ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر پالیسی سازی کے بحران کے نتیجے میں‘ ایک اور انتہائی اہم چیلنج کا مناسب جواب نہیں دے سکیں گے۔ شروع ہی سے پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ نہ ہم اپنی کوئی مستقل خارجہ پالیسی بنا سکے اور نہ اپنے خطے اور عالمی برادری میں‘ جنم لینے والے نئے نئے چیلنجز کا مناسب اور بروقت جواب دے سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر بار ہم نہ توبروقت اور صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ آج پھر سے ایک بہت بڑا‘ فیصلہ کن اور انتہائی پیچیدہ چیلنج ہمارے سامنے ہے اور ہم پارلیمنٹ میں اس پر بحث کر رہے ہیں‘ جیسے یہ ریسرچ‘ غوروفکر اور ادارہ جاتی مشاورت کا نعم البدل ہو۔ پارلیمنٹ ‘ پالیسیاں بناتے نہیں‘ پالیسیوں کو منظور اور ان میں ترمیم و اصلاح کرتے ہیں۔ پالیسی سازی کا کام ماہرین کا ہوتا ہے۔ جیسے ان دنوں ہمیں سعودی عرب کے ایک مطالبے کا سامنا ہے‘ جس کا تعلق امور خارجہ‘ دفاع اور ملکی سلامتی کے ساتھ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے مطالبہ سامنے آتے ہی‘ وزارت دفاع کے سارے شعبے‘ ریسرچ اور غوروفکر میں مصروف ہو جاتے‘ وزارت خارجہ اپنی ماہرانہ رائے دیتی۔ وزارت داخلہ کی رائے بھی اس لئے اہم ہے کہ ہماری افواج اور انتظامیہ کو اندرون ملک بھی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم دہشت گردوں کے ساتھ مصروف جنگ ہیں۔ وزارت خزانہ سے بھی مشاورت کی ضرورت تھی کہ اگر ہم سعودی عرب کی خواہش کے مطابق‘ تقسیم شدہ شرق اوسط میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں‘ تو پاکستان کی معیشت اور مالیات پر اس کے کیا اثرات و نتائج ہو سکتے ہیں؟ چونکہ سعودی عرب کی طرف سے ہمیں وقت ہی بہت کم دیا گیا۔
مناسب ہوتا کہ یہ تمام ادارے دن رات غوروفکر کر کے‘ اپنی رپورٹیں پیش کرتے۔کابینہ کمیٹی ان کا جائزہ لیتی۔ پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈر‘ اپنے ماہرین کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم کے زیرصدارت ایک ایک نکتے پر غور کرتے۔ نقصانات کا موازنہ کر کے‘ ایک ایسی پالیسی کے خدوخال تیار کئے جاتے‘ جن میں ہم سعودی عرب کو ناراض کئے بغیر‘ اپنے مفادات کا تحفظ بھی کر لیتے اور یہ سب کچھ طے ہونے کے بعد‘ پارلیمنٹ کے اراکین کوان کیمرہ بریفنگ دے کر‘باضابطہ اجلاس منعقد کرتے‘لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی ہے۔ کسی رکن کو کچھ پتہ نہیں کہ اسے کس پالیسی کے تحت بولنا ہے۔ جس کے جو جی میں آ رہی ہے‘ کہہ رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے ضرورت کے مطابق پارلیمنٹ کو حقائق بتا دیئے ہیں۔ اس سے زیادہ بتانا ٹھیک نہیں۔ ادھوری معلومات کی بنیاد پر پارلیمنٹ جو فیصلہ کر سکتی تھی‘ وہ قرارداد کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ قرارداد شائع ہو کر ‘ دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔ سعودی عرب جس کا یہ مسئلہ ہے‘ وہ بیتابی سے نتیجے کا انتظار کر رہا تھا اور مطالعہ کرنے کے بعد‘ سعودی عرب کی طرف سے بیان آیا ہے ''پارلیمنٹ کی قرارداد سے ابھی آگاہ نہیں کیا گیا۔‘‘ سفارتی زبان میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ قرارداد کی ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ حکومت پاکستان نے وضاحت کے ساتھ یہ بتایا نہیں کہ اس کا مقصد کیا ہے؟ قرارداد میں جو کچھ لکھا ہے‘ اس کے درجنوں زبانوں میں ترجمے ہو کر‘ دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔ ظاہر ہے‘ سعودی حکام کو بھی عربی ترجمہ مل گیاہو گا۔ ان کا تبصرہ ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ وہ‘ قرارداد میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ اس میں نہیں آ سکا۔ انہیں کھل کر بتانا پڑا کہ ''ہمیں پاکستان کے موقف کا انتظار ہے۔‘‘ پارلیمنٹ کی قرارداد پر اس سے طنزیہ تبصرہ ممکن نہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنی طرف سے جس ملک کے حق میں قرارداد پاس کی ہے‘ اسی کو پتہ نہیں چلا کہ اس قرارداد میں پاکستان کا موقف کیا ہے؟ اسے باقاعدہ پوچھنا پڑا کہ ''حکومت پاکستان کا موقف کیا ہے؟‘‘
میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اسلام آباد میں‘ کسی کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں۔ آج ہی کورکمانڈرز کانفرنس کے بعد‘ فوج کا جو تجزیہ سامنے آیا ہے‘ اس کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ کورکمانڈرز نے کہا ''یمن بحران کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات ہوں گے۔‘‘ عرب دنیا کے نئے بحران پر اس سے عمدہ اور جامع تبصرہ ممکن نہیں اور یہ پاک فوج کی رائے ہے۔ سمجھنے والے کے لئے سعودی عرب اور اس کے گردونواح میں‘ رونما ہونے والے واقعات کا سرسری سا جائزہ ہی کافی ہے۔ سعودی عرب اپنی سلامتی کے لئے‘ جن خطرات کا اظہار کر رہا ہے‘ وہ صرف یمن کی طرف سے نہیں‘ عراق کی طرف سے بھی ہیں‘ داعش کی طرف سے بھی ہیں‘ جس نے شام اور عراق کے علاقوں پر قبضہ کر کے‘ ایک اسلامی ریاست قائم کر رکھی ہے۔ یمن میںایران کا کردار بھی‘ سعودی عرب کے لئے پریشان کن ہے۔ ایران چارٹرڈ ہوائی جہازوں کے ذریعے یمن میں اسلحہ پہنچا رہا ہے اور اس کے دو بحری جہاز یمن کی دونوں بندرگاہوں پر لنگرانداز ہوئے کھڑے ہیں اور سب سے زیادہ پریشان کن بات القاعدہ کی بڑھتی ہوئی طاقت ہے۔ خانہ جنگی کے دوران جتنا فائدہ القاعدہ نے اٹھایا ہے‘ وہ متحارب فریقوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں ملا۔یمن میں ایران کی آمد‘ القاعدہ کا زور پکڑنا اور حوثیوں کے مقبوضہ علاقوں میں اضافہ ہونا‘ یہ سب ایسے خطرات ہیں‘ جن کے مقابلے کے لئے سعودی عرب کو فوری تیاریوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ‘ہرگزرتے دن کے ساتھ خطرے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی حالت میں اسے مبہم قراردادیں مطمئن نہیں کر سکتیں۔ ایک طرف ہم سعودی عرب کے ساتھ دوستی اور دیرینہ تعلقات کے دعوے کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس کی فوری ضرورت کے تقاضوں کا ادراک نہیں کر پا رہے۔ سعودی حکومت یہ کبھی تسلیم نہیں کرے گی کہ یہ انتشار خیالی ہمارا قومی سٹائل ہے۔ وہ یقینا یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ پاکستان جان بوجھ کر ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ خدانخواستہ سعودی حکمرانوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا‘ تو ہم چاروں طرف پھیلے ہوئے‘ اپنے مخالفوں میں ایک اور مخالف کا اضافہ کر بیٹھیں گے۔
ہم نے پہلے ہی گردونواح میں‘ چاروں طرف دشمن پیدا کر رکھے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ چند ہی سال پہلے کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بے مثال قربانیاں پیش کر کے‘ عالمی برادری میں اپنے لئے حمایت پیدا کی‘ تو ہم نے وہاں مست گل ٹائپ لوگوں کو بھیج کر‘ کشمیری عوام پر دہشت گردی کی تہمت لگوا دی اور مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پر‘ دہشت گردی کا لیبل لگوا کے‘ انہیں بیرونی ہمدردیوں سے محروم کر دیا۔ جب واجپائی امن کا پیغام لے کر آئے‘ نوازشریف اور واجپائی نے امن کا بنیادی ایجنڈا بھی تیار کر لیا‘ تو ہم نے کارگل پر حملہ کر کے‘ امن کے اس چھوٹے سے پودے کو اکھاڑ پھینکا‘ جس نے ابھی جڑ بھی نہیں پکڑی تھی۔ افغانستان میں جو تماشے ہم نے لگائے ہیں‘ ان پر دنیا ہنس رہی ہے۔ جن افغانوں کی ہم نے مدد کی‘ وہ بھی ہم سے بدگمان ہیں۔ جس امریکہ کی خاطر ہم نے اپنی تباہی کا سامان کیا‘ وہ بھی ہم سے ناراض ہے اور افغانستان میں لڑنے کے لئے جو مجاہدین ہم نے تیار کئے‘ وہ بھی پلٹ کر ہم پر حملہ آور ہو گئے۔ پتہ نہیں ان سے کب نجات ملے گی؟ ایران ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہم ہر وقت اس کے ساتھ دوستی کے دعوے کرتے ہیں‘ لیکن باہمی اعتماد کبھی پیدا نہ کر سکے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات جس رخ پر جا رہے ہیں‘ اس طرف سے بھی اچھی خبروں کی امید نہیں۔ پاکستانی عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں‘ لیکن صدر اوباما نے بھارت کے دورے پر جانے سے پہلے ٹیلی فون کر کے ہمیں بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان کا دورہ نہیں کر پائیں گے۔ وجہ؟ وجہ قابل فہم ہے۔ہم اپنی تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کے لئے بھی ڈھنگ سے کوئی کام نہیں کر پا رہے۔ چین اور کئی ملکوں کے ساتھ ایم او یوز پر دستخط کر بیٹھے‘ لیکن کوئی منصوبہ شروع نہ ہوا۔ نندی پور پاور پراجیکٹ بڑے ڈھول باجوں کے ساتھ لگایا گیا‘ جو پاکستان اور چین کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ جب اسے چلایا‘ تو پانچ دنوں میں بند کرنا پڑا۔ پتہ چلا کہ اس میں پیدا ہونے والی بجلی دنیا میں سب سے مہنگی ہے۔ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا‘ تو اپنے حصے کی پائپ لائن بھی نہ بچھا سکے‘ ورنہ چند مہینوں کے اندر وہاں سے گیس کی سپلائی شروع ہو سکتی تھی‘ کیونکہ ایران پر لگی پابندیاں ختم ہونے والی ہیں۔ چین کے ساتھ 19ارب ڈالر کے تھرکول منصوبے شروع کرنے کا معاہدہ 2011ء میں ہوا۔ چین عدم کارکردگی سے بددل ہو کر اسے چھوڑ گیا۔دنیا بھر کے سرمایہ کار ہی نہیں‘ پاکستانی بھی ان مل‘ بے جوڑ سرکاری پالیسیوں پر مخمصے میں ہیں اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہاں سرمایہ کاری کیسے کی جائے۔ ترقیاتی منصوبوں سے اتنی بے اعتنائی اور پالیسیوں میں تضادات کے ہوتے ہوئے‘ صدر اوباما کو پاکستان کے دورے سے کیا لینا ہے؟ میری دردمندانہ درخواست ہے‘ خدا کے لئے‘ سعودی عرب کو مخلص دوست سمجھتے ہوئے‘ اس کے لئے جو کچھ کرنا ہے یا نہیں کرنا‘ اسے کھل کر بیان کردیں۔ ورنہ جو طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے‘ اس کے نتیجے میں تعلقات بگڑنے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔