تربت میں پنجاب اور سندھ سے مزدوری کیلئے آئے ہوئے 20 غریب مزدوروں کو نہ جانے کس ظالم نے کلاشنکوفوں کے برسٹ برسا کر شہید کر دیا! ان شہید مزدوروں کے گھروں میں تو ہر وقت غربت کے اندھیرے پھیلے رہتے ہیں۔ ان کا قصور کیا تھا؟ بلوچستان اس وقت دشمنوں کے بھر پور ٹارگٹ پر ہے۔ یا د رکھیں کہ پتلیوں کے ڈورے ہلانے والے پٹاخے کہیں چھوڑتے ہیں اور واردات کہیں اور کرتے ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پر بھارت کی تلملاہٹ ، یمن اورسعودی عرب کی باہمی چپقلش،مصر، پاکستان اور ترکی کا سعودیہ کے حق میں اتحاد اور مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے تنا ظر میں ہمیں ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہنا ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں‘ جو بقول نامور قلم کار ارشاد احمد عارف کے‘ وطن کی بجا ئے اپنے شکم کا زیا دہ خیال رکھتے ہیں‘ کی جانب سے ایسا فیصلہ ہو سکتا ہے جس سے ہمارے ملک کے باہمی اتحاد میں دراڑ پڑ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد اپنی جگہ لیکن پس پردہ کی جانے والی فاش غلطی کسی دوسرے دوست ملک کی عزت نفس کو پامال کر سکتی ہے جس کا ایک مظاہرہ اسلام آباد کے چک لالہ ایئرپورٹ پر اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان پہنچے تو ہوائی ا ڈے پر ان کے استقبال کیلئے کوئی بڑی شخصیت موجود نہ تھی۔ دفتر خارجہ کے ایک ڈائریکٹر نے ان کا استقبال کیا۔ شاید یہی وہ غلطیاں ہوتی ہیں جن کا کفارہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
افواج پاکستان اور ملک کے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی بے بہا اور نا قابل فراموش قربانیوں کی بدولت وزیرستان اور فاٹا میں حالات بہت حد تک سدھر چکے ہیں‘ جس کا اظہارچند دن قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خیبر ایجنسی میں پاکستان کے جانبازوں سے ملاقات کے دوران بھی کیا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افغان سرحد سے متعلق اہم ترین درہ مستول‘ جو دہشت گردوں کی جائے پناہ گاہ اور گزر گاہ تھا‘ پاکستانی فوج کے قبضہ میں آ چکا ہے۔ ان حالات میں تمام دشمنان پاکستان‘ جن کیلئے کوئی بھی جائے پناہ ملنا دشوار ہوتا جا رہا ہے‘ ہو سکتا ہے کہ اب اپنی تمام تر توجہ بلوچستان پر مرکوز کر لیں۔ اور لگتا ہے کہ اس کا آغاز تقریباً ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان کی مخالفانہ قوتیں انتہائی شدت اور منصوبہ بندی سے پاکستان کی علاقائی حدود پر دھاوا بولنے والوں کی مدد کو پہنچنا شروع ہو چکی ہیں۔ ایسی تمام قوتوں کا پلان یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اب سب مل کر بلوچستان کو اپنا مرکز نگاہ بنائیں گے جس کا اظہار وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے 9اپریل کو یہ کہہ کر کیا ہے کہ دہشت گرد شمالی وزیرستان سے بلوچستان کے علاقوں تربت، لورا لائی اور پنجگور کی جانب رخ کر رہے ہیں۔
پاکستان دشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے کہ بلوچستان میں فرقہ واریت کو پہلے سے بھی زیا دہ ہوا دیتے ہوئے قومی اتحاد کو اس طرح پارہ پارہ کر دیا جائے کہ عوام کے ذہنوں کو علیحدگی کی طرف دھکیلنے میں آسانی ہو۔ بھارت اس سلسلے میں گزشتہ دس سالوں سے افغانستان کو بیس بنائے ہوئے تخریب کاریوں میں مصروف ہے۔ آواران سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر اﷲ نذر اس وقت بھارتی'را‘ کا سٹیشن کمانڈر بن کر بلوچستان میں بجلی کے ٹاور، گیس کی پائپ لائنوں، سکیورٹی فورسز، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے پروفیسرز، سکولوں کے اساتذہ اور بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا نے کے ساتھ ساتھ شہریوں اور سرکاری املاک کو بارودی مواد سے تباہ کر رہا ہے۔ ا س کی کارروائیوں کی تشہیر اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو ہوا دینے کیلئے حال ہی میں 'را‘ نے ''ون انڈیا‘‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ کا اجرا کیا ہے‘ جس کے ذریعے بلوچستان میں را کے اسٹیشن ہیڈ اﷲ نذر کے انٹر ویو نشر کئے جا رہے ہیں اور پاک چین دوستی اور اس کے تحت جاری کئے گئے پروجیکٹس کے خلاف جھوٹ اور نفرت کے پہاڑ کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ مضحکہ خیز ی دیکھیے کہ سول سوسائٹی اور مغربی دنیا کی
نظروں میں اپنا سافٹ امیج بنانے کیلئے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ ہم تو اس طرح کے فریڈم فائٹر ہیں جو جہادی تنظیموں اور آئی ایس آئی ایس کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔ اس وقت اﷲ نذر کا دہشت گرد گروپ آواران، پنجگور اور کیچ کے اضلاع میں ہر اس شخص کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہے‘ جس کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ ہو جائے کہ اس کی ہمدردیاں پاکستان اور اس کی فوج کے ساتھ ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک میڈیا گروپ کے تین چار افراد اپنے ٹی وی پروگراموں اور کالموں میں اسی ڈاکٹر اﷲ نذر کو بالکل اسی طرح پیش کر رہے ہیں جیسے 'را‘ کی ویب سائٹ ''ون انڈیا‘‘ کے ذریعے اسے قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔جب اس کے خلاف اے ایف حرکت میں آئی تو یہ بھاگ کر اپنے را کے سرپرستوں کے پاس چھپ گیا۔ نہ جانے عالمی رائے عامہ اس وقت کہاں سو چکی ہے‘ جسے یہ تو نظر آ رہا ہے کہ بھارت کی ویب سائٹ اور ون انڈیا اﷲ نذر کے انٹرویو نشر کر رہا ہے لیکن اس کی دہشت گردیاں نظر نہیں آ رہیں؟ کیا کسی بھی ملک اور عالمی ادارے کو اب کسی قسم کا شک رہ گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے صوبے بلوچستان میں علیحدگی اور دہشت گردی کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے؟ بھارت اپنا اسلحہ، ڈالروںکے انبار اور افرادی قوت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
اس وقت بھارت بلوچ عوام کے ذہنوں میں چین کے بلوچستان میں جاری ترقیاتی کاموں اور پاک چین اکنامک کوریڈور کی ترقی کے خلاف انتہا درجے کی مخالفانہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ بلوچستان کے عوام اب اس حقیقت سے با خبر ہو تے جا رہے ہیں کہ ان کے صوبے میں جاری بد امنی اور قتل و غارت میں سوائے بھارت اور پاکستان دشمنوں کے کسی اور کا مفاد نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ سماجی اور قومی تقریبوں میں بلوچ عوام نے بھاری تعداد میں شرکت کی ہے۔ چنانچہ اپنی ناکامی کو دیکھتے ہوئے بھارت نے اب ون انڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو پاکستان کی فوج‘ اس کی سکیورٹی ایجنسیوں اور چین کے خلاف گمراہ کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑیوں اور مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات ایف سی کے اہل کاروں کی شہا دتیں اچانک بڑھ گئی ہیں کیونکہ اب تحریک طالبان بھی ان کی مدد کو بلوچستان پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ ابھی چند دن پہلے پاک ایران سرحد پر 8 ایرانی نیشنل گارڈز کی ہلاکتیں کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہیں ۔جناب والا! ابھی تو ہمارے اپنے گھر میں لگی ہوئی آگ کے شعلے ماند نہیں پڑے‘ اس لئے کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں صحیح خبردار کیا گیا ہے کہ یمن کی صورت حال خطے میں خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے‘ اس لیے تمام فیصلہ سازوں کو کوئی فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط سے چلنا ہو گا... بہت ہی احتیاط سے!