک سارا دن سپر سٹور کے گاہکوں کی گاڑیوں کی پارکنگ کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ ہمہ وقت ٹریفک پھنسی رہتی ہے۔ لوگ آتے جاتے شہر کی انتظامیہ کو‘ ایم ڈی اے اور دیگر متعلقہ محکموں کی شان میں تبرّا کرتے ہیں۔ جرمانہ (اگر ہوا ہے) تو وہ سرکاری خزانے میں گیا۔ آنکھ بند رکھنے اور پلازے کی پارکنگ کو سپر سٹور بنانے کے عوض افسران نے جو مال پانی بنایا وہ ان کی جیب میں چلا گیا اور تکلیف بھگت رہے ہیں ملتان شہر کے باسی۔میں بذات خود اس مسئلے پر ملتان کے سب سے بڑے انتظامی افسر اور متعلقہ محکمے کے مدارالمہام سے دو بار مل چکا ہوں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا۔
یہ چیزیں انتظامی ہیں۔ لاکھوں روپے مشاہرہ لینے والے نہایت ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مقابلے کے امتحان پاس کر کے آنے والے باصلاحیت افراد اس انتظام کو چلانے پر مامور ہیں۔ مزید برآں سرکاری خرچے پر غیر ملکی دوروں کے دوران بے شمار چیزیں سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرے ہوتے ہیں مگر کیا مجال ہے کہ اس دورے سے انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اس کو اپنی سروس کے دوران پاکستان میں آزمانے کی‘لاگو کرنے کی یا اس سے فائدہ اٹھانے کی کبھی کوشش کی ہو۔ ہمارے افسران کے ساتھ بیٹھ کر کبھی گفتگو کی جائے تو زبانی کلامی ایسے ایسے محیر العقول منصوبوں کا ذکر کریں گے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ قوم کی حالت پر ایسی رقیق القلب گفتگو کریں گے کہ بندہ آبدیدہ ہو جائے۔ قوم کی تقدیر تبدیل کرنے کے ایسے عزم کا اظہار کریں گے کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے مگر نتیجہ!صفر جمع صفر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
شہروں میں صرف ٹریفک کا نظام ٹھیک ہو جائے تو بے شمار مسائل ختم ہو سکتے ہیں مگر ٹریفک کا مسئلہ ہائیڈروجن بم بنانے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ لگتا ہے کہ ٹھیک ہونے میں نہیں آ رہا۔ وارڈنوں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ ہر چوک وردی والوں سے بھراپڑا ہے مگر ہر چوک لاقانونیت کی بدترین تصویر ہے۔ ملتان کے اسی پلازے کا ‘ جس کا میں نے اوپر والی سطروں میں ذکر کیا ہے‘ کے سامنے ایک ٹریفک وارڈن اپنے موٹر سائیکل کو سائڈ والے سٹینڈ پر لگائے مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے محض تیس گز دور زکریا ٹائون موڑ پر ٹریفک جام تھی ۔ تقریباً دس بارہ منٹ تک اس ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد میں بمشکل یو ٹرن لے کر واپس آیا۔ میری نظر اس آرام کرتے ہوئے ٹریفک وارڈن پر پڑی۔ میں نے گاڑی روک کر اسے کہا کہ پیچھے موڑ پر ٹریفک بری طرح جام ہے‘ وہاں کوئی وارڈن نہیں‘ تمہیں یہاں سے صاف نظر آ رہا ہے کہ وہاں ٹریفک پھنسی ہوئی ہے‘ تم یہاں آرام کرنے کے بجائے تیس چالیس قدم پیچھے جا کر ٹریفک کھلوا سکتے ہو۔ وارڈن نے بادل نخواستہ گردن میری طرف گھمائی اور کہنے لگا۔ میری ڈیوٹی یہاں لگی ہوئی ہے۔ میں نے کہا مگر یہاں تم فارغ بیٹھے ہوئے ہو‘ وہاں تمہاری ضرورت ہے۔ اس نے نہایت ہی اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ آپ میری شکایت لگا دیں۔ یہ کہہ کر اس نے منہ دوسری طرف کرلیا۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اب مجھ سے مزید بات کرنا تضیع اوقات سمجھتا ہے۔ میں نے صبح صبح لاہور اور وہاں سے برطانیہ روانہ ہونا تھا وگرنہ میں ہر حال میں ٹریفک پولیس کے دفتر جاتا اور اس رویے کا مداوا کروانے کی اپنے تئیں کوشش ضرور کرتا۔
ہمارے ہاں ہر قسم کا ٹریفک قانون موجود ہے اور جہاں اس پر عمل کروایا جائے وہاں اس پر ہم پورا عمل بھی کرتے ہیں مگر سفارش ‘ دھونس دھاندلی اور رشوت نے سارا نظام برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ٹریفک سگنل اول تو خراب ہوتے ہیں اور اگر ٹھیک بھی ہوں تو ہر بندہ اپنی اپنی اوقات کے مطابق خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے۔ ون وے کی خلاف ورزی کرنا اب فیشن بھی ہے اور غالباً سٹیٹس سمبل بھی۔ ٹریفک وارڈن صرف ایک سائیڈ پر کھڑا رہنا ہی اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے یا پھر اس کی واحد ذمہ داری چالان کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ٹریفک پولیس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ٹریفک کو رواں رکھے اور سڑک پر ٹریفک کو سہولت سے جاری رکھنے میں ممدو معاون ہو۔ چالان کرنا یہاں آخری آپشن ہوتا ہے۔ سپیڈ کیمرہ لگانے کا مقصد چالان کرنا یا جرمانہ عاید کرنا نہیں بلکہ رفتار کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ جہاں جہاں سپیڈ کیمرہ لگا ہوا ہے اس سے دو چار سو میٹر پہلے وارننگ بورڈز لگے ہوتے ہیں کہ آگے سپیڈ کیمرہ لگا ہوا ہے۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ مقصد چالان کرنا نہیں سپیڈ کم کروانا ہے لہٰذا یہ بورڈ لگا دیئے گئے ہیں کہ کیمرے کے خوف سے سپیڈ کم ہو جائے۔ اگر بورڈ سے مقصد پورا ہو جاتا ہے تو چالان کی کیا ضرورت ہے؟ بنیادی مقصد ٹریفک کو رواں اور محفوظ رکھنا ہے۔ یورپ وغیرہ میں نظریہ یہ ہے کہ اگر ''گڑ دینے سے کوئی مرتا ہو تو اسے زہر دینا ضروری نہیں‘‘۔
ہمارے ہاں موٹر وے پر سپیڈ کیمرے والے باقاعدہ چھپ کر اور گھات لگا کر بیٹھتے ہیں جیسے شکاری مچان میں بیٹھ کر شکار کا انتظار کرتا ہے۔ ٹریفک وارڈن کو ٹریفک رواں رکھنے سے نہیں بلکہ دن گزارنے اور چالان کرنے سے غرض ہے۔ ان معاملات کوسیدھا کیا جا سکتا ہے۔ شہر میں صفائی کی جا سکتی ہے۔ تجاوزات ختم ہو سکتی ہیں۔ عمارات کا نقشہ پاس کرتے وقت اپنی جیب کی بجائے عوامی سہولت کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔ خلاف ورزی پر جرمانے سے عوامی تکلیف دور نہیں ہو سکتی۔ جرمانے کی بجائے مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔ یہ سب کام بہت ہی معمولی ہیں۔ ان پر کچھ خرچہ بھی نہیں آتا اور انہیں سمجھنا دشوار بھی نہیں۔ اگر لاہور میں تعمیراتی معاملات پر منظور شدہ نقشے اور اصل میں فرق پر پلازے گرائے جا سکتے ہیں تو ملتان میں یہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ دیگر شہروں والوں سے معذرت ! مگر یہاں ملتان ایک استعارہ ہے اور محض ایک تمثیل ۔ باقی شہروں میں بھی ایسے ہی معاملات ہیں۔ افسروں کو جوابدہی کا خوف ہو اور جزا و سزا کا تصور موجود ہو تو یہ سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یہی گورننس ہے اور حکومتوں کا واحد کام یہی گورننس ہے۔ گڈ گورننس تو ایک طرف رہی ہمارے ہاں تو عام‘ سادی سی گورننس کا تصور بھی اب امر محال بنتا جا رہا ہے۔ گڈ گورننس کس چڑیا کا نام ہے؟ اداروں کا ٹھیک طریقے سے کام کرنا ہی اصل حکومت ہے۔ ہمارے ہاں حکومت کا مطلب چند افراد کا موج میلا ہے۔اور حکمرانوں سے مراد اس گروہ کے سردار ہیں۔ آپ ان کو اس گروہ کا سرغنہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved